Pages

Wednesday, February 11, 2015

زکواۃ




زکوٰۃ

دوستو ۔ دین انسان کی زندگی کے ہر مسئلے کےحل کا نام ہے ۔ دین انسان کو ان کٹھنائیوں سے بچاتا ہے ، جن سے گذر کر ، ایک طویل سفر کے بعد،   انسان کچھ سیکھتا ہے ۔ وحی خداوندی روز اول سے انسان کو اس راستے کی راہنمائی فراہم کرتی ہے جو انسان کے فہم و ادراک سے بالا ہوتے ہیں۔ جنہیں حل کرنے میں اسے صدیوں کا سفر کرنا پڑتا ہے ۔
دنیا میں کوئی معاشرہ پہلے دن سے وجودمیں نہیں آتا ۔ یہ افراد کے مجموعے کا نام ہے ۔ چنانچہ دین کے ہر حکم کی ابتداء ایک فرد سے ہوتی ہے ، پھر ایک سے دو ، اور دو سے تین ۔ اس طرح ایک جماعت  ، ایک معاشرہ تشکیل پاتا ہے ۔ مختلف افراد پر مشتمل یہ معاشرہ  ان ہی خواص کا مظہر ہوتا ہے ، جو فرد میں ہوتی ہیں ۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ کسی معاشرے کے لوگ ، انفرادی طور پر مجرمانہ خیالات و نظریات کے مالک ہوں ، لیکن وہ معاشرہ نیک اور پارسا ہو ۔
دین اپنے پیروکاروں کی انفرادی  تربیت  کا  راستہ اختیار کرتا ہے ۔ اس کی ابتداء  ایک انسان کو وحی خداوندی کے ذریعے ، علم یقین عطا فرما کر کی جاتی ہے ۔ اس انسان کو خدا ، نبی و رسول کہتا ہے ۔ یہ اپنے دور کا بہترین انسان ہوتا ہے ۔ اس انسان کو وحی کی روشنی عطا فرما کر ، اپنے جیسے لوگوں کی انفرادی تربیت کا حکم ملتا ہے ۔  چنانچہ انبیاء   علیہ سلام   ، اپنے رب کا پیغام ، اپنے لوگوں تک انفرادی سطح پر پہنچانے کا انتظام کرتے تھے ۔ وہ وحی ربی کو من و عن ، اپنے لوگوں تک پہنچاتے تھے ، اور پھر اس وحی خداوندی کے مطابق لوگوں کے انفرادی کردار کی تعمیر کرتے تھے ۔ اس طرح آہستہ آہستہ ، اپنے ہم خیال لوگوں کی تعداد میں اضافہ کر کے ، ایک نیا معاشرہ تشکیل دینے کی کوشش کرتے تھے ۔ اس عمل کو عربی زبان میں " تزمیل " کہتے ہیں ۔  اس ہی نسبت سے حضور اکرم ﷺ کو اللہ کریم نے " مزمل " کہہ کر مخاطب کیا ہے ۔
دین کا کوئی حکم ، ہدایت ، راہنمائی ، کسی بھی مخصوص وقت ، جگہ یا حالات کے ماتحت نہیں ہوتے۔ وہ تو روز اول سے اپنے پیروکاروں پر نافذ العمل ہوتے ہیں ۔ دین کے پیروکار انفرادی سطح پر ان احکامات و ہدایات پر اپنے دل کی کامل رضامندی سے عمل پیرا ہو جاتے ہیں۔اور اس طرح ایک ایسا معاشرہ وجودمیں آ جاتا ہے ، جو ان احکامات ربانی کا عملی نمونہ ہوتا ہے ۔
جس طرح دین انسانی زندگی کے ہر شعبہ میں ہدایت و راہنمائی فراہم کرتا ہے ۔ اس ہی طرح ، یہ انسانوں کے سب سے بڑے مسئلہ یعنی اس کے معاش کے ضمن میں بھی مکمل ہدایات و راہنمائی عطا کرتا ہے ۔اپنے طے کئے ہوئے قانون مشیت کے مطابق وہ جانتا ہے کہ انسان اپنی کاوشوں اور حکم ربانی پر عمل پیرا ہوکر ، معاشی میدان میں مختلف طبقات میں تقسیم ہوجائے گا ۔ کچھ فراوانی رزق کے مالک ہوں گے ، تو کچھ کم کے ۔ کچھ لوگ ،  معاشی لحاظ سے اپنے ہم عصر  لوگوں سے زیادہ کامیاب و کامران ہوں گے ۔ اور کچھ لوگ ، ان کامیاب و کامران لوگوں سے  پیچھے رہ جائیں گے ۔ چنانچہ اس ضمن میں وہ اپنے ان ماننے والوں کو ، جو اپنی  محنت  ، جدوجہد ، اور سعی مسلسل کے نتیجہ میں کامیابی و کامرانی کے  بلند مقام پر پہنچے ہوئے ہوتے ہیں ، اپنی محنت کے ماحاصل سے  " انفاق" کا حکم دیتا ہے ۔
 وہ اپنے ان ماننے والوں کو اس بات کا حکم دیتا ہے ، کہ تم اپنی محنت کے حاصل کو ایک جگہ منجمد نہ کردینا ۔ بلکہ اپنی کامیابیوں کو ، خواہ     وہ  مالی ہو ، علمی ہو ، جسمانی و ذہنی طاقت ہو ، تسخیر کائنات ہو ، یا  دیگر سہولیات زندگی ۔ ان سب کو اپنے پیچھے رہ جانے والے لوگوں کی نشوونما میں آسانی پیدا کرنے کے لیے ، کھلا رکھو  ۔ اپنی محنت کے حاصل کو معاشرے کی تعمیر و ترقی کے عمل کو جاری و ساری رکھنے   کے لیے استعمال کرو ، تاکہ معاشرے کے وہ لوگ جو مسابقت کے عمل کی وجہ سے تم سے پیچھے رہ گئے ہیں ، وہ بھی اپنے رب کے احکامات پر عمل کر کے ، اور تمہاری معاونت سے زیادہ ترقی کر سکیں ، تاکہ معاشرہ     بحیثیت مجموعی زیادہ خوشحال ہوتا چلا جائے ۔ چونکہ مسابقت کا عمل بھی مسلسل جاری و ساری رہے گا ، تو اس  ہی طرح "انفاق" کا عمل بھی جاری و ساری رہے گا ۔
 چنانچہ ایک طرف قرآن اس معاشرے کے ہر فرد کو اپنی روٹی آپ پیدا کرنے کی ترغیب دیتا ہے ۔ رزق کریم کا درس دیتا ہے ۔ تو دوسری جانب معاشرے کے وہ لوگ ، جو کسی جسمانی یا ذہنی معذوری کی وجہ سے اپنا رزق آپ پیدا کرنے سے قاصر ہوتے ہیں ، یا    ، وہ لوگ  کہ جو کسی وقتی حادثہ کے نتیجہ میں فوری طور پر رزق کمانے کے قابل نہیں رہتے ۔ ان کے لیے ، ان کے بچوں کے لیے ،روٹی تعلیم ،علاج ، رہائش وغیرہ کا باعزت بندوبست کرنے کا راستہ بھی دکھاتا ہے
ایک ایسا نظام جس میں معاشرے کے یہ نادار لوگ ، عزت نفس کے ساتھ اپنی اور اپنے بچوں کی زندگی عزت اور سہولت کے ساتھ گزار سکیں ۔ معاشی مجبوریاں ان کی زندگی کی نشو و نما  کے  آئندہ مراحل میں رکاوٹ نہ بنیں ۔ قرآن اسے " ایتائے زکوٰۃ " کہتا ہے ۔ وہ معاشرے کے ان صاحب حیثیت لوگوں کو جو دین پر عمل کرتے ہیں ، اپنے رب کے فرمابردار ہیں ، معاشرے کے ان نادار لوگوں کی  " ایتائے زکوٰۃ " کے ذریعے امداد کا حکم دیتا ہے ۔
عربی زبان میں " زکوٰۃ "     کا  معانی ۔ نشو و نما ۔ بالیدگی  ۔ پھولنا پھلنا ۔ وغیرہ  ہیں ( تاج العروس) ۔ نیز اس کے معانی پاکیزگی کے بھی ہیں ۔ لیکن قرآن کریم میں یہ لفظ پاکیزگی کے بجائے ، نشو ونما کے معنوں میں استعمال ہوا ہے ۔۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔
ذَٰلِكُمْ أَزْكَىٰ لَكُمْ وَأَطْهَرُ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ (٢:٢٣٢)
تمہارے لیے شائستہ اور پاکیزہ طریقہ یہی ہے کہ اس سے باز رہو اللہ جانتا ہے، تم نہیں جانتے
(ترجمہ:ابوالاعلی مودودی)
آیت بالا میں ، دونوں الفاظ ، " زکو" اور   " طہر"  کو ایک ساتھ بیان فرما کر ، ان دونوں کے مختلف معانی کو واضح کر دیا گیا ہے ۔
 " الزکی" خیرو خوبی کے ساتھ بڑہنے والا ، عمدہ صلاحیتوں کے ساتھ ایک عمر سے دوسری عمرتک ترقی کرنے والا  ہے 
(صاحب محیط بحوالہ بیضاوی ؒ )
اس کے بنیادی معنوں میں ، ارتقاء ، اور بالیدگی دونوں آ جاتے ہیں ۔
چنانچہ  "ایتائے زکوٰۃ  " ایک  ایسے نظام  کا  نام ہے جو معاشرے کے ان لوگوں کو ، جن کی صلاحیتیں ، کسی  وجہ سے نشو و نما    نہ   پا   رہی  ہوں انہیں ایسے مواقع بہم پہنچانا ہے  جس کے نتیجہ میں معاشرے کا ہر فرد ، اپنی صلاحیتوں کی جلا کر سکے ، معاشرے کا فعال رکن بن سکے ، معاشرے کی ترقی و خوشحالی میں اپنا حصہ ڈال سکے ۔
انسانی صلاحیتوں کی جلا  کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ، فکر معاش ہے ۔ بھوکا انسان کسی بھی طرح کے تعمیری کام کا سزاوار ہو ہی نہیں سکتا ۔ خالی پیٹ چودہویں کا خوبصورت چاند ، ایک روٹی کی مانند نظر آتا ہے ۔ چنانچہ قرآن ان نادار لوگوں کی روٹی کے بندوبست کا حکم دیتا ہے ۔وہ ان صاحب حیثیت افراد کو آگاہ کرتا ہے کہ معاشرے کے یہ محروم و نادار لوگ ، تمہاری ذمہ داری ہیں ۔  ان محروم لوگوں کا تمہارے مال میں ایک متعین حق ہے ، جو تم نے لازماً ادا کرنا ہے قرآن کریم  میں اس حوالے سے کوئی ابہام نہیں ہے ، کہ معاشرے کے ہر اس فرد کو یہ فریضہ " ایتائے زکوٰۃ   " ہر صورت میں ادا کرنا ہے ۔ اس حوالے سے اتنی زیادہ آیات قرآنی موجود ہیں کہ اگر میں ان کو لکھنے بیٹھ جاؤں تو کتابوں کی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں ۔ ۔ لیکن اس موضوع پر اپنا نقطہ نظر بیان کرنے سے قبل میں چاہوں گا ، کہ ایک اور نقطہ نظر آپ کے سامنے پیش کر دوں ۔  علامہ غلام احمد پرویزؒ ، اس موضوع پر لکھتے ہیں ۔
الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ (٢٢:٤١)
یہ ہی لوگ ہیں ،کہ جب انہیں دنیا میں اقتدار حاصل ہوگا ، تو یہ صلوٰۃ کا نظام قائم کریں گے ، اور نوع انسانی کی پرورش کا سامان بہم پہنچائیں گے ۔
"اس آیت میں ایک دو باتیں قابل غور ہیں ۔ ایک تو یہ کہ " ایتائے زکوٰۃ " ( زکوٰۃ دینے ) کا فریضہ اس وقت ادا ہو سکے گاجب ان کی اپنی مملکت قائم ہو گی ۔ظاہر ہے کہ اگر زکوٰۃ دینے سے مراد خیرات دینا ہو ، تو اس کے لیے اپنی حکومت کی ضرورت نہیں ۔ خیرات تو ہر حکومت کے تابع دی جا سکتی ہے ۔اس سے ظا ہر ہے کہ " ایتائے زکوٰۃ " سے مراد خیرات دینا نہیں ، اس سے مراد ایسا نظام حکومت قائم کرنا ہے ، جس کا مقصد نوع انسانی کے لیے سامان نشو و نما مہیا کرنا ہو" ۔
"اور دوسری غور طلب بات یہ ہے ، کہ اس آیت میں کہا یہ گیا ہے ، کہ اسلامی مملکت زکوٰۃ دے گی ، ( اس حکومت کا فریصہ ایتائے زکوٰۃ  ہو گا) لہٰذا یہ جو عام طور پر کہا جاتا ہے ، کہ اسلامی حکومت کا فریضہ یہ ہے ، کہ وہ لوگوں سے زکوٰۃ کا پیسہ وصول کرے ،یہ تصور قرآن کے تصور زکوٰۃکے خلاف ہے ۔قرآن کریم تو یہ کہتا ہے ، کہ اسلامی حکومت کا فریضہ " زکوٰۃ " دینا ہے ، نہ کہ لوگوں سے زکوٰۃ  لینا "۔
نظام ربوبیت ، صفحہ نمبر 151، 152 ۔۔۔۔ از علامہ غلام احمد پرویزؒ
یہ بات اس سے پہلے بھی اکثر کرتا چلا  آ رہا ہوں ، کہ جس دور میں قرآنی فکر کے نامور علماء کرام  ہمارے سامنے آئے ، جنہوں نے قرآن کریم کو اس کی اصل تعلیم کے مطابق سمجھانے کی کوشش کی ، وہ سوشلزم کے عروج کا زمانہ تھا ۔ اور عین انسانی فطرت کے مطابق ، اپنے وقت کے کچھ مخصوص رحجانات سے متاثر ہو جانا ، بعید از قیاس بات نہیں ہے ۔ ظاہر ہے کہ جب سوشلزم کا ایک بظاہر خوبصورت ،مگر مکروہ نظریہ کہ " کماؤ صلاحیت کے مطابق ، خرچ کرو ضرورت کے مطابق " ۔ اور اس کو بنیاد بنا کر لوگوں سے ان کا مال و متاع چھین لو ۔ کسی کے پاس کچھ نہ رہنے دو ۔ سب کو کنگال کر دو ، سوائے اس گروہ کے جو دین کا نام لے کر آپ پر مسلط ہو جائے ۔ جو بزعم خود اس معاشرے میں واحد ہی دیندار اللہ کے پیارے ، دین کے ٹھیکدار  ہونےکے دعوے کے ساتھ آپ کو اپنی اطاعت پر مجبور کر دے ۔ تو پھر دین کے اس انقلابی اور بنیادی رکن کا یہ ہی مفہوم بیان کیا جانا چاہیے تھا ۔ ورنہ سارا نظریہ ہی باطل ہو جاتا ۔
جب "انفاق"  کا معنی لوگوں سے ان کا سارا مال ، جائیداد ، گھر ، کاروبار بزور تعزیر چھین لینا کیا جائے ، تو پھر ان لوگوں کو جن سے ان کا سب کچھ چھین لیا جائے ، روٹی کے چند ٹکڑے تو دینے ہی ہوں گے ۔ تو اب ایک گروہ پہلے اللہ کے نام پر حکومت قائم کرے ، لوگوں سے ان کا سارے کا سارا مال و متاع بزور طاقت چھین لے ، پھر انہیں لائن میں لگا کر چند ٹکڑے روٹی کے دے کر ، ان پر حکومت کرے ۔ اللہ اللہ خیر صلا ۔  تو مجھے بتایا جائے ، کہ سوشلزم نے اور کیا کیا تھا ۔ یہ ہی تو کیا تھا   نہ؟
سب سے پہلے تو اس آیت مبارکہ پر غور فرمائیں ۔ میں نہیں جانتا کہ ہمارے محترم بزرگ نے کس مصلحت کی بناء پر ، اس آیت مبارکہ کا آدھا حصہ ہی اس جگہ لگانا مناسب سمجھا ۔ میں وہ پوری آیت مبارکہ لگاتا ہوں ۔ غور فرمائیے گا ۔
الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ ۗ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ (٢٢:٤١)
یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم ان کو ملک میں دسترس دیں تو نماز پڑھیں اور زکوٰة ادا کریں اور نیک کام کرنے کا حکم دیں اور برے کاموں سے منع کریں اور سب کاموں کا انجام خدا ہی کے اختیار میں ہے (ترجمہ:فتح محمد جالندہری)
 اس آیت مبارکہ میں چار باتیں کہی جا رہی ہیں ۔ 
"أَقَامُوا الصَّلَاةَ "   " آتَوُا الزَّكَاةَ "       " أَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ "  " نَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ"
ذرا غور فرمائیں ۔ آخر کیا وجہ ہے کہ اس آیت مبارکہ میں سے صرف " صلوٰۃ و زکوٰۃ " کو ہی کیوں اسلامی ریاست یا حکومت سے مشروط کیا جا رہا ہے ؟ اگر اس آیت مبارکہ کےمطابق ،  اقامت صلوٰۃ ، ایتائے زکوٰۃ ، صرف اپنی حکومت میں ہی ممکن ہیں ، تو اس ہی طرح یہ امر بالمعروف  اور نہی عن المنکر بھی تو اس ہی زمرے میں آتے ہیں ۔ انہیں عربی زبان کے کس اصول اور قائدے کی رو سے ، اقامت صلوٰۃ  اور ایتائے زکوٰۃ کے ساتھ اسلامی ریاست یا حکومت سے مشروط نہیں کیا گیا ؟
دوستو ، امر بالمعروف ، نہی عن المنکر ، قرآن کریم کی رو سے دین کی اساس ہیں ۔ اس کے بغیر دین کا تمکن ممکن ہی نہیں ۔
جیسا کہ میں نے اپنے ابتدائی کلمات میں کہا ہے ، کہ معاشرہ پہلے دن سے ہی تو وجود میں نہیں آ جاتا ۔ افراد کا مجموعہ ہی تو جماعت اور معاشرے میں تبدیل ہوتا ہے ۔  کوئی بھی معاشرہ ، اپنے لوگوں کی سوچ کا عکاس ہوتا ہے ۔ اگر معاشرے کے افراد غلط روش زندگی کے حامل ہوں ، تو وہ معاشرہ بحیثیت مجموعی  بے راہرو معاشرہ بن جاتا ہے ۔ تو پھر وہ کون سی گیدڑ سنگھی ہے کہ معاشرہ بے راہروہوں کا ہو ، لیکن ان کے حکمران دین کے پابند ہوں ۔ اللہ کے برگزیدہ بندے ہوں ؟  کیا یہ ممکن ہے ؟
قرآن کریم مومنین کو ان کی انفرادی و اجتماعی زندگی میں اس عمل کا حکم دیتا ہے ۔ انسانوں میں سب سے پہلا مومن وہ نبی محترم ہوتا ہے ، جسے اللہ وحی کی روشنی عطا فرماتا ہے ۔ ارشادباری تعالیٰ ہے ۔
الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ ۚ فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِي أُنزِلَ مَعَهُ ۙ أُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (٧:١٥٧)
جو اس پیغمبر(ﷺ) کی پیروی کریں گے جو نبیِ امی ہے جسے وہ اپنے ہاں توراۃ و انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں جو انہیں نیک کاموں کا حکم دیتا ہے اور برے کاموں سے روکتا ہے جو ان کے لیے پاک و پسندیدہ چیزوں کو حلال اور گندی و ناپاک چیزوں کو حرام قرار دیتا ہے اور ان پر سے ان کے بوجھ اتارتا ہے اور وہ زنجیریں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے۔ پس جو لوگ اس (نبیِ امی) پر ایمان لائے اور اس کی تعظیم کی اور اس کی مدد و نصرت کی اور اس نور (روشنی) کی پیروی کی جو اس کے ساتھ نازل کیا گیا ہے یہی لوگ فوز و فلاح پانے والے ہیں۔
(ترجمہ:آیۃ اللہ محمد حسین نجفی)

ذرا غور فرمائیں ۔ فریضہ نبوت کیا ہے ۔ کہا امر باالمعروف ، نہی عن المنکر۔  یہ کسی ایک نبی کی بات نہیں ہے ۔ ہر نبی یہ کچھ کرتا ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ جب کوئی بھی نبی یہ فریضہ خداوندی ادا کر رہا ہوتا ہے ، اس وقت کون سی حکومت یا ریاست موجود ہوتی ہے ؟ 
حکومت  یا   ریاست کی بات تو ایک طرف  کوئی اس نبی کی بات سننے پر راضی نہیں ہوتا ۔ وہ تو ان بے راہرو  لوگوں میں واحد انسان ہوتا ہے ، جو اپنے لوگوں کو اللہ کے دین کی طرف بلا رہا ہوتا ہے ۔ اور اس جرم کی پاداش میں ، کبھی ریت پر گھسیٹا جاتا ہے ، کبھی  سنگسار کر دیا جاتا ہے ، تو کبھی لکڑی کی طرح چروا دیا جاتا ہے ۔ 
اگر یہ فریضہ امر بالمعروف ، نہی عن المنکر ، ریاست سے مشروط ہو، تو  اس گمراہ معاشرے کو کس طرح ایک ایسے معاشرے میں تبدیل کیا جاسکے گا  ؟جس کے نتیجہ میں ریاست وجود میں آتی ہے ۔
  نبی ہی نہیں اس کے متبعین سب کے سب اس ہی فریضہ کی ادائیگی کے پابند ہیں ۔ فرمایا ۔

كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ ۗ وَلَوْ آمَنَ أَهْلُ الْكِتَابِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُم ۚ مِّنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَأَكْثَرُهُمُ الْفَاسِقُونَ(٣:١١٠)
تم بہترین اُمّت ہو جو سب لوگوں (کی رہنمائی) کے لئے ظاہر کی گئی ہے، تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو، اور اگر اہلِ کتاب بھی ایمان لے آتے تو یقیناً ان کے لئے بہتر ہوتا، ان میں سے کچھ ایمان والے بھی ہیں اور ان میں سے اکثر نافرمان ہیں، (ترجمہ:طاہر القادری)
غور فرمائیں ، کہا تم بہترین امت ہو ، کیوں ، کہا اس لیے کہ تم "امر باالمعروف اور نہی عن المنکر"کا فریضہ انجام دیتے ہو ، ساتھ ہی کہا ، کہ اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ سوچیں کیا کہہ رہا ہے قرآن ۔ اللہ پر ایمان بھی اس امر بالمعروف ، نہی عن منکر کے ساتھ موجود ہے ۔ اگر یہ امر بالمعروف ، نہی عن المنکر، کسی ریاست یا حکومت سے مشروط ہوتا ، تو پھر اللہ پر ایمان بھی اس ہی زمرے میں آنا چاہیے ۔ تو پھر تو موج ہی موج ہے میرے بھائی ۔ نہ اس وقت دنیا میں کوئی اسلامی ریاست موجود ہے نہ حکومت ۔ تو پھر جان چھوٹی ۔ نہ اللہ پر ایمان کی ضرورت ہے ، نہ صلوٰۃ کی ، نہ زکوٰۃ کی اور نہ امر بالمعروف کی ، نہ نہی عن المنکر ۔۔۔۔۔ راوی چین ہی چین لکھ رہا  ہے ۔ فھل من مدکر؟ ہے کوئی جو سمجھے ؟
دنیا میں ہر قوم پر اللہ کریم نے انبیاء  علیہ سلام کو مبعوث فرمایا ۔ تحقیق کر لیں ، کتنوں کو حکومت ملی ؟  کتنے انبیاء صاحب اقتدار تھے ؟  تو کیا ہم یہ سمجھ لیں کہ انہوں نے اپنی ساری زندگی میں قرآن کریم کے ان چاروں بنیادی احکامت پر عمل نہیں کیا ۔ کیونکہ اس کے لیے مطلوب ریاست یا حکومت انہیں دستیاب ہی نہ تھی ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔
وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَيُطِيعُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ أُولَٰئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللَّهُ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ(٩:٧١)
اور اہلِ ایمان مرد اور اہلِ ایمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق و مددگار ہیں۔ وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں اور نماز قائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت بجا لاتے ہیں، ان ہی لوگوں پر اللہ عنقریب رحم فرمائے گا، بیشک اللہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے،
(ترجمہ:طاہر القادری)
یہ مومنین کا اولین فریضہ ہے ۔ ہر دور میں مومنین کو یہ ہی حکم دیا جاتا رہا ۔ فرمایا
وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (٣:١٠٤)
اور تم میں سے ایسے لوگوں کی ایک جماعت ضرور ہونی چاہئے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائیں اور بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں، اور وہی لوگ بامراد ہیں، (ترجمہ:طاہر القادری)
یہ ہی نہیں کہ یہ حکم صرف مسلمانوں تک محدود ہے ۔ دور نبوی میں وہ اہل کتاب ، یعنی یہودی ، عیسائی وغیرہ ،  ان کے نیک لوگ بھی  ، اس حکم پر عمل کرتے تھے ۔ فرمایا
لَيْسُوا سَوَاءً ۗ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ أُمَّةٌ قَائِمَةٌ يَتْلُونَ آيَاتِ اللَّهِ آنَاءَ اللَّيْلِ وَهُمْ يَسْجُدُونَ(٣:١١٣)
مگر سارے اہل کتاب یکساں نہیں ہیں ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو راہ راست پر قائم ہیں، راتوں کو اللہ کی آیات پڑھتے ہیں اور اسکے آگے سجدہ ریز ہوتے ہیں (ترجمہ:ابوالاعلی مودودی)
يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَأُولَٰئِكَ مِنَ الصَّالِحِينَ(٣:١١٤)
اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہیں، نیکی کا حکم دیتے ہیں، برائیوں سے روکتے ہیں اور بھلائی کے کاموں میں سرگرم رہتے ہیں یہ صالح لوگ ہیں (ترجمہ:ابوالاعلی مودودی)
غور فرمائیں ، یہ ان اہل کتاب کاذکر ہو رہا ہے ، جو دور نبویﷺ میں مدینہ میں موجود تھے ۔ کہا ان میں سے بھی کچھ لوگ ، " امر باالمعروف ونہی عن المنکرکا فریضہ انجام دیتے ہیں ۔ یہ صالح لوگ ہیں ۔سوال یہ ہے کہ اس وقت ان اہل کتاب کی کون سی حکومت قائم تھی ؟ کون سی ریاست قائم تھی ؟  بلکہ یہ لوگ تو اسلامی ریاست میں مغلوب تھے ۔ تو پھر وہ کیوں اس فریضہ کی ادائیگی کر  رہے تھے ؟  جس کے صلے میں اللہ رب العزت نے انہیں ، صالحین کا خطاب عطا فرمادیا؟
سورہ لقمان میں ، اپنے بیٹے کو کی جانے والی نصیحت اس درجہ بہترین تھی کہ قرآن نے اس انسانی وصیت کو اپنے دامن میں جگہ دی ۔جناب لقمان اپنے بیٹے سے کہتے ہیں ۔
يَا بُنَيَّ أَقِمِ الصَّلَاةَ وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنكَرِ وَاصْبِرْ عَلَىٰ مَا أَصَابَكَ ۖ إِنَّ ذَٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ (٣١:١٧)
اے میرے فرزند! تو نماز قائم رکھ اور نیکی کا حکم دے اور برائی سے منع کر اور جو تکلیف تجھے پہنچے اس پر صبر کر، بیشک یہ بڑی ہمت کے کام ہیں، (ترجمہ:طاہر القادری)

کیا جناب لقمان کے صاحبزادے کے پاس کوئی ریاست یا حکومت تھی ؟  اگر نہ تھی ، تو پھر وہ کس حیثیت میں یہ فریضہ ادا کر سکتے تھے ۔ اگر اقامت صلوٰۃ ، ایتائے زکوٰۃ ، امر باالمعروف ، نہی عن المنکر ، ایک اسلامی ریاست یا حکومت سے مشروط ہیں ، تو پھر جناب لقمان کا اپنے بیٹے کو یہ نصیحت کرنا ، اور قرآن کا اس نصیحت کو اپنے دامن میں جگہ دینا ، کیا معنی رکھتا ہے ۔
دوستو ۔۔  اقامت صلوٰۃ ، ایتائے زکوٰۃ ، امر باالمعروف ، نہی عن المنکر ۔ یہ چاروں ہی تو دین کی اساس ہیں ۔ سارا دین ان چاروں فرائض میں آ جاتا ہے ۔ یہ پورے ایک نظام کا نام ہے ، جو انفرادی سطح سے شروع ہو کر اجتماعی سطح تک پہنچتا ہے ۔ ایک  ایسا  معاشرہ جہاں کفر  ہو ۔ جہاں  انسانیت  تلاش حق  میں سرگرداں  ہو ،  وہاں  اس  نظام  کی  ابتداء  امر بالمعروف و نہی عن المنکر سے ہوتی ہے ۔ ایک فرد اپنے لوگوں کو معروف کا حکم دیتا ہے ، منکرات سے روکتا ہے ۔ اس عمل کے دوران وہ ہر طرح کے مصائب و آلام سے گزرتا ہے ، یہاں تک کے بعض اوقات جان سے ہی چلا جاتا ہے ۔ اس طرح ایک سے دو ، اور دو سے تین ، پھر ایک جماعت وجود میں آجاتی ہے ۔ جو اس نظام کے باقی اجزاء ، یعنی اقامت صلوٰۃ  اور ایتائے زکوٰۃ کے نفاذ کو یقینی بناتی ہے ۔ چند افراد کی یہ جماعت ، نہ حکومت کہلائی جاسکتی ہے اور نہ ریاست  لیکن یہ عمل اس ریاست میں بھی مومنین کرتے رہتے ہیں ، جو کفر کی حکومت ہو ۔ غیرمسلم حکومت ہو ۔ اگر کسی غیر مسلم حکومت و ریاست کی حدود میں ، عبد مومن اس فریضہ سے ہی لا تعلق ہو جائے ، تو آپ ہی سوچیں ، کون سا طریقہ ہے جو اس کفر کی ریاست یا حکومت کو ، اللہ کے قانون کے تابع کر دے ؟
حقیقت کیا ہے ۔ آیت مبارکہ)٢٢:٤١(میں ایک لفظ کے من مانے ترجمہ نے بات کو کچھ سے کچھ بنا دیا ۔ اس آیت مبارکہ میں لفظ " مَّكَّنَّاهُمْ " کا  ترجمہ حکومت یا ریاست کر دیا گیا ۔ جو درست نہیں ہے ۔
عربی زبان میں ، اس لفظ  کا  مادہ ، " م ک ن " ہے ۔ جس کے معنی دسترس ، قدرت کے ہوتے ہیں ۔ مکن شئی  ۔ چیز قوی و مضبوط ہو گئی ، راسخ ہو گئی ۔ اپنی جگہ پر جم گئی ( تاج العروس )
قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔
أَلَمْ يَرَوْا كَمْ أَهْلَكْنَا مِن قَبْلِهِم مِّن قَرْنٍ مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ مَا لَمْ نُمَكِّن لَّكُمْ وَأَرْسَلْنَا السَّمَاءَ عَلَيْهِم مِّدْرَارًا وَجَعَلْنَا الْأَنْهَارَ تَجْرِي مِن تَحْتِهِمْ فَأَهْلَكْنَاهُم بِذُنُوبِهِمْ وَأَنشَأْنَا مِن بَعْدِهِمْ قَرْنًا آخَرِينَ)٦:٦(
کیا انہوں نے دیکھا نہیں کہ ان سے پہلے کتنی ایسی قوموں کو ہم ہلاک کر چکے ہیں جن کا اپنے اپنے زمانہ میں دور دورہرہا ہے؟ اُن کو ہم نے زمین میں وہ اقتدار بخشا تھا جو تمہیں نہیں بخشا ہے، ان پر ہم نے آسمان سے خوب بارشیں برسائیں اور ان کے نیچے نہریں بہا دیں، (مگر جب انہوں نے کفران نعمت کیا تو) آخر کار ہم نے ان کے گناہوں کی پاداش میں انہیں تباہ کر دیا اور ان کی جگہ دوسرے دور کی قوموں کو اٹھایا )ترجمہ:ابوالاعلی مودودی)
مزید فرمایا ۔
وَلَقَدْ مَكَّنَّاهُمْ فِيمَا إِن مَّكَّنَّاكُمْ فِيهِ وَجَعَلْنَا لَهُمْ سَمْعًا وَأَبْصَارًا وَأَفْئِدَةً فَمَا أَغْنَىٰ عَنْهُمْ سَمْعُهُمْ وَلَا أَبْصَارُهُمْ وَلَا أَفْئِدَتُهُم مِّن شَيْءٍ إِذْ كَانُوا يَجْحَدُونَ بِآيَاتِ اللَّهِ وَحَاقَ بِهِم مَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِئُونَ (٤٦:٢٦)
(اے اہلِ مکہّ!) درحقیقت ہم نے ان کو ان امور میں طاقت و قدرت دے رکھی تھی جن میں ہم نے تم کو قدرت نہیں دی اور ہم نے انہیں سماعت اور بصارت اور دل و دماغ (کی بے بہا صلاحیتوں) سے نوازا تھا مگر نہ تو ان کے کان ہی ان کے کچھ کام آسکے اور نہ ان کی آنکھیں اور نہ (ہی) ان کے دل و دماغ جبکہ وہ اﷲ کی نشانیوں کا انکار ہی کرتے رہے اور (بالآخر) اس (عذاب) نے انہیں آگھیرا جس کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے، (ترجمہ:طاہر القادری)
چنانچہ ، اس آیت مبارکہ میں اس لفظ "مَكَّنَّاهُمْ" کے معنی حکومت یا   ریاست  کے نہیں ، بلکہ قدرت ، طاقت ، دسترس کے ہیں ۔ اللہ کے نام پر اٹھنے والی وہ جماعت  اللہ کریم کے حکم کے مطابق ، اقامت صلوٰۃ ، ایتائے زکوٰۃ ، امر باالمعروف ، نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرتی ہوئی ، ایک فرد سے ایک گروہ ، اور ایک گروہ سے ایک جماعت ،ایک قوم   میں تبدیل ہوتی چلی جائے گی ۔ اس طرح وہ ایک قابل ذکر طاقت و قدرت کی مالک بنتی چلی جائے گی ۔ یہ طاقت ، یہ قدرت کسی بھی  حکومت یا  ریاست میں ہو سکتی ہے ۔ ایک عبد مومن کسی غیر مسلم ، یا کفر کی حکومت میں ، اللہ کریم کے ان احکامات  " اقامت صلوٰۃ ، ایتائے زکوٰۃ ، امر باالمعروف ، نہی عن المنکر " سے اس بناء پر لا تعلق ہو کر نہیں رہ سکتا کہ جب ایک اسلامی حکومت قائم ہوگی ، تب میں یہ احکامات بجا لاؤں گا ۔ اگر یہ ایک عبد مومن ، ایک فرد ، ان فرائض کی ادائیگی کے لیے اکیلا ہی میدان عمل میں نہیں اترے گا ، تو وہ معاشرہ تبدیل ہی کس طرح ہوگا ؟
کیسے یہ ایک فرد ، افراد و جماعت میں تبدیل ہوگا ۔ چنانچہ اس آیت مبارکہ ، کہ جس کے من مانے ترجمہ یا مفہوم سے ،  دین کے بنیادی پروگرام ہی کو ، کسی حکومت یا  ریاست سے مشروط کر دیا جائے ، ایک بہت بڑی غلط نگہی ہے ۔ بہت بڑا سہو ہے ۔ چنانچہ آیت مبارکہ کا ترجمہ اس طرح ہو  گا ۔
الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ ۗ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ (٢٢:٤١)
یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم ان کو ملک میں دسترس دیں تو نماز پڑھیں اور زکوٰة ادا کریں اور نیک کام کرنے کا حکم دیں اور برے کاموں سے منع کریں اور سب کاموں کا انجام خدا ہی کے اختیار میں ہے (ترجمہ:فتح محمد جالندہری)
ایک عبد مومن اپنے  غیر قرآنی معاشرے میں قرآن کریم کے ان اساسی پروگرام  " أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَوَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ کی ابتداء کرتا ہے ۔ ابتداء میں وہ اکیلا ہی ہوتا ہے ۔ وہ اپنے رب کے حکم کے مطابق ، اپنی جان و مال ، طاقت و صلاحیت ، کے مطابق اس مشن کی شروعات کرتا ہے ۔ مشکلات کا سامنا کرتا ہے ۔ تکالیف و اذیت سے گزرتا ہے ۔ جان و مال کے نقصان برداشت کرتا ہے ۔ اس طرح آہستہ آہستہ ایک ایسی جماعت وجود میں آجاتی ہے ، جو دین کے تمکن کا باعث بن جاتی ہے ۔
اکیلا ہی چلا تھا ، جانب منزل مگر
لوگ آتے گئے کارواں بنتا گیا
یہ ہی کچھ نبی اکرم ﷺ نے کیا ۔ تیرہ سال کی مسلسل محنت ، مشقت ، تکالیف ، کرب و اذیت ۔ اور اس کا حاصل 313  افراد۔  اور پھر دین کا تمکن  ۔ تما م پروگرا م جو  پہلے انفرادی تھا ،اب اجتماعی ہو گیا ۔ وہ نظام جو پہلے چند افراد پر مشتمل لوگ چلا رہے تھے اب ایک باقائدہ جماعت کو منتقل ہو گیا ۔معاشرے کا ہر فرد ، ان چاروں بنیادی پروگرامز پر اپنی اپنی جگہ پوری دیانت داری کے ساتھ عمل کرتا رہے گا ۔ اقامت صلوٰۃ کرتا رہے گا ۔۔ ایتائے زکوٰۃ کرتا رہے گا ۔ امر باالمعروف  کرتا رہے گا ۔ نہی عن المنکر کرتا رہے گا ۔ یہ عمل ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں رکے گا ۔  اس کی کچھ عملی مثالیں دیتا ہوں ۔
ہمارے ملک میں ایک قوم بستی ہے ۔ آغا خانی  ۔ کبھی ان پر غور فرمائیں ۔ یہ ایک بڑی جماعت ہے ۔ ایک قوت کی مالک ہے ۔ اپنے امام جناب آغا خان صاحب کی پیروکار ہے ۔ چنانچہ اپنی فہم کے مطابق ، جسے وہ لوگ درست سمجھتے ہیں اسے عملی طور پر اپنے معاشرے میں نافذ کر رکھا ہے ۔ اس مرحلہ پر میں ان " آغا خانی " دوستوں کے عقائد پر بحث نہیں کر رہا ۔ نہ ہی ان کے درست یا غلط ہونے پر کوئی تبصرہ کر رہا ہوں ۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ لوگ ایک جماعت کے طور پر ، پاکستان سمیت دنیا کے جس ملک میں بھی ہیں ، اپنے امام کے حکم پر عمل کرتے ہیں ۔ انہیں کسی حکومت کی ضرورت نہیں ۔
بلکل ایسی ہی ایک جماعت " بوہری برادری " ہے ۔ ان کا بھی کچھ ایسا ہی طریقہ کار ہے ۔ ایک منظم گروہ یا جماعت کی صورت میں یہ لوگ بھی دنیا کےبہت سارے ممالک میں رہائش پذیر ہیں ۔ اپنے امام کے بتائے ہوئےراستے پر چلتے ہیں ۔ کیا انہیں کسی ریاست یا حکومت کی ضرورت ہے ؟
اس ہی طرح ، پاکستان سے باہر کئی ممالک میں ہمارے پاکستانی بھائیوں نے اپنے طور پر ایک کمیونٹی بنائی ہوتی ہے ، جہاں وہ اپنی سوچ کے مطابق ، اس ملک کے قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ،اپنے اپنے عقائد پر عمل پیرا ہوتے ہیں ۔ کیا انہیں کسی حکومت یا ریاست کی ضرورت ہوتی ہے ؟
بات بلکل سیدھی ہے ، اگر پہلے سے قائم شدہ کسی نظریہ کے بجائے ، صرف اور صرف قرآن کریم کی تعلیمات کو سامنے رکھا جائے ۔
قرآن کریم نے زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح ، معاشی میدان میں بھی ، اپنے پیروکاروں کو راہنمائی فراہم کی ہے ۔ وہ ایسے نادار ، محتاج ، سائل و محروم افراد کی نگہداشت ، اور ان کی زندگی کی لازمی ضروریات کو پوری کرنے کے لیے ایک پورا نظام دیتا ہے ۔ جسے " زکوٰۃ " کہتے ہیں ۔ یہ ہر مومن پر فرض ہے ۔ خواہ ایک اسلامی ریاست قائم ہو یا نہ ہو ۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔
وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ" (٢:٤٣)
اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دیا کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ (مل کر) رکوع کیا کرو،(ترجمہ:طاہر القادری)
وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ(٢٤:٥٦)
اور تم نماز (کے نظام) کو قائم رکھو اور زکوٰۃ کی ادائیگی (کا انتظام) کرتے رہو اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی (مکمل) اطاعت بجا لاؤ تاکہ تم پر رحم فرمایا جائے (یعنی غلبہ و اقتدار، استحکام اور امن و حفاظت کی نعمتوں کو برقرار رکھا جائے)، (ترجمہ:طاہر القادری)
إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (٢:٢٧٧)
بیشک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کئے اور نماز قائم رکھی اور زکوٰۃ دیتے رہے ان کے لئے ان کے رب کے پاس ان کا اجر ہے، اور ان پر (آخرت میں) نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ رنجیدہ ہوں گے،
(ترجمہ:طاہر القادری)
إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ (٥:٥٥)
تمہارے رفیق تو حقیقت میں صرف اللہ اور اللہ کا رسول اور وہ اہل ایمان ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ کے آگے جھکنے والے ہیں(ترجمہ:ابوالاعلی مودودی)
رِجَالٌ لَّا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَن ذِكْرِ اللَّهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ ۙ يَخَافُونَ يَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِيهِ الْقُلُوبُ وَالْأَبْصَارُ (٢٤:٣٧)
اُن میں ایسے لوگ صبح و شام اُس کی تسبیح کرتے ہیں جنہیں تجارت اور خرید و فروخت اللہ کی یاد سے اور اقامت نماز و ادائے زکوٰۃ سے غافل نہیں کر دیتی وہ اُس دن سے ڈرتے رہتے ہیں جس میں دل الٹنے اور دیدے پتھرا جانے کی نوبت آ جائے گی (ترجمہ:ابوالاعلی مودودی)

نہ صرف یہ کہ عام مومنین بلکہ نبی ﷺ کی فیملی بھی اس حکم خداوندی سے مستشنیٰ نہ تھی ۔ فرمایا ۔

يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاءِ ۚ إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوفًا (٣٣:٣٢)
اے اَزواجِ پیغمبر! تم عورتوں میں سے کسی ایک کی بھی مِثل نہیں ہو، اگر تم پرہیزگار رہنا چاہتی ہو تو (مَردوں سے حسبِ ضرورت) بات کرنے میں نرم لہجہ اختیار نہ کرنا کہ جس کے دل میں (نِفاق کی) بیماری ہے (کہیں) وہ لالچ کرنے لگے اور (ہمیشہ) شک اور لچک سے محفوظ بات کرنا، (ترجمہ:طاہر القادری)

وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ ۖ وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا (٣٣:٣٣)
اور اپنے گھروں میں سکون سے قیام پذیر رہنا اور پرانی جاہلیت کی طرح زیب و زینت کا اظہار مت کرنا، اور نماز قائم رکھنا اور زکوٰۃ دیتے رہنا اور اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت گزاری میں رہنا، بس اللہ یہی چاہتا ہے کہ اے (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) اہلِ بیت! تم سے ہر قسم کے گناہ کا میل (اور شک و نقص کی گرد تک) دُور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے، (ترجمہ:طاہر القادری)

تمام انبیاء علیہ سلام کو بھی " ایتائے زکوٰۃ " کا حکم دیا گیا ۔ قرآن کریم میں اس حوالے سے بہت واضح طور پر بیان ہے ۔ ایسا نہ تھا کہ اللہ کریم نے  جن جن انبیاء علیہ سلام کو مبعوث فرمایا وہ سب کے سب کامیاب ہو گئے ۔قرآن ان انبیاء کا ذکر کرتا ہے کہ جن کو اذیت دی گئی ۔ یہاں تک کہ قتل کر دیئے گئے ۔ تو سوال یہ ہے کہ ایسی صورتحال میں ، کہ جب جان بھی محفوظ نہ رہ سکی ، یہ انبیاء کرام کیا ایتائے زکوٰۃ کے عمل سے غافل تھے ؟ کیا وہ ایک ایسی ریاست کا انتظار کر رہے تھے جس کے قیام کے بعد وہ اس قرآنی فریضہ " ایتائے زکوٰۃ  " پر عمل کرتے ۔ حضرت عیسیٰ علیہ سلام کے احوال قرآن کریم میں موجود ہیں ۔ ریاست تو ایک طرف ، اس عظیم المرتبت رسول اللہ کو چین سے جینے تک نہ دیا گیا۔ لیکن دیکھیں قرآن کیا کہہ رہا ہے ۔ فرمایا

وَجَعَلَنِي مُبَارَكًا أَيْنَ مَا كُنتُ وَأَوْصَانِي بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ مَا دُمْتُ حَيًّا(١٩:٣١)
اور میں جہاں کہیں بھی رہوں اس نے مجھے سراپا برکت بنایا ہے اور میں جب تک (بھی) زندہ ہوں اس نے مجھے نماز اور زکوٰۃ کا حکم فرمایا ہے، (ترجمہ:طاہر القادری)
وَبَرًّا بِوَالِدَتِي وَلَمْ يَجْعَلْنِي جَبَّارًا شَقِيًّا (١٩:٣٢)
اور اپنی والدہ کے ساتھ نیک سلوک کرنے والا (بنایا ہے) اور اس نے مجھے سرکش و بدبخت نہیں بنایا،
(ترجمہ:طاہر القادری)
وَالسَّلَامُ عَلَيَّ يَوْمَ وُلِدتُّ وَيَوْمَ أَمُوتُ وَيَوْمَ أُبْعَثُ حَيًّا (١٩:٣٣)
اور مجھ پر سلام ہو میرے میلاد کے دن، اور میری وفات کے دن، اور جس دن میں زندہ اٹھایا جاؤں گا،
(ترجمہ:طاہر القادری)
ذَٰلِكَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ ۚ قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِي فِيهِ يَمْتَرُونَ (١٩:٣٤)
یہ مریم (علیہا السلام) کے بیٹے عیسٰی (علیہ السلام) ہیں، (یہی) سچی بات ہے جس میں یہ لوگ شک کرتے ہیں،
(ترجمہ:طاہر القادری)
اب مجھے بتایا جائے کہ کیا حضرت مسیح علیہ سلام کو کبھی حکومت ملی ۔ کوئی ریاست قائم کی ۔ نہیں ۔ لیکن انھیں حکم کیا دیا جا رہا ہے ، کہ جب تک زندہ رہو ، تم  "اقامت صلوٰۃ  اور ایتائے زکوٰۃ " کرنے کے پابند ہو ۔ اس آیت مبارکہ میں "میں جہاں کہیں بھی رہوں   اور جب تک زندہ رہوں " کے الفاظ قابل غور ہیں ۔ جہاں کہیں بھی رہوں ۔ تو اب کیا جہاں کہیں بھی رہیں ، ہر جگہ اپنی ریاست قائم کریں گے تاکہ " ایتائے زکوٰۃ "   کے حکم خداوندی  کی تعمیل کر سکیں ؟ مزید ارشاد فرمایا ۔
وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِسْمَاعِيلَ ۚ إِنَّهُ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَكَانَ رَسُولًا نَّبِيًّا [١٩:٥٤]وَكَانَ يَأْمُرُ أَهْلَهُ بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ وَكَانَ عِندَ رَبِّهِ مَرْضِيًّا (١٩:٥٥)
اور کتاب میں اسمٰعیل کا بھی ذکر کرو وہ وعدے کے سچے اور ہمارے بھیجے ہوئے نبی تھے۔ اور اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰة کا حکم کرتے تھے اور اپنے پروردگار کے ہاں پسندیدہ (وبرگزیدہ) تھے(ترجمہ:فتح محمد جالندہری)

غور فرمائیں ، اللہ کا یہ نبی ، نبی اکرم ﷺ کے جد امجد ، یہ اپنے گھر والوں کو " اقامت صلوٰۃ اور ایتائے زکوٰۃ " کا حکم کرتے تھے ۔ کیوں اگر یہ عمل کسی حکومت یا ریاست سے مشروط تھا ، تو کیوں اپنی فیملی کو اس بات کا پابند کرتے تھے ؟ مزید ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔
وَوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ نَافِلَةً ۖ وَكُلًّا جَعَلْنَا صَالِحِينَ (٢١:٧٢)وَنَجَّيْنَاهُ وَلُوطًا إِلَى الْأَرْضِ الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا لِلْعَالَمِينَ (٢١:٧١)وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا وَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِمْ فِعْلَ الْخَيْرَاتِ وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ ۖ وَكَانُوا لَنَا عَابِدِينَ (٢١:٧٣)

اور ہم ابراہیم (علیہ السلام) کو اور لوط (علیہ السلام) کو (جو آپ کے بھتیجے یعنی آپ کے بھائی ہاران کے بیٹے تھے) بچا کر (عراق سے) اس سرزمینِ (شام) کی طرف لے گئے جس میں ہم نے جہان والوں کے لئے برکتیں رکھی ہیں، اور ہم نے انہیں (فرزند) اسحاق (علیہ السلام) بخشا اور (پوتا) یعقوب (علیہ السلام ان کی دعا سے) اضافی بخشا، اور ہم نے ان سب کو صالح بنایا تھا۔ اور ہم نے انہیں (انسانیت کا) پیشوا بنایا وہ (لوگوں کو) ہمارے حکم سے ہدایت کرتے تھے اور ہم نے ان کی طرف اَعمالِ خیر اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے (کے احکام) کی وحی بھیجی، اور وہ سب ہمارے عبادت گزار تھے، (ترجمہ:طاہر القادری)
ذرا غور فرمائیں ۔ یہ سارے انبیاء بنی اسرائیل ہیں ۔ ان کے ذکر کے بعد فرمایا کہ انہیں " اقامت صلوٰۃ اور ایتائے زکوٰۃ " کا حکم دیا گیا تھا ۔ حضرت لوط علیہ سلام کے حوالے سے قرآن کریم میں واضح بیان ہے کہ آخر الامر ان  کی قوم کو اس کی نافرمانیوں کے نتیجہ میں شدید عذاب الٰہی کا سامنا کرنا پڑا ۔ اور وہ قوم صفحہ ہستی سے مٹا دی گئی ۔ اب مجھے بتایا جائے ، کہ حضرت لوط علیہ سلام کس طرح اس حکم خداوندی کو بجا لاتے تھے ، جبکہ حکومت اور ریاست تو ایک طرف ، قوم تو اتنی نافرمان تھی کہ اسے عذاب الٰہی کی سے تباہ کرنا پڑا
اتنی واضح آیات قرآنی کی موجودگی میں ایک بار پھر  "  علامہ  پرویز ؒ   " کے ان الفاظ کو غور سے پڑھیں ۔

"اور دوسری غور طلب بات یہ ہے ، کہ اس آیت میں کہا یہ گیا ہے ، کہ اسلامی مملکت زکوٰۃ دے گی ، ( اس حکومت کا فریصہ ایتائے زکوٰۃ  ہو گا) لہٰذا یہ جو عام طور پر کہا جاتا ہے ، کہ اسلامی حکومت کا فریضہ یہ ہے ، کہ وہ لوگوں سے زکوٰۃ کا پیسہ وصول کرے ،یہ تصور قرآن کے تصور زکوٰۃکے خلاف ہے ۔قرآن کریم تو یہ کہتا ہے ، کہ اسلامی حکومت کا فریضہ " زکوٰۃ " دینا ہے ، نہ کہ لوگوں سے زکوٰۃ  لینا "۔
نظام ربوبیت ، صفحہ نمبر 151، 152 ۔۔۔۔ از علامہ غلام احمد پرویزؒ

اب اس ضمن میں درج ذیل آیت مبارکہ ملاحظہ فرمائیں    ۔ فرمایا

اشْتَرَوْا بِآيَاتِ اللَّهِ ثَمَنًا قَلِيلًا فَصَدُّوا عَن سَبِيلِهِ ۚ إِنَّهُمْ سَاءَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (٩:٩)
انہوں نے آیاتِ الٰہی کے بدلے (دنیوی مفاد کی) تھوڑی سی قیمت حاصل کر لی پھر اس (کے دین) کی راہ سے (لوگوں کو) روکنے لگے، بیشک بہت ہی برا کام ہے جو وہ کرتے رہتے ہیں،(ترجمہ:طاہر القادری)

لَا يَرْقُبُونَ فِي مُؤْمِنٍ إِلًّا وَلَا ذِمَّةً ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُعْتَدُونَ (٩:١٠)
نہ وہ کسی مسلمان کے حق میں قرابت کا لحاظ کرتے ہیں اور نہ عہد کا، اور وہی لوگ (سرکشی میں) حد سے بڑھنے والے ہیں، (ترجمہ:طاہر القادری)

فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ ۗ وَنُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ (٩:١١)
پھر (بھی) اگر وہ توبہ کر لیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کرنے لگیں تو (وہ) دین میں تمہارے بھائی ہیں، اور ہم (اپنی) آیتیں ان لوگوں کے لئے تفصیل سے بیان کرتے ہیں جو علم و دانش رکھتے ہیں، (ترجمہ:طاہر القادری)

وَإِن نَّكَثُوا أَيْمَانَهُم مِّن بَعْدِ عَهْدِهِمْ وَطَعَنُوا فِي دِينِكُمْ فَقَاتِلُوا أَئِمَّةَ الْكُفْرِ ۙ إِنَّهُمْ لَا أَيْمَانَ لَهُمْ لَعَلَّهُمْ يَنتَهُونَ (٩:١٢)
اور اگر وہ اپنے عہد کے بعد اپنی قسمیں توڑ دیں اور تمہارے دین میں طعنہ زنی کریں تو تم (ان) کفر کے سرغنوں سے جنگ کرو بیشک ان کی قَسموں کا کوئی اعتبار نہیں تاکہ وہ (اپنی فتنہ پروری سے) باز آجائیں، (ترجمہ:طاہر القادری)
ذرا غورفرمائیں ۔ یہ سورہ توبہ کی آیات مبارکہ ہیں ۔ یہ مدنی سورہ ہے ۔ یہ وہ زمانہ ہے جب ایک اسلامی ریاست قائم ہو چکی ہے ۔ اس ریاست میں موجود ایسے لوگ جو دین کی مخالفت میں پیش پیش ہیں ، ان کے حوالے سے کچھ ہدایات دی جا رہی ہیں ۔ اس میں بنیادی نقطہ ہی یہ ہے کہ اگر یہ توبہ کر لیں ، اقامت صلوٰۃ  اور ایتائے زکوٰۃ پر عمل کریں ، تو یہ تمہارے بھائی ہیں ۔ اب اگر ایک اسلامی ریاست زکوٰۃ لینے کی مجاز ہی نہیں ہے ، تو یہ کس طرح کا حکم ہے ۔ یہ باغی لوگ کس کو زکوٰۃ دیں گے ، تاکہ ان کی نیک نیتی ظاہر ہو جائے ؟
 مضمون کی طوالت کا خدشہ مجھے ان تمام آیات مبارکہ کو پیش کرنے سے روک رہا ہے ، جو اس ضمن میں موجود ہیں ۔ 
چنانچہ مذکورہ بالا دلائل سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ دین کا کوئی بھی رکن ، دین کی کوئی بھی راہنمائی ، دین کا کوئی بھی حکم ،  کسی مخصوص دور ، حالات  سے مشروط نہیں ۔ یہ ایک مومن کے ایمان کے ساتھ ہی اس پر نافذ العمل ہوتا ہے ۔

اگر ایک مومن کسی ایسے معاشرے کا فرد ہے جہاں زنا ایک جرم نہ ہو ، تب بھی وہ مومن زنا کا ارتکاب نہیں کر سکتا ۔اگر کسی معاشرے میں سود عام ہو ،  جائز ہو ،  تب بھی مومن سود سے بچے گا ۔  ایک ایسا معاشرہ جہاں مومنین کمزور ہوں ، جہاں ان کے پاس دین کے ارکان اور ہدایات پر عمل درآمد کے لیے طاقت دستیاب نہ ہو وہاں یہ مومنین اپنی انفرادی حیثیت میں دین کے احکامات پر عملدآمد کریں گے ۔ اور اپنی پوری توجہ ، ایک ایسی جماعت کی تشکیل پر صرف کر دیں گے ، جو آگے جا کر زمین میں طاقت حاصل کر لے ۔ تاکہ دین کے وہ تمام ارکان ، احکامات و ہدایات جو پہلے انفرادی حیثیت میں ادا کئے جا رہے تھے وہ اجتماعی حیثیت اختیار کر لیں ۔

قرآن کریم زنا کی سزا سو کوڑے تجویز کرتا ہے ۔ اب ایک ایسے معاشرے میں ، جہاں مومنین کے پاس اس حکم پر عملدرآمد کے لیے مطلوبہ طاقت ہی دستیاب نہ ہو ، کس طرح اس حکم کو نافذ کیا جا سکتا ہے ؟   لیکن کیا اس بناء پر وہ مومنین انفرادی سطح پر زنا سے گریز کرنے کے پابند نہ ہوں گے ؟
ایسے احکامات جن کے لیے واقعی ایک ریاست کی ضرورت ہوتی ہے ۔مثلاً قرآنی تعزیرات  ۔    اس معاشرے میں وہ کسی اور کو اس جرم کی پاداش میں سوکوڑوں کی سزا نہیں دے سکتا ۔ نہ چور کوقرآنی سزا دے سکتا ہے  ۔  اس مقام پر بھی مومن خود اپنی انفرادی حیثیت میں ان احکامات کو اپنی اور اپنی فیملی کی حد میں نافذ کرے گا ۔ اور ایسے معاشرے کی تشکیل کی جدوجہد کرے گا ، جہاں اللہ کا دین اپنی تمام تر راہنمائیوں اور ہدایات کے ساتھ عملی طور پر نافذ ہو جائے ۔ جہاں دین کے ان احکامات پر بھی عمل درآمد کیا جا سکے ، جو طاقت نہ ہونے کی وجہ سے ایک غیر اسلامی معاشرے میں  ممکن العمل نہ ہوں ۔
چنانچہ دین کا ایک ایک حکم ، ایک ایک ہدایت ، ہر لمحہ ، ہر گھڑی ، ہر حال میں ، مومنین پر نافذ ہوتا ہے البتہ ان پر عمل درآمد کی حکمت عملی اپنے حالات کے مطابق ، باہمی مشاورت سے طے کی جائے گی ۔یہ ہی صورتحال " زکوٰۃ " کی ہے ۔ معاشرے کے صاحب حیثیت لوگ اپنے مال میں سے ایک مخصوص رقم اپنے سائل و محروم ، یتامیٰ و مساکین بھائیوں کی بنیادی ضروریات کی فراہمی کے لیے وقف کریں گے ۔ وہ لوگ  جواپنے عمل صالحہ کے نتیجہ میں جنت کے حقدار ٹھہریں گے ، ان کے حوالے سے قرآن کریم نے اس حقیقت کو بہت ہی خوبصورت پیرائے میں بیان کیا ہے ۔ فرمایا ۔
إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [٥١:١٥]آخِذِينَ مَا آتَاهُمْ رَبُّهُمْ ۚ إِنَّهُمْ كَانُوا قَبْلَ ذَٰلِكَ مُحْسِنِينَ [٥١:١٦]كَانُوا قَلِيلًا مِّنَ اللَّيْلِ مَا يَهْجَعُونَ [٥١:١٧]وَبِالْأَسْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُونَ [٥١:١٨]وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ [٥١:١٩]
البتہ متقی لوگ اُس روز باغوں اور چشموں میں ہوں گے ۔۔ جو کچھ اُن کا رب انہیں دے گا اسے خوشی خوشی لے رہے ہوں گے وہ اُس دن کے آنے سے پہلے نیکو کار تھے۔ راتوں کو کم ہی سوتے تھے۔ پھر وہی رات کے پچھلے پہروں میں معافی مانگتے تھے۔ اور اُن کے مالوں میں حق تھا سائل اور محروم کے لیے ۔(ترجمہ:ابوالاعلی مودودی)

ذراغور فرمائیں ، کیا بات ہو رہی ہے ۔ یہ ان لوگوں کا ذکر ہے جنھیں قرآن متقین کا سرٹیفکٹ عطا فرما رہا ہے ۔ ان کے لیے جنت کی نعماء  کا ذکر کرکے کہا کہ یہ وہ لوگ تھے جن کے مال میں سائل و محروم کا حق تھا ۔ یہ کسی حکومت یا ریاست کی بات نہیں ہو رہی ۔ عام لوگوں کی بات ہو رہی ہے ۔ کہا ان کے مال میں  "أَمْوَالِهِمْ"۔ غور فرمائیں  کہا  ان  کا  مال ۔ یہ معاشرے  کے صاحب حیثیت افراد کی بات ہو رہی ہے ۔  کہا ان کے مال میں ان لوگوں کے لیے جو سائل و محروم ان کا ایک حق تھا ۔

اس مقام پر لازم ہے کہ ہم ان دو الفاظ " سائل " اور " محروم " کے حقیقی معنوں سے بھی آشنا ہو جائیں ۔
عربی زبان میں " سائل " کا  مادا  " س ا ل " ہے ۔ اس کے معنی دریافت کرنا بھی ہے ، اور طلب کرنا بھی ہے ۔ قرآن کریم میں یہ لفظ ان دونوں معنوں میں استعمال ہوا ہے ۔ 
عربی زبان میں  " محروم "    کا   مادہ   " ح ر م "  ہے ۔ اس کے معنی کسی شئے کو شدت سے روکنے کے ہوتے ہیں ۔ یہ لفظ  "حلال " کی ضد ہے جسے کے معنی رسیاں توڑ کر آزاد کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اس جہت سےوہ لوگ جن کی ضروریات اس درجہ رک جائیں کہ ان کے پاس کچھ بھی نہ رہے " المحروم " کہلاتے ہیں (تاج و محیط )
قرآن کریم نے اس لفظ کو بڑی فصاحت سے بیان کیا ہے ۔ فرمایا ۔

إِنَّا بَلَوْنَاهُمْ كَمَا بَلَوْنَا أَصْحَابَ الْجَنَّةِ إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّهَا مُصْبِحِينَ (٦٨:١٧)وَلَا يَسْتَثْنُونَ (٦٨:١٨)فَطَافَ عَلَيْهَا طَائِفٌ مِّن رَّبِّكَ وَهُمْ نَائِمُونَ (٦٨:١٩)فَأَصْبَحَتْ كَالصَّرِيمِ (٦٨:٢٠)فَتَنَادَوْا مُصْبِحِينَ (٦٨:٢١)أَنِ اغْدُوا عَلَىٰ حَرْثِكُمْ إِن كُنتُمْ صَارِمِينَ (٦٨:٢٢)فَانطَلَقُوا وَهُمْ يَتَخَافَتُونَ (٦٨:٢٣)أَن لَّا يَدْخُلَنَّهَا الْيَوْمَ عَلَيْكُم مِّسْكِينٌ (٦٨:٢٤)وَغَدَوْا عَلَىٰ حَرْدٍ قَادِرِينَ (٦٨:٢٥)فَلَمَّا رَأَوْهَا قَالُوا إِنَّا لَضَالُّونَ (٦٨:٢٦)بَلْ نَحْنُ مَحْرُومُونَ (٦٨:٢٧)
بیشک ہم نے انہیں اسی طرح آزما لیا جس طرح ہم نے باغ والوں کو آزمایا تھا جبکہ انہوں نے قسمیں کھائیں کہ صبح ہوتے ہی اس باغ کے پھل اتار لیں گے۔ اور انشاءاللہ نہ کہا۔ پس اس پر تیرے رب کی جانب سے ایک بلا چاروں طرف گھوم گئی اور یہ سو ہی رہے تھے۔ پس وه باغ ایسا ہو گیا جیسے کٹی ہوئی کھیتی۔ اب صبح ہوتے ہی انہوں نے ایک دوسرے کو آوازیں۔ کہ اگر تمہیں پھل اتارنے ہیں تو اپنی کھیتی پر سویرے ہی سویرے چل پڑو۔ پھر یہ سب چپکے چپکے یہ باتیں کرتے ہوئے چلے۔ کہ آج کے دن کوئی مسکین تمہارے پاس نہ آنے پائے۔ اور لپکے ہوئے صبح صبح گئے۔ (سمجھ رہے تھے) کہ ہم قابو پاگئے۔ جب انہوں نے باغ دیکھا تو کہنے لگے یقیناً ہم راستہ بھول گئے۔ نہیں نہیں بلکہ ہماری قسمت پھوٹ گئی (ترجمہ:محمد جوناگڑھی)
یہ ہیں  " محروم  " ۔ جن کا کچھ بھی باقی نہ بچے ۔ سب کچھ ختم ہو جائے ۔

قرآن کہتا ہے کہ یہ لوگ جو زندگی میں اس مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ جن کا کوئی پرسان حال نہیں ۔ جن کے پاس نہ تو کھانے کو روٹی ہے ، نہ پہننے کو کپڑا ، اور نہ رہنے کو چھت ۔ کہا ان میں کچھ ایسے ہوں گے ، جو اپنی ضرورت ، اپنی حاجت تمہارے سامنے بیان کرسکتے ہوں گے ، لیکن کچھ ایسے بھی ہوں گے جو کسی سے کچھ مانگنے کا حوصلہ ہی نہ رکھتے ہوں ۔ کہا ان لوگوں کا حق ہے تمہارے مال میں ۔ تم پر لازم ہے کہ ان کی جائز ضروریات کو پورا کرو ۔ ان کی امداد کرو ، خیرات میں نہیں ، بلکہ ان کا حق سمجھ کر ۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ حق کتنا ہے ؟ 
کہا یہ ایک طے شدہ مقدار ہونی چاہیے ۔ ہم تم سے تمہارا سارا مال نہیں مانگتے البتہ  تمہیں ایک مقررہ مقدار میں ان سائل و محرومین کا حق ان تک پہنچانا ہوگا ۔ فرمایا ۔
الَّذِينَ هُمْ عَلَىٰ صَلَاتِهِمْ دَائِمُونَ (٧٠:٢٣)
جو اپنی نماز پر ہمیشگی قائم رکھنے والے ہیں، (ترجمہ:طاہر القادری)
وَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُومٌ (٧٠:٢٤)
اور وہ (ایثار کیش) لوگ جن کے اَموال میں حصہ مقرر ہے، (ترجمہ:طاہر القادری)
لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ (٧٠:٢٥)
مانگنے والے اور نہ مانگنے والے محتاج کا، (ترجمہ:طاہر القادری)
اس حوالے سے بھی مفہوم کی آڑ میں ان آیات مبارکہ کا من مانا ترجمہ کر کے ، آیات ربی کو ان کے سیاق و سباق سے علیحدہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے  ۔ کبھی  "انفاق "کے نام پر لوگوں سے ان کی ساری زندگی کی محنت کی کمائی ہتھیانے کی بات کی جاتی ہے ۔ تو کبھی زکوٰۃ کے نام پر ۔ کہ جناب آپ اپنی ضرورت سے زیادہ کچھ بھی اپنے پاس نہیں رکھ سکتے ۔ اپنی ضرورت سے زائد جو کچھ بھی آپ کے پاس ہے ریاست بزور طاقت سب آپ سے حاصل کرنے کا اختیار رکھتی ہے ۔ سب کا سب ان سائل و محروم کا حق ہے ۔ آپ اس حق کی ادائیگی کے پابند ہیں۔ آیات بالا میں واضح الفاظ میں اللہ کریم نے فرما دیا کہ سائل و محروم کا یہ حق       لا محدود نہیں ہے ۔ نہ ہی اس کی مقدار کے حوالے سے کوئی قدغن ہے ۔ آیت مبارکہ میں اس حق کو "حَقٌّ مَّعْلُومٌ "کہا گیا ہے عربی زبان میں اس لفظ  " معلوم "کا  مادہ " علم ہے ۔ جس کے معنی کسی شئے کو کماحقہ جاننا ، پہچاننا ، حقیقت کا ادراک ہونا ، محکم طور پر جان لینا ہے  (تاج ، محیط ، راغب )
آئیے تصریف آیات کی رو سے اس لفظ " معلوم " کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
فَجُمِعَ السَّحَرَةُ لِمِيقَاتِ يَوْمٍ مَّعْلُومٍ(٢٦:٣٨)
پس سارے جادوگر مقررہ دن کے معینہ وقت پر جمع کر لئے گئے، (ترجمہ:طاہر القادری)
قَالَ هَٰذِهِ نَاقَةٌ لَّهَا شِرْبٌ وَلَكُمْ شِرْبُ يَوْمٍ مَّعْلُومٍ(٢٦:١٥٥)
(صالح علیہ السلام نے) فرمایا: (وہ نشانی) یہ اونٹنی ہے پانی کا ایک وقت اس کے لئے (مقرر) ہے اور ایک مقررہ دن تمہارے پانی کی باری ہے، (ترجمہ:طاہر القادری)
وَإِن مِّن شَيْءٍ إِلَّا عِندَنَا خَزَائِنُهُ وَمَا نُنَزِّلُهُ إِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُومٍ (١٥:٢١)
اور (کائنات) کی کوئی بھی چیز ایسی نہیں ہے مگر یہ کہ ہمارے پاس اس کے خزانے ہیں اور ہم اسے صرف معیّن مقدارکے مطابق ہی اتارتے رہتے ہیں،(ترجمہ:طاہر القادری)
آیات بالا ، اس لفظ  " معلوم "کا درست مفہوم متعین کر رہی ہیں ۔ چنانچہ آیت مبارکہ سورہ  المارج میں " حق معلوم "کا معنی ایک متعین اور مقرر  حق ہے ۔ یہ کوئی لا محدود حق نہیں ہے۔
 جیسا کہ قرآن کریم پر تدبر و تفکر کرنے والے احباب جانتے ہیں کہ اللہ کریم نے دین اوراس کے حوالے سے جو احکامات دیئے ، ان میں سے کچھ کی جزیات اس نے خود ہی طے کر دیں ہیں ۔ لیکن زیادہ تر احکامات کے حوالے سے مومنین کو باہمی مشاورت سے ان کی جزیات طے کرنے کا حکم دیا ۔
یہ ضروری امر تھا ۔ اگر اللہ کریم تمام امور کے حوالے سے ان کی جزیات خود ہی طے فرما دیتے ، تو یہ قرآن ایک عالمگیر راہنمائی کہلا ہی نہیں سکتا تھا ۔ قرآن کریم اللہ رب العزت کی آخری کتا ب ہے ۔ اس کتاب نے قیامت تک کے تمام انسانوں کو راستہ دکھانا ہے ۔ ہر خطہ زمین کا اپنا ایک مزاج ہوتا ہے ۔ وہاں کے لوگوں کی اپنی ایک معاشرت ہوتی ہے ۔ ہر وقت کے اپنے کچھ تقاضے ہوتے ہیں ۔ چنانچہ یہ ہی بہترین لائحہ عمل تھا کہ اصول عطا فرما دیئے جائیں ، اور ان پر عمل درآمد کے طریقے اور انکی جزیات مومنین اپنے اپنے علاقوں اور اپنے اپنے وقت کے تقاضوں کے مطابق باہمی مشاورت سے خود ہی طے کریں ۔ چنانچہ اصول کے طور پر یہ حکم دے دیا گیا  کہ صاحب حیثیت مومنین کے مال میں ان سائل و محرومین کا ایک متعین حق ہے ۔ جو انہیں ادا کرنا ہوگا ۔
اب یہ سوال کہ کس حیثیت کے حامل لوگ ، صاحب حیثیت کہلائیں گے ، اور ان کے مال میں سائل و محروم کا کتنا حق ہونا چاہیے ، اس بات کا فیصلہ مومنین باہمی مشاورت  سے ، اپنے مقامی حالات و ضروریات ، کے مطابق خود طے کریں گے ۔اگر کسی خطہ زمین کے مومنین زیادہ خوشحال ہوں ، وہاں پر سائل و محرومین کے تعداد کم ہوگی ، تو اس خطہ زمین کے مومنین باہمی مشاورت سے اس ضرورت کے مطابق زکوٰۃ کا نصاب مقرر کریں گے ۔ اگر کسی دوسرے خطہ میں زیادہ غربت ہوگی ، زیادہ سائل و محرومین ہوں گے ، تو وہاں کے لوگ اپنی ضروریات کے مطابق ، زکوٰۃ کا نصاب مقرر کریں گے ۔
دور نبوی ﷺ میں اس وقت کے تقاضے اور ضروریات کے مطابق اللہ کے نبی ﷺ نے زکوٰۃ کی موجودہ شرح مقرر کی تھی  ۔ آج اگر مومنین کی جماعت کسی خطہ زمین پر تمکن حاصل کر لے گی ، تو وہ اپنی آج کی ضروریات کے مطابق ، باہمی مشاورت سے زکوٰۃ کی موجودہ شرح میں ردوبدل کی مجاز ہوگی ۔
جب مومنین کی کوئی جماعت زمین میں اتنی طاقت حاصل کر لے گی ، کہ وہاں پر اللہ کے قانون بزور تعزیر نافذ کر سکے ، تو دین کے ان بنیادی ارکان  " اقامت  صلوٰۃ ،  ایتائے زکوٰۃ ، امر باالمعروف ، نہی عن المنکر "  پر بزور تعزیر و طاقت عملدرآمد کے لیے  باہمی مشاورت سے قانون سازی کرے گی ۔ اور پھر ان قوانین پر طاقت سے عمل درآمد کروایا جائے گا ۔ 
یہ ہی وجہ تھی کہ نبی اکرم ﷺ کے دنیا سے چلے جانے کے بعد ،جب کچھ قبائل نے زکوٰۃ کی ادائیگی سے انکار کیا ، تو خلیفہ وقت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان قبائل کے خلاف باقائدہ جنگ کی ، اوربزورطاقت ان سے زکوٰۃ  وصول کی ۔
ایک اسلامی معاشرے میں ، دین  کے وہ ارکان اور احکامات ، کہ جو تمکن ارض کی عدم موجودگی میں انفرادی حیثیت میں نافذ العمل تھے ، اب اجتماعی حیثیت میں نافذ العمل ہوں گے ۔ ان قوانین اور ہدایات ربانی کو عملی طور پر نافذ کرنے کے لیے مومنین ان تمام امور میں ، جن کی جزیات اللہ کریم نے خود طے نہیں کر دیں ، باہمی مشاورت سے قانون سازی کریں گے ۔ اور ان پر عملدرآمد کے طریقے وضع کریں گے ۔ امت کی اکثیریت کے طے کئے ہوئے قوانین  اس معاشرے میں تبلیغ  و طاقت دونوں طریقوں سے نافذ کئے جائیں گے ۔
سلامت رہیں


No comments:

Post a Comment