Pages

Monday, November 7, 2016

ختم نبوت اور قرآن ( حصہ دوئمختم نبوت اور قرآن حصہ دوئم تحریر محمد حنیف

ختم نبوت اور قرآن ( حصہ دوئم



معاشرے میں موجود برائیاں ، مشکلات اور مصائب کو دیکھ کر ، ھمارے چند دوست  یہ سوال اٹھاتے ھیں کہ جب ماضی میں کسی قوم میں چھوٹی چھوٹی برائیاں تھیں ، تو ان اقوام پر اللہ کریم اپنے نبی و رسول بھیجا کرتے تھے ، اور آج جب کہ ساری دنیا ان گنت مسائل کا شکار ھے ، قدم قدم پر ظلم ، نا انصافی ، استبداد موجود ھے تو آخر کیا وجہ ھے کہ آج وہ خدا کوئی نبی و رسول نہیں بھیجتا ؟؟ معاذ اللہ ، کیا یہ زیادتی نہیں ھے ؟؟

اس سوال کا جواب تو اس مضمون کے آغاز پر ھی دے دیا گیا ھے کہ کس طرح ، انسانی ارتقاء کی منازل طے ھو رھی ھیں ۔۔
کس طرح انسان زیادہ سے زیادہ خودمختار اور آزاد ھوتا جا رھا ھے ۔۔
کس طرح انسان اپنے جسمانی ارتقاء کے بعد ، ذھنی ارتقاء کی منازل طے کرتا چلا جا رھا ھے ۔۔
اور ذھنی ارتقاء کی اس منزل پر ، انسانی شعور اس درجہ بالغ اور خودمختار ھو گیا ھے کہ اسے اب کسی "انسانی معلم "کی ضرورت ھی نہیں رھی ۔۔

اب یہ انسان اپنے شعور کی موجودہ سطح پر ، خود ھی راستوں کے درست انتخاب ، اور صحیح منزل تک پہنچنے کے قابل ھو گیا ھے ۔۔ چنانچہ ایک مکمل ، محفوظ ، ابدی ھدایت نامے کی موجودگی میں ، آج کے انسان کو کسی خارجی سہارے کی ضرورت ھی نہیں رھی ۔ نہ ھی کسی اور آسمانی کتاب کی ضرورت رھی اور نہ ھی اصطلاحی معنوں میں کسی نبی و رسول کی ۔۔۔۔

لیکن ، اس سچائی کی موجودگی میں ، کہ اب آسمان سے نہ کوئی پیغام آئے گا ، اور نہ ھی کوئی راہ دکھلانے والا ۔۔۔۔ جس نے آنا تھا ، وہ چودہ صدیوں قبل ، عرب کے ریگستانوں میں ، اپنے جمال کی کرنیں بکھیر کر اپنے رب کے پاس واپس چلا  گیا ھے ۔۔  یہ ایک بہت بڑی ذمہ داری ھے ۔۔ کہ اب جو کچھ بھی کرنا ھے ، اس انسان نے خود کرنا ھے ۔۔

اور ھمارے بہت سارے احباب ، اس ذمہ داری کو اٹھانے کی بات تو دیگر ، اس کا تصور کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ۔۔

چنانچہ کچھ لوگ ، اولیاء اللہ کی اصطلاح میں پناہ ڈھونڈتے نظر آتے ھیں ، اور کشف و الہام کا سہارا لیتے ھیں ۔۔

تو کچھ لوگ ایک نئے نبی کی آمد کو تسلیم کرتے نظر آتے ھیں ۔۔ اور اس بناء پر ایک الگ فرقہ     " احمدی " بنا لیتے ھیں ۔۔

تو کچھ لوگ ، ایک " مہدی "کی آمد کے منتظر نظر آتے ھیں ۔۔
۔۔

اب ظاھر ھے کہ ھمارے یہ احباب ، قرآن کریم سے  تو اپنے ان عقائد اور نظریات کے حوالے سے کوئی سند حاصل نہیں کر سکتے ، چنانچہ کتب روایات سے اپنی مرضی و منشاء کے دلائل حاصل کر کے خود کو حق ثابت کرنے کی کوشش کرتے  رھتے ھیں ۔۔

لیکن ھمارے وہ دوست جو کتب روایات سے اختلاف رکھتے ھیں ۔۔ اپنے تئیں ، قرآن کریم ھی کو سند تسلیم کرتے ھیں ۔۔۔ وہ بھی اس حقیقت کو ماننے اور اپنے کردار کی ادایئگی کی تیاری کے بجائے ، ایک نیا فلسفہ پیش کرتے ھیں کہ

جناب قرآن کریم نے انبیاء کی آمد کے سلسلے کے اختتام کا کہا ھے ۔۔ لیکن اللہ کے رسول ھر دور میں آتے رھیں گے ۔۔

اور حضور اکرم صلعم کے بعد ، اب کوئی نیا نبی نہیں آ سکتا ، مگر رسول آتے رھیں گے ، اور حضور صلعم کے بعد ، ھر دور میں آتے رھے ھیں ، اور آئندہ بھی آتے رھیں گے ۔۔۔
اپنے موقف کی دلیل کے طور پر وہ قرآن کریم کی کچھ آیات کو اپنے سیاق و سباق سے الگ کر کے ، اپنی منشاء کے معنی پہنانانے کی کوشش کرتے ھیں ۔۔

درحقیقت یہ نظریہ و فلسفہ جناب بہاء اللہ صاحب نے پیش کیا ۔۔ اور ایک قابل ذکر تعداد میں ھمارے یہ بھائی " بہائی " فرقہ کے نام سے موجود ھیں ۔۔ جناب بہاء اللہ صاحب کا اصل وطن ایران تھا ۔۔ اور وھیں سے انھوں نے اس نظریہ کی ابتداء کی ۔۔۔

دوستو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جیسا کہ متعدد بار اس بات کا اظہار ، کرتا رھا ھوں ، اور اب پھر کر رھا ھوں کہ قرآن کریم کی ھدایات کو درست طور پر سمجھنے کےلیے بہت ضروری ھے کہ ھم اس کی آیات کو ، پہلے سے طے شدہ عقیدہ کے تناظر میں سمجھنے کے بجائے ، بلکل خالی الذھن ھو کر سمجھیں ۔۔

اس کی آیات کو اس کے مکمل سیاق و سباق کے ساتھ سمجھیں ۔۔ اور ان آیات کو درست سمجھنے کے لیے ، قرآن کریم کی بنیادی تعلیم کو بھی سامنے رکھیں ۔۔

اگر ھم ان باتوں کا خیال نہیں کریں گے ، تو سوائے گمراھی کے ھمارے حصے میں کچھ بھی نہیں آسکتا ۔۔۔۔

آئیے سب سے پہلے ھم ، قرآن کریم سے اس بات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ھیں کہ کیا نبی و رسول ، دو مختلیف شخصیات ھوتی ھیں یا یہ ایک ھی بات ھے ۔۔۔

نبی

عربی زبان میں لفظ " نبی " کا مادہ " نباء " ھے ۔۔ جس کے معنی خبر دینا ھے ۔۔ ابن فارس ۔۔ تاج العروس ۔۔۔۔

قرآن کریم میں ارشاد ھے ۔۔۔۔

نَبِّئْ عِبَادِي أَنِّي أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ [١٥:٤٩]
میرے بندوں کو اطلاع دے کہ بےشک میں بحشنے والا مہربان ہوں [احمد علی]

مزید ارشاد فرمایا ۔۔

وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ إِبْرَاهِيمَ [٢٦:٦٩]
اور انہیں ابراھیم کی خبر سنا دے [احمد علی]

چنانچہ آیات بالا سے اس مادہ " نباء" کے معنی خبر دینے کے ھیں ۔۔ اس جہت سے نبی ، خبر دینے والے کو کہتے ھیں ۔۔

اس کے ساتھ ھی اس لفظ نبی کا ایک اور مادہ " نبو " بھی ھے جسکہ معنی بلندی کے ھیں "النبی "  بلند جگہ کو کہتے ھیں ، نیز بلند نشان راہ ، جس سے راھنمائی حاصل کی جائے ۔۔(تاج العروس)

چنانچہ کوئی انسان جس سے اس کا رب مخاطب ھو ، اسے وحی کا علم عطا فرمائے ، وہ اپنے علم کی وجہ سے بلند و بالا مقام پر کھڑا ھوتا ھے ۔۔ وہ دوسرے انسانوں کے لیے نشان راہ ھوتا ھے ۔۔ اس عظیم المرتبت انسان کو قرآن " نبی " کہتا ھے ۔۔۔۔

رسول

عربی زبان کے مطابق " رسول " کا مادہ " ر س ل " ھے ۔۔ اس کے معنی اطمینان و سکون کے ساتھ چل پڑنا ھے ۔۔ (تاج العروس )

الارسال کے معنی بھیجنے کے ھیں ۔۔
الرسول ۔۔۔ جو شخص خدا کی طرف سے بندوں کی طرف بھیجا جائے ، خود وہ شخص بھی رسول کہلاتا ھے ، اور اس کا پیغام بھی رسول کہلاتا ھے ۔۔ یعنی لفظ رسول ۔۔  "رسالۃ " اور" مرسل " دونوں معنوں میں آتا ھے ( تاج العروس )

اس جہت سے رسول اس انسان کو کہیں گے ، جو اپنے بھیجنے والے کی طرف سے مسلسل بتدریج ،نہایت نرم روی سے پیغام دے ۔۔ نیز اس کا پیغام خود بھی رسول ھوتا ھے ۔۔ اس جہت سے ھر نبی و رسول کی کتاب بھی " رسول " ھوتی ھے ۔۔۔

وہ انسان جسے وحی خداوندی عطا فرما دی گئ ھو ، علم یقینی کا مالک ھو جاتا ھے ۔۔ وہ کائنات میں خدائے بزرگ و برتر ، علیم و خبیر کے بعد ، سب سے زیادہ علیم و خبیر ھوتا ھے ۔۔ اور اپنی اس جداگانہ حیثیت کی بناء پر ، دوسرے انسانوں کے مقابلے میں سب سے بلند و بالا مقام پر فائز ھو جاتا ھے ۔۔

سوال یہ ھے کہ اس بلند و بالا حیثیت کو پا لینے کے بعد وہ کیا کرتا ھے ۔۔

کیا وہ انسان محض لوگوں تک اپنے رب کی بات پہنچانے تک ھی محدود رھتا ھے ؟؟

کیا وہ پیغام ربانی کو لوگوں تک پہنچا کر ، اس مقصد کو حاصل کر لیتا ھے ، جس کے لیے اس کا انتخاب ، مشیت اپنے لامحدود علم کی بناء پر کرتی ھے ؟؟

اس سوال کے جواب میں قرآن کریم کا یہ بیان کہ اس منصب جلیلہ کے لیے مشیت نے اپنے بندوں میں ،صرف اور صرف مردوں کا ھی انتخاب کیا ۔۔ ایک ایسی چشم کشا حقیقت کو آشکار کرتا ھے کہ نبی و رسول کا منصب محض پیغام ربانی کو دوسرے لوگوں تک پہنچانے کا ھی نام نہیں ۔۔

بلکہ اس منصب کا تقاضہ ، ربانی ھدایت کی روشنی میں ، ایک ایسے معاشرے کا قیام ھے ، جو مقصود پروردگار ھے ۔۔ اور یہ مرحلہ کس درجہ کٹھن اور جاں گسل ھوتا ھے ، قرآن کریم میں تمام انبیاء و رسل کے واقعات میں اس کا بیان ، رونگٹے کھڑے کر دینے والا ھے ۔۔

اور ظاھر ھے کہ اپنی جسمانی ساخت اور نازکی ، کی وجہ سے کوئی خاتون اس مشکل اور کٹھن راہ کا مسافر بن ھی نہیں سکتی تھی ۔۔

چنانچہ اس مقام پر ، ھمیں اس بلند و بالا شخصیت کے حقیقی مقام کا ادراک ھو جاتا ھے ۔۔ ایک طرف وہ اپنے مرتبہ عظیم کی بناء پر اللہ کا نبی ھوتا ھے ،  تو اس کے ساتھ ھی وحی ربانی کو لوگوں تک پہنچانے ، اور اس وحی کی روشنی میں ایک معاشرے کی تشکیل، اور اللہ کریم کے عطا کئے ھوئے ضابطہ حیات کے عملی نفاذ کی جدوجہد کرنے کی جہت سے ایک رسول ھوتا ھے ۔۔

وہ نہایت ھی آھستہ خرامی سے ، بتدریج ، ایک ایسی ٹیم کی تشکیل کرتا ھے جو بعد میں اس دنیا میں ، دین کے تمکن اور عملی نفاذ کو ممکن بنا دیتی ھے ۔۔

نبی و رسول ایک ھی شخصیت کے دو عہدے ھیں ۔۔ جو ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم ھیں ۔

یہ ممکن ھی نہیں کہ کوئی انسان رسول ھو ، لیکن وہ بلند و بالا حیثیت کا مالک نہ ھو ۔ اس ھی طرح یہ بھی ناممکن ھے کہ اللہ کریم کسی انسان کو وحی جیسے عظیم المرتبت نعمت سے نوازے ، اور وہ ایک بلند و بالا مرتبہ کے مالک بن جانے کے بعد ، اس وحی ربانی کو دوسروں تک منتقل نہ کرے ۔۔


قرآن کریم نے تمام انبیاء علیہ سلام کو ، رسول بھی کہا ھے ۔۔ جس طرح وہ تمام انبیاء علیہ سلام پر ایمان کا تقاضہ کرتا ھے ، اس ھی طرح وہ تمام مرسلین پر ایمان کا مطالبہ بھی کرتا ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ارشاد باری تعالٰی ھے ۔۔۔۔۔۔

آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ ۔۔۔ 2/177
اللہ پر ایمان ، روز قیامت پر ایمان ، اللہ کے ملائکہ پر ایمان ، اللہ کی نازل کی ھوئی کتابوں پر ایمان ، اللہ کے بھیجے ھوئے انبیاء پر ایمان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مزید ارشاد فرمایا ۔۔۔۔۔۔۔۔

آمَنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ ۔۔۔ ٢:٢٨٥]
اللہ پر ایمان ، اللہ کے ملائکہ پر ایمان ، اللہ کی نازل کی ھوئی کتابوں پر ایمان ، اللہ کے بھیجے گئے  رسولوں پر ایمان ۔۔۔

کسی مومن کا ایمان مکمل ھو نہیں سکتا ، اگر وہ ان میں سے کسی ایک سے بھی انکار کر دے ۔۔ یا کسی ایک کو اپنے ایمان کا جز نہ قرار دے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اب اگر کسی ایسے عقیدے کو مان لیا جائے کہ جناب انبیاء کی آمد کا سلسلہ تو ختم ھو گیا ھے ۔۔ لیکن رسول آتے رھے ھیں اور آتے رھیں گے ۔۔ تو پھر حضور اکرم کے بعد کے تمام کے تمام مسلمان دائرہ اسلام سے خارج ھو جاتے ھیں کیونکہ صحابہ کرام کے سے لے کر ، آج تک عام انسان کسی ایسے رسول کی آمد سے بے خبر ھے جس پر ایمان لانا قرآن کریم کے حکم کے مطابق لازم ھے ۔۔

سوال یہ ھے کہ اس بات کا تعین کیسے ھوگا کہ کون اللہ کا بھیجا ھوا رسول ھے ۔۔

اور اگر محض کسی انسان کے دعوے کو ھی اس کے رسول ھونے کی سند مان لیا جائے ، تو پھر اس عقیدے کا بھی وہ ھی انجام ھے جو عقیدہ مسیح علیہ سلام کی واپسی اور کسی نام نہاد مہدی کی آمد کا ھے ۔۔ کہ جس نے بھی اس کا دعویٰ کیا ، مارا گیا ۔۔۔

قرآن کریم اس گمراہ کن عقیدے کو جڑ سے کاٹ پھینکتا ھے جب وہ ان ھی اصحاب کو جنھیں وہ نبی کہہ کر پکارتا ھے ، اپنے رسول بھی قرار دیتا ھے ۔۔ چنانچہ ارشاد فرمایا ۔۔۔

وَوَهَبْنَا لَهُۥٓ إِسْحَـٰقَ وَيَعْقُوبَ ۚ كُلًّا هَدَيْنَا ۚ وَنُوحًا هَدَيْنَا مِن قَبْلُ ۖ وَمِن ذُرِّيَّتِهِۦ دَاوُۥدَ وَسُلَيْمَـٰنَ وَأَيُّوبَ وَيُوسُفَ وَمُوسَىٰ وَهَـٰرُونَ ۚ وَكَذَٰلِكَ نَجْزِى ٱلْمُحْسِنِينَ ﴿٨٤﴾ وَزَكَرِيَّا وَيَحْيَىٰ وَعِيسَىٰ وَإِلْيَاسَ ۖ كُلٌّ مِّنَ ٱلصَّـٰلِحِينَ﴿٨٥﴾ وَإِسْمَـٰعِيلَ وَٱلْيَسَعَ وَيُونُسَ وَلُوطًا ۚ وَكُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى ٱلْعَـٰلَمِينَ﴿٨٦﴾ وَمِنْ ءَابَآئِهِمْ وَذُرِّيَّـٰتِهِمْ وَإِخْوَٰنِهِمْ ۖ وَٱجْتَبَيْنَـٰهُمْ وَهَدَيْنَـٰهُمْ إِلَىٰ صِرَٰطٍ مُّسْتَقِيمٍ ﴿٨٧﴾ ذَٰلِكَ هُدَى ٱللَّـهِ يَهْدِى بِهِۦ مَن يَشَآءُ مِنْ عِبَادِهِۦ ۚ وَلَوْ أَشْرَكُوا۟ لَحَبِطَ عَنْهُم مَّا كَانُوا۟ يَعْمَلُونَ ﴿٨٨﴾ أُو۟لَـٰٓئِكَ ٱلَّذِينَ ءَاتَيْنَـٰهُمُ ٱلْكِتَـٰبَ وَٱلْحُكْمَ وَٱلنُّبُوَّةَ ۚ فَإِن يَكْفُرْ بِهَا هَـٰٓؤُلَآءِ فَقَدْ وَكَّلْنَا بِهَا قَوْمًا لَّيْسُوا۟ بِهَا بِكَـٰفِرِينَ ﴿٨٩﴾ أُو۟لَـٰٓئِكَ ٱلَّذِينَ هَدَى ٱللَّـهُ ۖفَبِهُدَىٰهُمُ ٱقْتَدِهْ ۗ قُل لَّآ أَسْـَٔلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا ۖ إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرَىٰ لِلْعَـٰلَمِينَ ۔۔ 6/90

اور ہم نے ان کو اسحاق دیا اور یعقوب ہر ایک کو ہم نے ہدایت کی اور پہلے زمانہ میں ہم نے نوح کو ہدایت کی اور ان کی اوﻻد میں سے داؤد کو اور سلیمان کو اور ایوب کو اور یوسف کو اور موسیٰ کو اور ہارون کو اور اسی طرح ہم نیک کام کرنے والوں کو جزا دیا کرتے ہیں (84) اور (نیز) زکریا کو اور یحيٰ کو اور عیسیٰ کو اور الیاس کو، سب نیک لوگوں میں سے تھے (85) اور نیز اسماعیل کو اور یسع کو اور یونس کو اور لوط کو اور ہر ایک کو تمام جہان والوں پر ہم نے فضیلت دی (86) اور نیز ان کے کچھ باپ دادوں کو اور کچھ اوﻻد کو اور کچھ بھائیوں کو، اور ہم نے ان کو مقبول بنایا اور ہم نے ان کو راه راست کی ہدایت کی (87) اللہ کی ہدایت ہی ہے جس کے ذریعے اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے اس کی ہدایت کرتا ہے اور اگر فرضاً یہ حضرات بھی شرک کرتے تو جو کچھ یہ اعمال کرتے تھے وه سب اکارت ہوجاتے (88) یہ لوگ ایسے تھے کہ ہم نے ان کو کتاب اور حکمت اور نبوت عطا کی تھی سو اگر یہ لوگ نبوت کا انکار کریں تو ہم نے اس کے لئے ایسے بہت سے لوگ مقرر کردیئے ہیں جو اس کے منکر نہیں ہیں (89) یہی لوگ ایسے تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت کی تھی، سو آپ بھی ان ہی کے طریق پر چلیئے آپ کہہ دیجیئے کہ میں تم سے اس پر کوئی معاوضہ نہیں چاہتا یہ تو صرف تمام جہان والوں کے واسطے ایک نصیحت ہے ۔۔ ترجمہ جناب محمد جونا گڑھی صاحب

آیت بالا میں ، ان تمام حضرات علیہ سلام کو اللہ کا نبی کہا گیا ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مزید ارشاد فرمایا ۔۔۔

وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللَّهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَٰكِن شُبِّهَ لَهُمْ ۚ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ ۚ مَا لَهُم بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ ۚ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينًا [٤:١٥٧]
اور ان کے اس کہنے پر کہ ہم نے مسیح عیسیٰ مریم کے بیٹے کو قتل کیا جو الله کا رسول تھا حالانکہ انہوں نے نہ اسے قتل کیا اور نہ سولی پر چڑھایا لیکن ان کو اشتباہ ہو گیا اورجن لوگوں نے اس کے بارے میں اختلاف کیا ہے وہ بھی دراصل شک میں مبتلا ہیں ان کے پا س بھی اس معاملہ میں کوئی یقین نہیں ہے محض گمان ہی کی پیروی ہے انہوں نے یقیناً مسیح کو قتل نہیں کیا [احمد علی]

مزید فرمایا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِسْمَاعِيلَ ۚ إِنَّهُ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَكَانَ رَسُولًا نَّبِيًّا [١٩:٥٤]

اور اس کتاب میں اسماعیلؑ کا ذکر کرو وہ وعدے کا سچا تھا اور رسُول نبی تھا [ابوالاعلی مودودی]

مزید فرمایا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

إِنَّا أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ كَمَا أَوْحَيْنَا إِلَىٰ نُوحٍ وَالنَّبِيِّينَ مِن بَعْدِهِ ۚ وَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَعِيسَىٰ وَأَيُّوبَ وَيُونُسَ وَهَارُونَ وَسُلَيْمَانَ ۚ وَآتَيْنَا دَاوُودَ زَبُورًا [٤:١٦٣]

اے محمدؐ! ہم نے تمہاری طرف اُسی طرح وحی بھیجی ہے جس طرح نوحؑ اور اس کے بعد کے پیغمبروں کی طرف بھیجی تھی ہم نے ابراہیمؑ، اسماعیلؑ، اسحاقؑ، یعقوبؑ اور اولاد یعقوبؑ، عیسیٰؑ، ایوبؑ، یونسؑ، ہارونؑ اور سلیمانؑ کی طرف وحی بھیجی ہم نے داؤدؑ کو زبور دی [ابوالاعلی مودودی

وَرُسُلًا قَدْ قَصَصْنَاهُمْ عَلَيْكَ مِن قَبْلُ وَرُسُلًا لَّمْ نَقْصُصْهُمْ عَلَيْكَ ۚ وَكَلَّمَ اللَّهُ مُوسَىٰ تَكْلِيمًا [٤:١٦٤]

ہم نے اُن رسولوں پر بھی وحی نازل کی جن کا ذکر ہم اِس سے پہلے تم سے کر چکے ہیں اور اُن رسولوں پر بھی جن کا ذکر تم سے نہیں کیا ہم نے موسیٰؑ سے اِس طرح گفتگو کی جس طرح گفتگو کی جاتی ہے [ابوالاعلی مودودی]

رُّسُلًا مُّبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا [٤:١٦٥]

یہ سارے رسول خوش خبری دینے والے اور ڈرانے والے بنا کر بھیجے گئے تھے تاکہ اُن کو مبعوث کردینے کے بعد لوگوں کے پاس اللہ کے مقابلہ میں کوئی حجت نہ رہے اور اللہ بہرحال غالب رہنے والا اور حکیم و دانا ہے [ابوالاعلی مودودی]

آیات بالا میں ، ان ھی حضرات علیہ سلام کو ، جنھیں ان سے پہلے کی آیات میں انبیاء علیہ سلام کہا گیا ھے ، اللہ کے رسول کہا گیا ھے ۔۔۔

چنانچہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ھے کہ نبوت و رسالت ایک ھی شخصیت کے دو عہدے ھیں ۔۔

ھمارے قرآنی فکر کے دعوے دار احباب کا یہ عقیدہ ( حالانکہ یہ عقیدہ درحقیقت " بہائی " فرقہ کا عقیدہ ھے )  بھی سامنے آیا ھے کہ نبی صاحب کتاب ھوتا ھے ۔۔ لیکن رسول ، صاحب کتاب نہیں ھوتا ۔۔
چنانچہ اس جہت سے وہ نبی و کتاب کے خاتمے کو تو مانتے ھیں لیکن ھر دور میں کسی رسول کے ھونے کے قائل ھیں ، جو کتاب آخر یعنی قرآن کریم کی تعلیمات کو عام کرے اور دین کے عملی نفاذ کی جدوجہد کرے ۔۔

لیکن قرآن کریم اس باطل عقیدے کو بھی تسلیم نہیں کرتا ۔۔ چنانچہ ایک طرف وہ تمام انبیاء علیہ سلام کی طرف کتاب کے نزول کو بیان کرتا ھے ، تو تمام رسولوں کی طرف بھی وحی خداوندی کا پتہ بھی دیتا ھے ۔۔۔

چنانچہ ارشاد باری تعالٰی ھے ۔۔۔

لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ۖ وَأَنزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اللَّهُ مَن يَنصُرُهُ وَرُسُلَهُ بِالْغَيْبِ ۚ إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ [٥٧:٢٥]
بیشک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح نشانیوں کے ساتھ بھیجا اور ہم نے اُن کے ساتھ کتاب اور میزانِ عدل نازل فرمائی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہو سکیں، اور ہم نے (معدنیات میں سے) لوہا مہیّا کیا اس میں (آلاتِ حرب و دفاع کے لئے) سخت قوّت اور لوگوں کے لئے (صنعت سازی کے کئی دیگر) فوائد ہیں اور (یہ اس لئے کیا) تاکہ اللہ ظاہر کر دے کہ کون اُس کی اور اُس کے رسولوں کی (یعنی دینِ اسلام کی) بِن دیکھے مدد کرتا ہے، بیشک اللہ (خود ہی) بڑی قوت والا بڑے غلبہ والا ہے، [طاہر القادری]

آیت بالا میں تمام رسولوں پر کتاب کے نزول کا بیان ھے ۔۔۔۔ مزید فرمایا ۔۔

كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللَّهُ النَّبِيِّينَ مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ وَأَنزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ ۚ وَمَا اخْتَلَفَ فِيهِ إِلَّا الَّذِينَ أُوتُوهُ مِن بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنَاتُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ ۖ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِهِ ۗ وَاللَّهُ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ [٢:٢١٣]

سب لوگ ایک دین پر تھے پھر الله نے انبیاء خوشخبری دینے والے اور ڈرانے والے بھیجے اور ان کے ساتھ سچی کتابیں نازل کیں تاکہ لوگوں میں اس بات میں فیصلہ کرے جس میں اختلاف کرتے تھےاور اس میں اختلاف نہیں کیا مگر انہیں لوگوں نے جنھیں وہ (کتاب) دی گئی تھی اس کے بعد کہ ا ن کے پاس روشن دلیلیں آ چکی تھیں آپس کی ضد کی وجہ سے پھر الله نے اپنے حکم سے ہدایت کی ان کو جو ایمان والے ہیں اس حق بات کی جس میں وہ اختلاف کر رہے تھے اور الله جسے چاہے سیدھے راستے کی ہدایت کرتا ہے [احمد علی]


آیت بالا میں ، تمام انبیاء پر کتاب اللہ کے نزول کا بیان ھے ۔۔۔

بات تو عقل و شعور کی ھے ۔۔ کوئی بھی پیام بر ، کیا کرنے آئے گا اگر اس کے ساتھ  ھدایت ھی نہ ھو ۔۔ وہ کس شئے کی تبلیغ و ترویج کرے گا ؟؟

دلائل بالا اور آیات قرآنی کی روشنی میں یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ھے کہ نبی یا رسول ، ایک ھی شخصیت کے دو روپ ھیں ۔۔ وحی خداوندی کے حصول کی وجہ سے وہ ھی شخصیت اپنے بلند و بالا عظیم منصب پر ایک نبی کے نام سے فائز ھوتی ھے ، تو اس وحی خداوندی کو دوسرے انسانوں تک پہنچانے اور اس وحی کی روشنی میں دین کے نفاذ کی عملی جدوجہد کرنے کا عمل رسالت کہلاتا ھے ۔۔

ھر نبی رسول ھوتا ھے ۔۔ اور ھر رسول نبی ھوتا ھے ۔۔

وحی ربانی کی عدم موجودگی میں کوئی انسان نہ تو نبوت کا دعویٰ کر سکتا ھے اور نہ ھی رسالت کا ۔۔

یہ تصور کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے بعد ، انبیاء کی آمد کا سلسلہ تو ختم ھوگیا ھے ۔۔ نزول وحی کا سلسلہ تو ختم ھو گیا ھے ۔۔ لیکن اس کتاب آخر کی تعلیم ، اس کے نفاذ کے لیے رسولوں کی آمد جاری و ساری ھے ۔۔ مکمل طور پر غیر قرآنی عقیدہ ھے ۔۔

کسی نبی و رسول کے جانے کے بعد ، اس کی کتاب پر عمل درآمد کے لیے کسی رسول کی آمد تو بہت دور کی بات ھے ، کسی دور میں دو رسولوں کی ایک ھی وقت بعثت بھی ، الگ الگ وحی خداوندی کے بغیر ممکن نہ تھی ۔۔

حضرت موسیٰ علیہ سلام ، اور حضرت ھارون علیہ سلام ایک ھی وقت میں اللہ کے رسول تھے ۔۔ قرآن ھمیں موسٰی علیہ سلام کی کتاب کا بتاتا ھے ۔۔ تو پھر حضرت ھارون علیہ سلام پر کسی اور کتاب کے نزول کی کیا ضرورت تھی ۔۔ لیکن قرآن اس حوالے سے واضح بیان فرماتا ھے ۔۔۔۔ ارشاد ھے ۔۔


وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَىٰ وَهَارُونَ الْفُرْقَانَ وَضِيَاءً وَذِكْرًا لِّلْمُتَّقِينَ [٢١:٤٨]

اور البتہ تحقیق ہم نے موسیٰ اور ہارون کو فیصلہ کرنے والی اور روشنی دینے والی اور پرہیز گاروں کو نصیحت کرنے والی کتاب دی تھی [احمد علی]

سوال یہ ھے کہ ایک ھی وقت میں ، ایک ھی قوم پر دو رسول موجود ھوں ، تب بھی ان دونوں کی رسالت مکمل نہیں ھوتی ، اگر ان پر اللہ کریم کی طرف سے وحی نازل نہ ھوتی ھو ۔۔ بغیر وحی کے نہ نبوت کا تصور ھے اور نہ ھی رسالت کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حضور اکرم صلعم کے بعد ، نبوت یا رسالت کا دعویٰ ، درحقیقت وحی ربانی کے جاری و ساری رھنے کا دعویٰ ھے ۔۔ قرآن کریم کی اکملیت پر سوالیہ نشان ھے ۔۔

ھر دور میں ، مختلف لوگ اس طرح کے غیر قرآنی نظریات کو سامنے لاتے رھے ھیں ۔۔

غور طلب بات یہ ھے کہ ایسا کیوں کیا جاتا ھے ۔۔ اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے ، ھمیں وحی کی حقیقت کو سمجھنا ھوگا ۔۔۔

آپ غور فرمائیں ۔۔ کہ قرآن کریم نے تمام نوع انسانی کو ، اس کی عملی زندگی کے لیے تمام تر ھدایات عطا فرما دی ھیں ۔۔ قرآن کریم نے یہ طے کر دیا ھے کہ کیا کرنا ھے اور کیا نہیں کرنا ھے ۔۔ کیا جائز ھے اور کیا ناجائز ھے ۔۔ کیا حلال ھے اور کیا حرام ھے ۔۔ کیا جنت ھے اور کیا جہنم ھے ۔۔۔۔


اب کسی نئے رسول کی آمد ، درحقیقت ایک نئی وحی خداوندی کی آمد کا دعویٰ ھے ۔۔ جو یہ طے کرے گی کہ ،

اب کون کون سی چیزیں حلال ھیں اور کیا حرام ھے ۔۔ کیا جائز ھے اور کیا ناجائز ھے ۔۔ کیا کرنا ھے اور کیا نہیں کرنا ھے ۔۔۔ اور اس طرح ، وہ تمام ھدایات و راھنمائی جو قرآن کریم میں ابدی طور پر عطا فرما دی گئ ھیں ، وہ فقط یاد ماضی بن کر رہ جائیں ۔۔

اور دور حاضر کے عیار اور فطین لوگ ، انسانوں پر اپنی مرضی و منشاء کے قوانین نافذ کر سکیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 
آخر میں وہ آیت مبارکہ پیش خدمت ھے ، جو کسی نئے رسول کی آمد کے تصور اور عقیدے کو جڑ سے کاٹ دیتی ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ارشاد باری تعالٰی ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔ 

وَإِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُم مُّصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِن بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ ۖ فَلَمَّا جَاءَهُم بِالْبَيِّنَاتِ قَالُوا هَٰذَا سِحْرٌ مُّبِينٌ [٦١:٦]
اور جب عیسیٰ بن مریم نے کہا اے بنی اسرائیل بے شک میں الله کا تمہاری طرف سے رسول ہوں تورات جو مجھ سے پہلے ہے اس کی تصدیق کرنے والا ہوں اور ایک رسول کی خوشخبری دینے والا ہوں جو میرے بعد آئے گا اس کا نام احمد ہو گا پس جب وہ واضح دلیلیں لے کر ان کے پاس آ گیا تو کہنے لگے یہ تو صریح جادو ہے [احمد علی]

آیت بالا اس سنت خداوندی کو بیان کرتی ھے کہ ھر جانے والا  رسول ، اپنے بعد آنے والے رسول کا پتہ اپنے پیروکاروں کو لازماً دیا کرتا تھا ۔۔

تاکہ اس کی قوم کے جو افراد اس آنے والے رسول کے دور میں موجود ھوں ، وہ اس رسول کو پہچان لیں اور اس پر ایمان لے آئیں ۔۔

چنانچہ حضرت عیسیٰ علیہ سلام نے اپنی قوم کو اپنے بعد آنے والے رسول ، نبی مکرم محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم ، کا پتہ ان کے نام کے ساتھ دے دیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن پورے قرآن میں ، نبی اکرم ، محمد رسول اللہ کے بعد ،  نہ کسی آنے والے کا کوئی ذکر ھے اور نہ ھی  کوئی گنجائش ۔۔۔۔۔۔۔

البتہ لغوی معنوں میں ، امت محمدیہ کا ھر فرد ، اپنی اپنی جگہ رسول ھے ۔۔

جس پر دین کی تبلیغ اور اس کے نفاذ کے لیے عملی جدوجہد کرنے کا فریضہ لازم ھے ۔۔۔

نیز اس ھی طرح ، قرآن کریم بھی اپنی جگہ ،خود رسول ھے ۔۔

جو لوگوں کی راھنمائی کے لیے ھر وقت ، ھر لمحہ دستیاب ھے ۔۔ اور خصوصاً ھمارے ان دوستوں کے گھروں میں تو لازماً موجود ھے ، جو اس عظیم الشان حقیقت کے ھوتے ھوئے ، اپنے جیسے کسی دوسرے انسان کی آمد کے منتظر ، و محتاج ھیں ۔۔۔۔

اور اس سچائی کا عملی نمونہ ھیں کہ ھم خود سے ، نہ تو اس کتاب عظیم کے سانچے میں ڈھلیں گے ، اور نہ ھی کسی اور کو ایسا کرنے کی ترغیب دیں گے ۔۔ ھم تو اپنی موجودہ حالت میں ھی رھیں گے ۔۔

ھاں اگر کوئی اور آ کر ھمیں سدھار دے تو سدھار دے ۔۔ ھم خود سے سدھرنے والے نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment