ناموس رسالت
تحریر: محمد حنیف
ناموس رسالت کسی بھی
مومن کی متاع حیات ہے اس کی زندگی کا کل اثاثہ ہے ۔۔۔ایمان کا حصہ ہے۔۔اور اس
میں تمام کے تمام انبیاء علیہ السلام شامل ہیں ۔۔۔
اور اگربات آجائے اس وارث لوح و قلم کی، آفتاب رسالت کی، آقائے
کائنات کی، رحمة للعلمین کی، اور اللہ کریم کے الفاظ میں خُلقِ عظیم کی، تو بھر نہ ہوش ہے نہ سوال ہے نہ خواب ہے ، نہ خیال ہے ، نہ عقل ہے نہ شعورہے، نہ سوال ہے نہ جواب ہے، عشق ہی عشق ہے، جنون ہی جنون ہے ،چاہت محبت ادب احترام خاکساری
تابعداری، اور غیر مشروط وفاداری ہے ۔۔۔۔۔۔اور جب خرد نہ ہو جنوں ہو تو پھر کسی کی
جان کیا اپنی جان کی بھی کوئی وقعت نہیں ہوتی۔۔۔۔
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ھے محو تماشہء لبِ بام ابھی
توہین رسالت کیا ہے۔۔۔۔کیا یہ کوئی جرم ہے۔۔۔۔
یا کوئی مذاق ہے۔۔۔
آیئے اللہ کی کتاب سے پوچھتے ہیں۔۔۔۔۔فرمایا
يَـٰحَسْرَةً عَلَى ٱلْعِبَادِ ۚ مَا يَأْتِيهِم مِّن
رَّسُولٍ إِلَّا كَانُوا۟ بِهِۦ يَسْتَهْزِءُونَ ﴿٣٠﴾ أَلَمْ يَرَوْا۟
كَمْ أَهْلَكْنَا قَبْلَهُم مِّنَ ٱلْقُرُونِ أَنَّهُمْ إِلَيْهِمْ لَا
يَرْجِعُونَ ۔۔36/31
افسوس بندوں کے حال
پر، جو رسول بھی ان کے پاس آیا اُس کا وہ مذاق ہی اڑاتے رہے (٣٠) کیا
انہوں نے دیکھا نہیں کہ ان سے پہلے کتنی ہی قوموں کو ہم ہلاک کر چکے ہیں اور اس کے
بعد وہ پھر کبھی ان کی طرف پلٹ کر نہ آئے؟
إِنَّ ٱلَّذِينَ يُؤْذُونَ ٱللَّـهَ وَرَسُولَهُۥ لَعَنَهُمُ
ٱللَّـهُ فِى ٱلدُّنْيَا وَٱلْـَٔاخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِينًا ۔۔33/57
بیشک جو لوگ اللہ اور
اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اذیت دیتے ہیں اللہ ان پر دنیا اور آخرت
میں لعنت بھیجتا ہے اور اُس نے ان کے لئے ذِلّت انگیز عذاب تیار کر رکھا ہے،
وَمَن يُشَاقِقِ ٱللَّـهَ وَرَسُولَهُۥ فَإِنَّ ٱللَّـهَ شَدِيدُ
ٱلْعِقَابِ۔۔8/13
اور جو شخص خدا اور اس کے رسول کی مخالفت کرتا ہے تو خدا بھی سخت
عذاب دینے والا ہے۔۔
آیات بالا اس فعل کو جسے ہم توہین رسالت کہتے ہیں، نا صرف یہ کہ اس
کی مذمت کرتی ہیں بلکہ اس فعل کے ارتکاب پر اللہ تعالٰی کے غیض و غضب کے نزول کا
اعلان بھی کرتی ہیں۔۔۔۔ اور اس فعل کو باقائدہ ایک جرم قرار دیتی ہیں۔۔۔۔
سوال یہ ہے کہ کیا یہ کوئی ایسا جرم ہے کہ جس کی سزا کا فیصلہ صرف
اور صرف اللہ
تعالٰی کی ذات کے ساتھ مخصوص ہے۔۔ اور اس حوالےسے کسی مسلمان
کو کسی بھی رد
عمل کی نہ کوئی ضرورت ہے اور نہ ہی اجازت۔۔۔
یہ ہی وہ نقطہ ہے جسے سمجھنا بے حد ضروری ہے۔۔۔۔کیوں کہ ہمارے بہت سارے احباب ، خصوصاً بہت زیادہ پڑھے لکھے دوست
اور ان میں بھی وہ احباب جن کا تعلق احمدیہ
فرقے سے ہے ، کا موقف ہے کہ جناب توہین رسالت کی
سزا اللہ نے خود اپنے ذمہ لے رکھی ہے۔۔۔ چنانچہ کسی ملک میں توہین رسالت کی سزا
غیر اسلامی ہے۔۔۔۔
اگر قرآن کریم کا بغور مطالعہ کیا جائے ، تو ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ اللہ کریم نے انسانوں سے متعلق تمام ایسے معاملات جن کا تعلق دین سےہے نہایت ہی واضح
اور غیر مبہم الفاظ میں بیان کر دیے ہیں۔۔۔اس نے بہت کم
معاملات کو باقائدہ ایک جرم قرار دے کر اس کی سزائیں بھی خود تجویز کردیں۔۔۔اور
زیادہ تر معاملات میں وہ
ابدی اُصول بتا کر ان پر قانون سازی کے لیے مومنین کو آزاد رکھا تا
کہ وہ اپنے اپنے ممالک
اور حالات اور ضروریات اوروقت کے تقاضوں کے مطابق
ان غیرمتبدل
اُصولوں کے دائرے میں قانون سازی کریں۔۔۔ لیکن انھیں اس
کام کے لیے
مشاورت کا حکم دیا۔۔فرمایا
وَٱلَّذِينَ ٱسْتَجَابُوا۟ لِرَبِّهِمْ وَأَقَامُوا۟ ٱلصَّلَوٰةَ
وَأَمْرُهُمْ شُورَىٰ بَيْنَهُمْ وَمِمَّا رَزَقْنَـٰهُمْ يُنفِقُونَ ۔۔42/38
جو اپنے رب کا
حکم مانتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، اپنے معاملات آپس کے مشورے سے چلاتے ہیں، ہم
نے جو کچھ بھی رزق انہیں دیا ہے اُس میں سے خرچ کرتے ہیں
اور پھر ان لوگوں کے فرائض سے بھی آگاہ کر دیا۔۔۔۔۔فرمایا۔
ٱلَّذِينَ إِن مَّكَّنَّـٰهُمْ فِى ٱلْأَرْضِ أَقَامُوا۟
ٱلصَّلَوٰةَ وَءَاتَوُا۟ ٱلزَّكَوٰةَ وَأَمَرُوا۟ بِٱلْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا۟ عَنِ
ٱلْمُنكَرِ ۗ وَلِلَّـهِ عَـٰقِبَةُ ٱلْأُمُورِ۔۔22/40
یہ وہ لوگ ہیں جنہیں
اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، معروف کا
حکم دیں گے اور منکر سے منع کریں گے اور تمام معاملات کا انجام کار اللہ کے ہاتھ
میں ہے
یعنی
وہ لوگ جنھیں اللہ زمین میں حکومت عطا فرمائے گا تو وہ دین کو نافذ کریں گے۔۔۔یعنی
اقامت صلوٰة اور ایتائے زکوٰة، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر۔ اب ظاھر ھے
کہ ان امور کے نفاذ کے لیے وہ حکم خداوندی کے ماتحت باھمی مشاورت سے قانون سازی
بھی کریں گے اور ان کے عملاٌ نفاذ کا بندوبست بھی۔۔۔
اب یہاں سوال یہ پیدا ھوتا
ھے کہ کیا توھین
رسالت جسے اللہ نے نہ صرف یہ کہ ایک جرم کے طور پر پیش کیا
ھے۔۔بلکہ اس جرم کی سزا
ایک دردناک عذاب بتایا ھے۔۔کیا اس جرم کی سزا اسلامی حکومت
کی ذمہ داری ھے یا اس معاملہ کو صرف اللہ کے ھی سپرد کرنا ھوگا۔۔
کتاب اللہ پر تدبر اور تفکر
کے نتیجے میں ھم اس بات کو سمجھ سکتے ھیں کہ دنیا میں اللہ کے وعدوں اور قانون کا نفاذ اللہ انسانوں
ھی کہ ھا تھوں کرواتا ھے۔۔۔۔
ایک آیت مبارکہ ملاحظہ
فرمایئں۔۔۔
وَمَا مِن دَآبَّةٍ فِى ٱلْأَرْضِ إِلَّا عَلَى ٱللَّـهِ
رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَمُسْتَوْدَعَهَا ۚ كُلٌّ فِى
كِتَـٰبٍ مُّبِينٍ۔۔۔11/6
زمین میں چلنے والا
کوئی جاندار ایسا نہیں ہے جس کا رزق اللہ کے ذمے نہ ہو اور جس کے متعلق وہ نہ
جانتا ہو کہ کہاں وہ رہتا ہے اور کہاں وہ سونپا جاتا ہے، سب کچھ ایک صاف دفتر میں
درج ہے
آیت بالا اس بات کی گارنٹی دیتی
ھے کہ ھر ذی حیات کا رزق اللہ کے ذمہ ھے مگر ھمارا عام مشاھدہ یہ
ھے کہ کتنے ھی لوگ ھیں جنھیں پیٹ بھر کر کھانا نصیب نہیں۔۔۔ایک ایک قحط میں
لاکھوں لوگ بھوک سے مر جاتے ھیں۔۔۔تو کیا ھم یہ سمجھیں کہاللہ کا وعدہ معاذ اللہ جھوٹا ھے۔۔۔۔
ھرگز نھیں۔۔۔ حقیقت تو صرف یہ ھے کہ اللہ کے وعدوں کی تکمیل کی ذمہ دار
وہ اسلامی
مملکت ھے جو اللہ کے نام پر قائم ھوتی ھے۔۔ فرمایا۔۔۔۔
وَمَا لَكُمْ لَا تُقَـٰتِلُونَ فِى سَبِيلِ ٱللَّـهِ
وَٱلْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ ٱلرِّجَالِ وَٱلنِّسَآءِ وَٱلْوِلْدَٰنِ ٱلَّذِينَ
يَقُولُونَ رَبَّنَآ أَخْرِجْنَا مِنْ هَـٰذِهِ ٱلْقَرْيَةِ ٱلظَّالِمِ أَهْلُهَا
وَٱجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا وَٱجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ نَصِيرًا ۔۔4/75
اور تم کو کیا ہوا ہے کہ خدا کی راہ میں اور اُن بےبس مردوں اور
عورتوں اور بچوں کی خاطر نہیں لڑتے جو دعائیں کیا کرتے ہیں کہ اے پروردگار ہم کو
اس شہر سے جس کے رہنے والے ظالم ہیں نکال کر کہیں اور لے جا۔ اور اپنی طرف سے کسی کو
ہمارا حامی بنا۔ اور اپنی ہی طرف سے کسی کو ہمارا مددگار مقرر فرما۔۔
ذرا غور کریں کہ شہر کے لوگ دعائیں
تو اللہ تعالٰی سے مانگ رھے ھیں کہ ھمیں اس شہر کے ظالمین سے
نجات دلا۔۔۔ اور اللہ تعالٰی اس اسلامی حکومت کی سرزش فرما رھے
ھیں کہ آخر تم کو کیا ھوا ھے کہ تم ان لوگوں کی مدد کے لیے نہیں نکلتے۔۔ کیونکہ
اللہ کے نام پر قائم ھونے والی حکومت اللہ کی تمام ذمہ داریوں کو عملآ متشکل کرنے
کی پابند ھوتی ھے۔۔
اور جب ان وعدوں اور قوانین کی
تکمیل ان انسانوں
کے ھاتھوں ھوتی ھے تو اللہ ان اعمال کو اپنے نام سے
منسوب کرتا ھے۔۔۔میدان جنگ میں اللہ کے مجاھد جب دشمنوں کے خلاف جنگ کرتے ھیں
۔۔۔کفار کو قتل کرتے ھیں۔۔ان پر تیر برساتے ھیں تواللہ ان تمام اعمال کو اپنا عمل قرار دیتا ھے۔۔۔فرمایا۔۔
فَلَمْ
تَقْتُلُوهُمْ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ قَتَلَهُمْ وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَـٰكِنَّ
اللَّـهَ رَمَىٰ وَلِيُبْلِيَ الْمُؤْمِنِينَ مِنْهُ بَلَاءً حَسَنًا إِنَّ
اللَّـهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ۔۔۔8/17
پس تم لوگوں نے ان کفاّر کو قتل نہیں کیا بلکہ خدا نے قتل کیا ہے
اور پیغمبرآپ نے سنگریزے نہیں پھینکے ہیں بلکہ خدا نے پھینکے ہیں تاکہ صاحبان
هایمان پر خوب اچھی طرح احسان کردے کہ وہ سب کی سننے والا اور سب کا حال جاننے
والا ہے
چنانچہ اسلامی حکومت کی یہ
ذمہ داری ھے، کہ وہ اللہ
کے کیے ھوئے ان تمام وعدوں اور دعووں کی عملاً تکمیل کرے۔۔۔۔ان
جرائم کے علاوہ کہ جن کی سزا خود اللہ کریم نے مقرر فرما دی ھے، دیگر تمام
جرائم اور قانون شکنی کے لیے قوانین وضع کرے اور عملا ان کو نافذ کرے۔۔
توھین رسالت بھی ایک ایسا
جرم ھے جس کی اللہ نے نہ صرف یہ کہ مذمت کی ھے بلکہ اس پر دردناک عذآب کی
نوید بھی سنا دی ھے۔۔۔۔
اللہ نے دیگر اور بہت سارے
جرائم کے ساتھ ساتھ اس جرم کی کوئی سزا خود طے نہیں کی مگر اللہ کے نام پر قائم
حکومت دیگر جرائم کی طرح اس جرم کی سزا مقرر کرنے کی پابند ھے۔۔ کیوں کہ اس جرم کا نتیجہ اللہ کے
وعدے کے مطابق ایک درد ناک عذاب ھے اور یہ عذاب مومنین کے ھا تھوں ھی نازل ھوتا
ھے۔۔۔
اور اسلامی حکومت کی طرف سے نافذ کی ھوئی سزا درحقیقت اللہ تعالٰی
کا عذاب ھی ھوتی ھے۔۔۔۔ملاحظہ فرمائیں۔۔۔
ٱلزَّانِيَةُ وَٱلزَّانِى فَٱجْلِدُوا۟ كُلَّ وَٰحِدٍ مِّنْهُمَا
مِا۟ئَةَ جَلْدَةٍ ۖ وَلَا تَأْخُذْكُم بِهِمَا رَأْفَةٌ فِى دِينِ
ٱللَّـهِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِٱللَّـهِ وَٱلْيَوْمِ
ٱلْـَٔاخِرِ ۖ وَلْيَشْهَدْعَذَابَهُمَا طَآئِفَةٌ
مِّنَ ٱلْمُؤْمِنِينَ ۔۔24/2
زناکار عورت اور زنا کار مرد
دونوں کو سو سوکوڑے لگاؤ اور خبردار دین خدا کے معاملہ میں کسی مروت کا شکار نہ
ہوجانا اگر تمہارا ایمان اللہ اور روزآخرت پر ہے اور اس سزا کے وقت مومنین کی ایک
جماعت کو حاضر رہنا چاہئے
فَإِذَآ أُحْصِنَّ فَإِنْ
أَتَيْنَ بِفَـٰحِشَةٍ فَعَلَيْهِنَّ نِصْفُ مَا عَلَى ٱلْمُحْصَنَـٰتِ مِنَ ٱلْعَذَاب۔۔۔4/25
جب وہ نکاح کے
حصار میں آجائیں پھر اگر بدکاری کی مرتکب ہوں تو ان پر اس سزا کی آدھی سزا لازم ہے
جو آزاد (کنواری) عورتوں کے لئے (مقرر) ہے،
آیات مذکورہ میں جرم کی سزا جو اسلامی مملکت نافذ کر رھی ھے اللہ
نے اسے عذاب سے
تعبیر کیا ھے۔۔۔
چنانچہ توھین رسالت کی سزا کا تعین اور اس کا نفاذ اسلامی حکومت کی
ذمہ داری ھے۔۔اب یہاں ایک سوال یہ پیدا
ھوتا ھے کہ کیا اس جرم کی سزا موت ھونی
چاھیے۔۔یا اس سے کم۔۔۔
اول تو یہ اسلامی حکومت کی صوابدید ھے کہ وہ باھمی مشاورت سے
کسی جرم کی جو سزا مناسب سمجھے ، اسے نافذ کرے۔۔۔
لیکن اگر ھم اس معاملے میں بھی اللہ کی کتاب سے رجوع کریں تو پتہ
چلتا ھے کہ اللہ کریم نے دو
جرائم ایسے ھیں کہ جن کی سزا موت خود ھی طے کر دی ھے۔۔۔
1۔۔۔۔قتل عمد
2۔۔۔ مملکت کے خلاف بغاوت اور انتشار
اب اگر باھمی مشاورت سے
بنائے ھوئے کسی قانون کو کوئی فرد
یا گروہ تسلیم کرنے سے انکار کر دے ۔۔۔تو کیا یہ مملکت
کے خلاف بغاوت
یا انتشار کے زمرے میں نہیں آتا؟؟ اور کیا پھر اللہ کی کتاب کی
روشنی میں ایسے مجرم کی سزا موت نہیں ھونی چاھیے؟؟؟
اب میں حالات موجودہ کے
حوالے سے اس نہایت ھی حساس معاملہ
پر کچھ عرض کرنے کی کوشش کروں گا ، کہ جس نے اس قوم میں ایک بہت بڑے اور تباہ کن
انتشار کو جنم دے دیا ھے۔۔۔
ھم جانتے ھیں کہ اس مملکت خدادا پاکستان میں توھین رسالت کی
سزا موت مقرر
ھے۔۔ اس سزا کا
تعین اللہ کی کتاب کے عین مطابق باھمی مشاورت سے پارلیمنٹ نے کیا ۔
ایک مخصوص گروہ اپنے
مخصوص مفادات اور غیر
ملکی قوتوں کے اشاروں پر اور ماڈرن ازم اور روشن خیالی کے
نام نہاد نظریات کی بنیاد پر اس کی مخالفت میں پیش پیش ھے۔۔۔ ان کی نظر میں یہ
قانون ظالمانہ
اور غیر منصفانہ ھے۔۔۔اور ایکانتہائی اھم عہدے پر
موجود ایک صوبے کے آئینی
سربراہ نے سر
عام اس قانون کو ایک سیاہ قانون قرار دے کراس کے خلاف
اپنی نفرت کا اظہار سر
عام اور بار بار کیا۔۔
اس مقام پر میں ان تمام وسیع القلب ، روشن خیال،
ماڈرن، مہذب اور تعلیم یافتہ احباب سے ایک سوال کرنا چاھتا
ھوں۔۔۔
کہ آج کے اس ماڈرن دور میں
کسی ملک کے مہذب ھونے
کی واحد نشانی اور دلیل یہ ھے کہ اس ملک میں جمہوریت ھے یا نہیں۔۔۔ اگر
کوئی ملک جہاں یہ ڈیمو
کریسی نہیں مہذب
دنیا اس ملک کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ھے۔۔
آخر یہ ڈیمو کریسی یعنی
جمہوریت ھے کیا شئے؟؟؟؟؟ یہ ھی نہ کہ عوام کی اکثیریت جو فیصلہ کرے وہ
نافذ العمل ھوگا۔۔۔ اگر عوام کی 51 فیصد آبادی کسی ایسی چیز
کا فیصلہ کرے جو وھاں کی 49
فیصد آبادی کے لیے قابل قبول نہ ھو تو کیا اس قانون یا فیصلے
کو چیلنج کیا جاسکتا ھے۔۔ظاھر کہ نہیں۔۔۔یہ ھی جمہوریت ھے۔۔۔جب اکثیریت ایک فیصلہ دے دے تو
مملکت کے باقی
تمام باشندوں کو نہ صرف یہ کے اسے تسلیم کرنا ھوتا ھے بلکہ
اس کی پابندی بھی
کرنی ھوتی ھے۔۔
مغربی ممالک میں رھائش پذیر
میرے بہت سے محترم دوست خود اس ھی کیفیت میں وھاں رھائش پذیر ھیں۔۔۔ کتنے ھی ایسے
قوانین ھیں کہ جو کسی اسلامی
تودور کی بات ھے کسی انسانی اور اخلاقی قدر کے معیار پر بھی پورا نہیں اترتے۔۔۔
مثال کے طور پر ھم جنس پرستی
کا قانون ھے۔۔۔حجاب کے خلاف قانون ھے۔۔۔بغیر شادی کے بچوں کی قانونی حیثیت کا
قانون ھے۔ اور دیگر اور کئی ۔۔۔۔۔
لیکن وہ صرف اس لیے نافذ
العمل ھیں کہ وھاں کی جمہور نے
یہ قوانین وضع کیے۔۔۔۔ اور میرے وہ معزز دوست کہ جو اس مملکت پاکستان میں موجود توھین رسالت کے
قانون کو سیاہ
قانون کہتے ھیں، ظالمانہ اور غیر منصفانہ کہتے
ھیں، کیا کبھی انھوں نے وھاں ان
قوانین کے خلاف اس طرح کے جذبات کا اظہار کیا۔۔۔ اور آخر
کیوں آج تک اس معاشرے میں
رھائش پذیر ھیں کہ جو اس روش پر چل رھا ہے جس پر قوم لوط چل رھی تھی۔ کیوں
نہیں چھوڑ دیتے اس معاشرے کو؟؟
حقیقت تو یہ ھی ھے کہ وھاں یہ سارے احباب نہ صرف یہ کہ خاموش ھیں
بلکہ عملآ ان
قوانین کی پابندی بھی کر رھے ھیں۔۔۔ کیوں کہ یہ ھی ڈیموکریسی ھے۔۔۔۔
اگر مملکت پاکستان کی جمہور یہ
فیصلہ دے رھی ھے کہ یہاں توھین
رسالت کی سزا موت ھے۔۔۔ تو میرے یہ روشنخیال، اور مہذب دوست کس
حیثیت میں اس کے خلاف نفرت کا اظہار کر رھے ھیں۔۔ کیوں نہیں آپ جمہوریت کے تابندہ اور
اعلٰی روایات کا مظاھرہ کرتے ۔۔ کیوں نہیں اس قانون کے
سامنے سر تسلیم خم کرتے۔۔کیوں
جمہور کے اس فیصلے کو سیاہ قانون کہتے ھیں۔۔
اور اگر یہ قانون
سیاہ ھے اور آپ کو اس پراعتراض ھے تو کیا آپ ھمارے اعتراض پر
مغرب میں موجود ان قوانین کو تبدیل کرنے کے لیے تیار ھیں جو اخلاقی جواز بھی نہیں
رکھتے۔۔۔۔
اتنی نہ بڑھا پاکیء داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ، ذرا بند قبا دیکھ
وہ کہ جن کی حرمت پر ھمارے ماں
باپ، اولاد سب قربان۔۔۔۔۔۔وہ کہ جس کا وجود ھمارے لیے وجہ
حیات۔۔۔وہ کہ جس کے لیے اللہ اور اس کے فرشتے درود و سلام پیش کرتے ھوں۔۔۔
وہ کہ جس کا تعلق ھی وجہ
افتخار ھو۔۔۔اور وہ کہ جس کے لیے خود اللہ کی ذات فرما رھی
ھو کہ ۔۔۔۔۔۔
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا
شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا۟ فِىٓ أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ
وَيُسَلِّمُوا۟ تَسْلِيمًا ۔۔۔4/65
نہیں، اے محمدؐ، تمہارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہوسکتے جب تک
کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ تم
فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں،
بلکہ سر بسر تسلیم کر لیں۔۔
اور ادب کا یہ مقام کہ میرے آقا سرکار دوجہاں، خاتم النبین، جن کے
نام پر میری ساری متاع قربان، کی توھین تو بہت بڑی بات ھے اللہ تو ان سے اونچی
آواز میں بات کرنے کی بھی اجازت نہیں دیتا۔۔۔۔۔
يَـٰٓأَيُّهَا
ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ لَا تَرْفَعُوٓا۟ أَصْوَٰتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ ٱلنَّبِىِّ
وَلَا تَجْهَرُوا۟ لَهُۥ بِٱلْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ
أَعْمَـٰلُكُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ ۔۔49/2
ایمان والو خبردار
اپنی آواز کو نبی کی آواز پر بلند نہ کرنا اور ان سے اس طرح بلند آواز میں بات بھی
نہ کرنا جس طرح آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہو کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال
برباد ہوجائیں اور تمہیں اس کا شعور بھی نہ ہو
اس خلق
عظیم کی توھین تو بہت دور کی بات ھے ، ان کے بارے کسی ایسے گھٹیا خیال تک
پر بھی سزائے
موت سے بڑی اگر کوئی سزا ھو تو وہ بھی نافذ ھونی چاھیے۔۔۔اس جرم عظیم کی سزا میری نظر میں
ایک بار نہیں ھزار بار سزائے موت ھونی چاھیے۔۔۔ اور جس روشن خیال کو
یہ پسند نہیں اسے اجازت ھے کہ وہ
اس ملک کو چھوڑ کر کہیں اور چلا جائے۔۔ ھمیں تو ویسے ھی
اللہ منافقین سے
دور ھو جانے کا حکم دیتاھے۔۔۔
یہاں نہ روشن خیالی ھے نہ دلیل ھے، نہ عقل ھے نہ شعور ھے، بس جنون
ھے بس جنون ھے۔۔۔۔۔۔ اور جب جنون ھو تو کسی کی کیا اپنی جان کی بھی کوئی حیثیت
نہیں۔۔۔
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ھے محو تماشہ ء لب بام ابھی
No comments:
Post a Comment