Pages

Thursday, April 24, 2014

مجھے ہے حکم اذاں لا الہ الا اللہ







مجھے ہے حکم اذاں لا الہ الا اللہ
تحریر:محمد حنیف
(November 9, 2010)
جناب عطا راشد صاحب کے نوٹ پر میرے تبصرے کے جواب میں جناب جمیل الرحمٰن صاحب نے اپنا نکتہ نظر بیان کیا ہے اور جناب رفیع رضا صاحب،جناب عطا صاحب،جناب فضل احمدی صاحب نے جناب جمیل الرحمٰن کے بیان کی تائید کی ہے۔جن کا مجھے  احترام ہے۔کسی کے تبصروں  یا خیالات پر بغیر تحقیق کے اپنے رد عمل  کا اظہار کرنا اور خصوصًا اختلافی نوٹ لکھنا میرے نزدیک علمی بد دیانتی ہے۔قرآن کریم کے ایک ادنٰی طالب علم کی حیثیت سے عدل میری زندگی کا حصّہ ہے۔

يَـٰٓأَيُّہَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ كُونُواْ قَوَّٲمِينَ لِلَّهِ شُہَدَآءَ بِٱلۡقِسۡطِ‌ۖ وَلَا يَجۡرِمَنَّڪُمۡ شَنَـَٔانُ قَوۡمٍ عَلَىٰٓ أَلَّا تَعۡدِلُواْ‌ۚ ٱعۡدِلُواْ هُوَ أَقۡرَبُ لِلتَّقۡوَىٰ‌ۖ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَ‌ۚ إِنَّ ٱللَّهَ خَبِيرُۢ بِمَا تَعۡمَلُونَ۔۔5/8
اے ایمان والوں! خدا کے لیے انصاف کی گواہی دینے کے لیے کھڑے ہو جایا کرو۔ اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ انصاف چھوڑ دو۔ انصاف کیا کرو کہ یہی پرہیزگاری کی بات ہے اور خدا سے ڈرتے رہو۔ کچھ شک نہیں کہ خدا تمہارے سب اعمال سے خبردار ہے ۔
آپ کے جوابی تبصرے سے پہلے  بھی اور آپکی خواہش  پر دوبارہ بھی ان تمام کمنٹس کو بڑی توجہ سے پڑھا جو آپکے اور محترم آصف بھٹی صاحب کے درمیان مباحثہ کے دوران چسپاں کئے گئے اور میں اپنے سابقہ موقف پر قائم ہوں۔بصد احترام ہر انسان معاملات کو اپنی علمی سطح اور فہم کے معیار پر ہی پرکھتا ہے۔بعض باتوں پر اختلاف کوئی بری بات نہیں البتہ کسی کی نیّت پر شک سے گریز ضروری ہے۔بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں اپنے عقائد ،سوچ اور مذہبی  اور سیاسی نظریات کے حوالے سے شدت پسندی کا عنصر بہت  زیادہ غالب ہے۔جسکی بہت ساری وجوھات میں سے ایک وجہ تعلیم کی کمی بھی ہے۔زندہ باد اور مردہ باد کے نعرے لگانے والوں کی اکثیریت حقائق سے لا علم ہوتی ہے۔ان میں احمدی اور غیر احمدی دونوں اطرف کے لوگ شامل ہیں اور یہ بے چارے معصوم لوگ مذہبی انتہا  پسندوں کا بہت   آسان شکار ہوتے ہیں ۔آج وطن عزیز اس ھی بد نصیبی کا نشانہ ھے۔

میں آپکے ان خیالات سے سو فیصد اتفاق کرتا ہوں۔

۔"میں اس کے بارے میں ضرور آپ کو بتاؤں گا۔۔مگر پہلے آپ یہ فرمائیے کہ دنیا کی آبادی کا کتنا فی صد مسلمان ہے؟ دوسرے ان میں بھی کتنے لوگ ہم عقیدہ اور ہم مشرب ہیں ۔۔تو پھر بقایا ساری دنیا کو یا تو قتل کر دیجئے۔یا ان کے منہ پر جا کران کی اور ان کے مقدس یا معزز بز رگوں کی توہین کرتے ہوئے انہیں ماں بہن کی ننگی اور غلیظ گالیوں سے نوازئے۔"" دنیا باہمی عزت و احترام اور رواداری کے اصولوں کے تحت چلتی ہے۔اور امن کی پہلی شرط یہ ہے کہ جو سلوک آپ خود سے کئے جانا پسند کرتے ہیں ۔وہی دوسروں سے کرویں۔یعنی عدل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"

آپکے مذکورہ بالا خیالات نہ صرف لائق تحسین ہیں  بلکہ قابل تقلید بھی۔۔۔
مگر۔۔۔

Jameelur Rahman
 بے غیرت آدمی۔ تمہین سمجھ نہین آتی کہ میں تم جیسے جاہلوں کے ساتھ اپنا وقت ضائع نہین کر سکتا۔کتے کسی خارش زدہ پلےّ کی طرح بھونکنا بند کرواور دفع ہو جاؤ۔مین نے تمہارے لئے سکول نہین کھول رکھا ۔ابو جہل سے بھی بدتر ہو تم۔
October 22 at 8:56pm · Like ·
 Jameelur Rahman
 آصف بیٹے۔۔تمہاری شکست کا پہلا ثبوت یہ ہے کہ کوئی دلیل دینے کے بجائے تم نے پھر شیخ چلی کی سی بات کی ہے اور سلطان راہی کی طرح بڑھکیں ماری ہیں۔کافی تکلیف میں لگتے ہو۔تمہین تضادات میں دکھاؤں گا ۔ذرا دیکھوں تو سہی ۔کتنا دم خم ہے تم میں؟ میرے تین سوالوں کے جواب دو۔۱۔قرآن کا پہلا تضاد یہ ہے کہ ایک طرف تو وہ سب کو ہدایت دینے کی بات کرتا ہے کہ اس میں سب کے لئے شفا ہے اور دوسری طرف پہلے پارے کی دوسری سورت کی تیسری آیت میں کہتا ہے کہ اس میں صرف متقیوں کے لئے ہدایت ہے۔تم مجھے یہ بتاؤ جو پہلے ہی ہدایت یافتہ اور متقی ہو اسے قرآن کی کیا ضرورت ہے اور اور وہ شفاالناس والا دعویٰ کہاں گیا؟؟۲۔ہر رسول پہلے سے موجود بگڑی ہوئی قوم کی طرف بھیجا جا تا ہے۔یہاں حضرت آدم پہلے انسان کی حیثیت سے کس بگڑی ہوئی قوم کی طرف آئے تھے؟پھر ہر نبی معصوم ہوتا ہے۔مگر بقول قرآن حضرت آدم نیحوا کے ساتھ مل کر گناہ کیا تو وہ معصومیت کے دعوے کا کیا ہوا؟۳۔پھر تمہیں یہ بات عجیب نہین لگتی کہ ایک طرف تو خدا یہ کہتا ہے کہ جس بات کا میں علم نہ دوں وہ کسی کو معلوم نہین ہو سکتی۔دوسری طرف پہلے ہی پارے میں دو تضاد آ جاتے ہیں۔۔۔۔۱۔فرشتوں کو یہ علم کہاں سے ہو گیا جب کہ خدا نے بتایا ہی نہین کہ انسان خون بہائے گا یا نہیں بہائے گا ۔۔ ۔فرشتے تصور نہیں کرتے صرف اطاعت کرتے ہین ۔یہان تو سوال و جواب ہو رہے ہیں۔۲۔پھر خدا بغیر علم دئے فرشتون سے اشیا کے نام پوچھ رہا ہے ۔ارے بھائی یہ کیا تماشا ہے ۔ایک طرف تو انہیں علم نہین دیا دوسری طرف سے انہین سوال پوچھ رہے ہو ۔بڑا عجیب خدا ہے۔جسے یہ بھی یاد نہین کہ اس نے فرشتون کو تو اشیا کا علم دیاہی نہین دیا ۔پھر بھی پوچھے جا رہا ہے۔تو بیٹے ان تین سوالوں کے عقلی نقلی جواب لاؤ تو پتہ چلے کہ تم کتنے پانی میں ہو ۔بیٹے میں نے پہلے ہی تمہیں کہا تھا مجھ سے پنگا مت لینا۔تم تو مرزا صاحب کے پیچھے پڑے ہو ۔۔مین تمہیں تمہارے خود ساختہ اسلام کا وہ چہرہ دکھاؤں گا کہ تمہیں سمجھ آ جائے گی کہ کس بھاؤ بکتی ہے۔مذہب کی بنیاد خدا کے تصور پر ہے۔ابھی تو مجھے تمہارے خدا کی اصلیت بھی تمہین دکھانی ہے۔تیاری کر لو۔
October 18 at 1:21pm · Like ·  1 person

ظفر آدمی اسے نہ جانئے چاہے کتنا ہی ہو صاحب فہم  و ذکاء
جسے عیش میں یاد خدا نہ رہی  جسے طیش میں خوف خدا نہ رہا 

میری براہ راست آپکے ساتھ فرینڈ شپ تو نہیں مگر اپنے اور آپ کے مشترکہ دوستوں ،جناب خالد محمود،محمد صابر، تبسم ورائچ ،خالد ساحل اور راجہ اسحٰق صاحبان کی وال پر آپ کی شاعری کے حوالے سے آپ کے ساتھ ایک غائبانہ تعارف ضرور ہے ۔یقین کیجئے آپ کے مذکورہ بالا کمنٹس پڑھ کر مجھے مایوسی ہوئی تھی۔ ایک عام قاری کے طور پر بھی اس مقام پر کہ جب آصف بھٹی صاحب نہایت ہی شائشتہ اور تہذیب کے دائرے میں رہتے  ہوئے  بات کر رہے تھے آپکے لہجے میں جھنجھلاہٹ صاف محسوس ہو  رہی تھی۔ممکن ہے کہ آپ  میری بات سے اتفاق نہ کریں۔۔۔۔

گو کہ آپ نے اپنے موجودہ نوٹ میں اپنی پوزیشن کی وضاحت کی ہے ۔۔۔۔

"اچھا اب آپ آئیے میری طرف۔۔مجھ پر الزام ہے کہ میں نے نعوذ با ﷲاﷲ،رسولﷺ اور قرآن کی توہین کی ہے۔برا ہو اس تعصب اور فتنہ ساز فطرت کا۔جو انسان سے اس کی عقل تک چھین لیتی ہے۔۔میرے محترم میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔بات چل رہی تھی۔حضرت مرزا صاحب کی تحاریر پر بے تکے اور نا منصفانہ اعتراضات کی۔۔۔اور رویہ وہی تھا اور ہے بلکہ اس سے بدتر ہے۔جو اسلام کے بارے میں متعصب مستشرقین کا ہے ۔""میں نے اسی کو بنیاد بناتے ہوئے یہ عرض کی تھی کہ اگر اس طرح بے تکے اعتراض کرنے ہوں تو پھر قرآن اور سیرت پربھی مستشرقین کی طرف سے ہزاروں اعتراض وارد کئے گئے ہیں۔اور وہی اعتراض الزامی جواب کے طور پر میں بھی وارد کر سکتا ہوں۔ بس کیا تھا ۔سیاق و سباق سے علیحدہ کر کے وہ میرا جواب لے اڑے۔

"جھے آپ کی اس وضاحت پر پورا یقین ھے۔۔۔۔مگر میرے    محترم۔۔  کچھ معاملات زندگی میں انسان کیکمٹمنٹ غیر مشروط ھوتی ھے۔۔۔اللہ کی کتاب کا موازنہ کسی بھی انسان کی تحریر سے کیا ھی نھیں جانا چاھیے۔۔۔وہ لوگ کہ جو قرآن کو اللہ کی کتاب ھی نھیں مانتے ان کے اعتراضات کا جواب تو بھت ھی آسان ھے۔۔۔۔ 

 وَإِن ڪُنتُمۡ فِى رَيۡبٍ۬ مِّمَّا نَزَّلۡنَا عَلَىٰ عَبۡدِنَا فَأۡتُواْ بِسُورَةٍ۬ مِّن مِّثۡلِهِۦ وَٱدۡعُواْ شُهَدَآءَكُم مِّن دُونِ ٱللَّهِ إِن كُنتُمۡ صَـٰدِقِينَ (٢٣) فَإِن لَّمۡ تَفۡعَلُواْ وَلَن تَفۡعَلُواْ فَٱتَّقُواْ ٱلنَّارَ ٱلَّتِى وَقُودُهَا ٱلنَّاسُ وَٱلۡحِجَارَةُ‌ۖ أُعِدَّتۡ لِلۡكَـٰفِرِينَ۔2/23
اور اگر تم کو اس (کتاب) میں، جو ہم نے اپنے بندے (محمدﷺ عربی) پر نازل فرمائی ہے کچھ شک ہو تو اسی طرح کی ایک سورت تم بھی بنا لاؤ اور خدا کے سوا جو تمہارے مددگار ہوں ان کو بھی بلالو اگر تم سچے ہو (۲۳) لیکن اگر (ایسا) نہ کر سکو اور ہرگز نہیں کر سکو گے تو اس آگ سے ڈرو جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہوں گے (اور جو) کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے 

مشکل تو اس وقت ھوتی ھے کہ جب آپ کا کہ دعوٰی ھو کہ یہ اللہ کہ آخری کتاب ھے اور پھر اس کا موازنہ کسی انسان کی تحریر سے کیا جائے۔۔۔مرزا صاحب کی تصانیف احمدی حضرات کے لیے یقینًا ایک بڑا مقام رکھتی ھیں۔۔۔اس کی علمی پوزیشن پر اخلاق اور شایشتگی کے دایرے میں رھتے ھوئے بات ھو سکتی ھے۔۔کچھ لوگ متفق بھی ھو سکتے ھیں تو کچھ مخالف بھی۔۔۔۔لیکن کسی بھی مذھب کے پیروکاروں کے بزرگان کے متعلق کوئی بد تمیزی یا تضحیک نا قابل قبول اور قابل مذمت فعل ھے۔۔۔حتٰی کہ کفار اور مشرکین کے مذھبی بزرگان بھی۔۔۔۔
چنانچہ مجھے یقین ھے کہ خود احمدی حضرات کی اکثیریت  بھی میرے اس نکتہ نظر سے اتفاق کرے گی کہ اللہ کی کتاب کا موازنہ، کسی انسانی تحریر سے، الزامی جواب کے طور پر بھی نھیں کرنا چاھیے۔۔۔

میرے نکتہ نظر کے مطابق جناب آصف صاحب کا آپ سے مباحثہ بنتا ھی نھیں تھا۔۔۔۔کیوں کہ ھر مباحثہ یا مئاظرہ اور خصوصًا مذھبی مباحثوں کا پھلا اصول ھی ایک مشترکہ قوائد و ضوابط پر متفق ھونا ھوتا ھے۔۔۔کسی ھندو اور مسلمان کی بحث میں مسلمان کی طرف سے قرآنی آیات اور ھندو کی طرف سے گیتا یا رامائن کے حوالے سے کوئی مفید نتیجہ برآمد نھیں ھو سکتا۔۔۔۔۔چنانچہ اگر فریقین میں کوئی ایک غیر مسلم ھو تو تو بات دلیل، منطق اور موجودہ علمی حقائق کی بنیاد پر ھو گی۔۔۔۔۔
اور اگر فریقین اللہ کی کتاب کو ماننے والے ھوں تو پھر فیصلہ کن اتھارٹی اللہ کی کتاب  یعنی قرآن ھوگا۔۔۔۔۔۔اور اگر یہ طے ھو جائے تو پھر اعتراض انسانی عقل اور فھم پر ھو گا اللہ کی کتاب پر نھیں۔۔۔۔کیوں کہ کوئی انسان یہ دعٰوی نھیں کر سکتا کہ اللہ کی کتاب کو اس نے پوری طرح سمجھ لیا ھے اور جو اس نے سمجھا وہ حرف آخر ھے۔۔۔کسی آیت کا مفھوم میری فھم کے مطابق کچھ ھو گا اور آپکی فھم کے مطابق کچھ۔۔۔کھیں میں بھتر سمجھ رھا ھوں گا اور کھیں آپ۔۔۔۔اور اس سیکھنے اور سمجھنے کے لیے اس پر بحث و مباحثہ نھایت ھی کار آمد نتائج کا حامل ھوگا۔۔۔۔اختلاف انسان کے کیے ھوے مفاھیم میں ھو گا نہ کہ اللہ کی کتاب میں۔۔۔۔۔
أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ ٱلۡقُرۡءَانَ‌ۚ وَلَوۡ كَانَ مِنۡ عِندِ غَيۡرِ ٱللَّهِ لَوَجَدُواْ فِيهِ ٱخۡتِلَـٰفً۬ا ڪَثِيرً۬ا۔۔4/82
کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے اور اگر یہ قرآن سوائے الله کے کسی اور کی طرف سے ہوتا تو وہ اس میں بہت اختلاف پاتے

 قرآن کے منجانب اللہ ھونے کی دلیل ھی یہ دی گی ھے کہ اس میں کوئی اختلاف نھیں۔۔۔۔چنانچہ ھر وہ مفھوم و معنی جس میں باھمی اختلاف ھو وہ صحیح مفھوم نھیں ھو گا۔۔۔۔۔یہ انسان کی کم علمی ھے۔۔۔ورنہ اللہ کی کتاب تو نھایت ھی واضح اور مدلل ھے۔۔۔
اب آتے ھیں آپ کے سوالات کی جانب۔۔۔۔۔۔بخدا آپ اس مناظرے اور مباحثہ کے فن کے زیادہ ماھر ھیں۔۔۔آپ نے آصف بھٹی صاحب کو اس طرح الجھایا ۔۔۔۔کہ جواب نھیں۔۔۔ورنہ خدا کی قسم۔۔۔۔آپکے سوالات کا جواب تو چند لمحوںکا کام تھا۔۔۔۔۔غلطی آصف صاحب سے ھوئی۔۔۔۔۔کہ آپ ان سے منطق کا جواب مانگتے رھے اور وہ قرآن کی آیات کا حوالہ دیتے رھے۔۔۔
لیکن گستاخی معاف جمیل الرحمٰن صاحب۔۔۔۔۔۔جب آپ نے شفاء الناس کا جواب لکھا تو آپ کی ساری علمی قابلییت دھڑام سے نیچے آ گری۔۔۔۔اور آپ نے خود ھی اس بات کا اقرار کر لیا کہ فنی اعتبار سے آپ کے سوالات لائق جواب تھے ھی نھیں۔۔۔کہ یہ کوئی علمی بحث نہ تھی بلکہ فن تقریر کے داو پیچ تھے۔۔اوریہ حقیقت جناب آصف بھٹی صاحب غالبًا سمجھ ھی نہ سکے۔۔۔

کیا ھی بھتر ھوتا جمیل الرحمان صاحب کے آپ اس ساری گفتگو میں یہ الفاظ۔

۔۱۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قرآن کا پہلا تضاد یہ ہے او
۔2۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بیٹے میں نے پہلے ہی تمہیں کہا تھا مجھ سے پنگا مت لینا۔تم تو مرزا صاحب کے پیچھے پڑے ہو ۔۔مین تمہیں تمہارے خودساختہ اسلام کا وہ چہرہ دکھاؤں گا کہ تمہیں سمجھ آ جائے گی کہ کس بھاؤ بکتی ہے۔مذہب کی بنیاد خدا کے تصور پر ہے۔ابھی تو مجھے تمہارے خدا کی اصلیت بھی تمہین دکھانی ہے۔تیاری کر لو۔
October 18 at
استعمال نہ کرتے۔۔۔بلکہ کھیں زیادہ بھتر تھا کہ یہ کھا جاتا کہ تمھارے علماء کے تراجم کے تضادات اور انکے حقیقی چھرے دکھاون گا۔۔۔جمیل الرحمان صاحب۔۔۔۔۔جیسا کہ میں نے پھلے بھی یہ عرض کی کہ ھمارے معاشرے کی اکثیریت تعلیم سے محروم ھے۔۔۔ان کی ذھنی سطح کا ادراک ھونا بھت ضروری ھے۔۔اپنی بات کرتے وقت آپ کا ذھن یقینًا واضح ھو گا اور آپ کی علمی سطح کے لوگ بھی یہ حقیقت سمجھ رھے ھوں گے کہ در حقیقت آپ کھ کیا رھے ھیں لیکن۔۔۔۔۔عام شخص تو وہ ھی سمجے گا۔۔۔۔جو میں نے یا  مجھ جیسے دیگر عام مسلمانوں نے سمجھا۔۔۔۔۔اور اس پر رد عمل ظاھر کیا۔۔۔اس ھی لیے تو حکم ھے 
 يَـٰٓأَيُّہَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ ٱتَّقُواْ ٱللَّهَ وَقُولُواْ قَوۡلاً۬ سَدِيدً۬ا ۔۔33/80
O ye who believe! Guard your duty to Allah, and speak words straight to the point

یعنی بات ذو معانی نھیں ھونی چاھیے۔۔۔۔دین کی بات تو اتنی عام فھم ھونی چاھیے کہ ھر سطح کا انسان اس سے وہ ھی مفھوم لے جو بیان کرنے والے کے دل اور دماغ میں ھو۔۔۔۔اس ھی لیے اللہ نے کسی بھی قوم میں نبی کسی دوسری قوم سے نھیں بھیجا بلکہ اس قوم کا ھی ایک فرد ھوتا تھا ۔۔۔تاکہ اس قوم کو بات سمجھنے میں کوئی دشواری پیش نا آئے۔۔۔۔

مزید ایک بات۔۔۔۔۔میرے نکتہ نظر کے مطابق احمدیت بھی امت میں پھلے سے موجود بھت سارے فرقوں کی طرح ایکقرقہ ھے۔۔۔اور رھی بات عیر مسلم ھونے کی تو میرے محترم۔۔۔۔۔ان تمام فرقوں کے علماء نے ایک دوسرے پر کفر کے فتوے صادر کیے ھوئے ھیں۔۔۔اور میری معلومات کے مطابق ان حضرات کی اس کارکردگی کی بدولت اس مملکت پاکستان میں شاید کوئی مسلمان ھے ھی نھیں۔۔

اب میں اپنی آخری بات عام احمدی دوستوں سے کرنا چاھتا ھوں۔۔جیسا کہ آپ میں سے اکثر دوستوں کو اس بات کا علم ھے اور جس کی طرف جناب رفیع رضا صاحب نے بار بار توجہ دلائی ھےکہ آج ھمارے پاس روایات کے جو مجموعے احادیث نبوی کے نام سے دستیاب ھیں ۔۔۔ان میں سے بھت ساری روایات ایسی بھی ھیں کہ جو ھمارے نبی آخرالزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی اجمعین کی ذات اقدس کے کردار پر ایک سوالیہ نشان ھیں۔۔۔۔۔جو علم اور تھذیب کے کسی بھی معیار پر پورا نھیں اترتیں۔۔۔۔اور کئی تو قرآن کےھی مخالف ھیں۔۔۔۔اب یھاں ھمارے پاس دو راستے ھیں۔۔۔۔۔ایک تو یہ کہ ھم آنکھیں بند کر کے نھایت خشوع و خضوع کے ساتھ ان روابات کا دفاع کریں۔۔۔اور انھیں نبی کا قول قرار دیں۔۔۔۔تو یہ کام ھمارا مولوی تو گزشتہ ایک ھزار سال سے کر رھا ھے۔۔۔اور ان روایات کو حدیث ثابت کرنے کے لیے کبھی منطق کبھی لغت اور کبھی شان نزول کے ھوائی فائر کیے چلا جا رھا ھے اور نتیجہ میں اس عظیم الشان امت کو فرقوں اور گروھوں میں بانٹے چلا جا رھا ھے۔۔۔۔۔لیکن ایک دوسرا ظریقہ بھی ھے۔۔۔کہ ھم اپنی آنکھوں سے تقدس کی پٹی ھٹا کر ان تمام روابات کو جو میرے نبی کی۔۔۔۔میرے صحابہ کرام کے ذاتی کردار کو مجروح کرتی ھوں جو عقل اورشعور کے خلاف ھوں اور سب سے بڑھ کرکہ جو اللہ کی آخری کتاب قرآن کریم کے خلاف ھوں ۔۔۔ان کے متعلق واضح طور پر یہ اعلان کر دینا چاھیے کہ ایسی تمام روابات ھمارے نبی سے غلط منسوب کی گئی ھیں۔۔۔۔میرے نبی ایسی سطحیبات کر ھی نھیں سکتے۔۔۔۔اب یھاں وہ اصل بات سامنے آ رھی ھے جو میں اپنے دوستوں تک پھنچانا چاہ رھا ھوں۔۔۔کہ کیا ھم یہ سمجھ لیں کہ امام بخاری علیہ رحمہ یا امام مسلم علیہ رحمہ سے یہ کوتاھی سرزد ھوئی؟؟؟ کیا انھوں نے دانستہ طور پر یہ کام کیا؟؟ میرا اپنے اسلاف کے حوالے سے ھمیشہ یہ حسن ظن رھا ھے کہ ھم ان کی علمی صلاحیت پر تو بات کر سکتے ھیں لیکن ان کی نییت پر ذرہ برابر شبہ نھیں کر سکتے۔۔۔۔میرا نکتہ نظر یہ ھے کہ جس طرح سابقہ اقوام نے انجیل تورات اور زبور جیسی اللہ کی کتابوں میں اپنے مفادات کی خاطر ترامیم کر دیں۔۔۔تو کیا اسلام کے دشمن امام بخاری رح  یا امام مسلم رح۔۔۔کی انتصانیف میں اس طرح کی روایات داخل نھیں کر سکتے۔۔۔کہ جسے ھمارے نام نھاد علماء اور دانشور عین دین قرار دے کر یہ فتوے صادر کر رھے ھین کہ ایسی کسی ایک روایت کا انکار کفرھے۔۔۔اور اپنے اس شوق میں امت کو گروہ در گروہ اور فرقوں میں بانٹتے چلے جا رھے ھیں۔۔۔۔اور پھر۔۔۔۔۔۔
یھیں سے یہ سوال بھی پیدا ھوتا ھے۔۔۔۔۔
کہ فرقہ احمدیہ کے پیروکاروں کے ھاتھ میں مرزا صاحب کی جو تصانیف ھیں۔۔۔اور ان میں اگر کوئی ایسا مواد ھے کہ جو اخلاق اور تھذیب کے خلاف ھے یا مرزا صاحب کی جو قدر و منزلت اور کردار آپ احمدی حضرات  کے ایمان کا حصہ ھے۔۔۔۔۔ اس سے مطابقت نھیں رکھتا ۔۔۔بلکہ ان کی عزت اورحیثیت اور کردار کو مجروح کر رھا ھے۔۔۔تو کھیں وہ غلطی جو ھمارا نام نھاد ملا با دانشور کرتا چلا آ رھا ھے وہ ھی غلطی آپ کا مولوی یا دانشور تو نھیں کر رھا۔۔۔۔۔۔
کیا یہ زیادہ مناسب نھیں کہ آپ لوگ بھی ذرا ٹھر کر۔۔۔تقدس کی پٹی ھٹا کر۔۔۔۔مرزا صاحب کے لٹریچر کو تنقیدی نظر سے دیکھین اور فیصلہ کریں کہ کون سی تحریر واقعی مرزا صاحب جیسی ھستی کی ھو سکتی اور کون سی دشمنوں کی شامل کردہ ھے۔۔۔اور وہ کون ھیں جو اپنی دوکان داری کے تحفظ کے لیے سچائی عام لوگوں تک نھیں آنے دیتے۔۔۔۔۔اور اس عظیم الشان امت کو فرقوں میں بانٹ کر اس امت واحدہ کی قوت کو آپس کے انتشار اور فسادات کی نذر کرناچاھتے ھیں۔۔۔۔اور اس طرح یہ عظیم الشان امت کہ جسے دنیا دیگر انسانوں کی فلاح اور راھنمائی کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔۔۔وہ ذلت و مسکنت کا عبرت ناک نظارہ بن کر اقوام عالم میں در بدر کی ٹھوکریں کھاتی پھرے۔۔۔۔۔ـٰٓ

أَيُّہَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ إِنَّ ڪَثِيرً۬ا مِّنَ ٱلۡأَحۡبَارِ وَٱلرُّهۡبَانِ لَيَأۡكُلُونَ أَمۡوَٲلَ ٱلنَّاسِ بِٱلۡبَـٰطِلِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ ٱللَّهِ‌ۗ وَٱلَّذِينَ يَكۡنِزُونَ ٱلذَّهَبَ وَٱلۡفِضَّةَ وَلَا يُنفِقُونَہَا فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ فَبَشِّرۡهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ۬۔۔9/34
 اے ایمان والو! بہت سے عالم اور فقیر لوگوں کا مال ناحق کھاتے ہیں اور الله کی راہ سے روکتے ہیں اور جو لوگ سونا اورچاندی جمع کرتے ہیں اور اسے الله کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دیجیئے


انداز بیاں گرچہ بھت شوخ نھیں ھے۔۔۔
شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات۔۔۔۔
یا وسعت افلاک میں تکبیر مسلسل۔۔۔۔۔
یا خاک کی آغوش میں تسبیح و مناجات۔۔۔
وہ مذھب مردان خود آگاہ و خدا مست۔۔۔
یہ مذھب ملا جمادات و نباتات۔۔۔۔
اور۔۔۔
محکوم کو پیروں کی کرامات کا سودا۔۔۔
ھے بندہء آزاد خود اک زندہ کرامات۔۔۔



No comments:

Post a Comment