وحی صرف قرآن میں ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔ حصہ دوئم
حصہ دوئم
اپنے موقف کی تائید میں قرآن کریم سے اتنے
واضح اور مفصل دلائل کے بعد ، اس بات کی ضرورت تو باقی نہیں رھتی کہ ھم اس موضوع
پر مزید کوئی بات کریں ۔۔۔ لیکن میں جانتا ھوں کہ میرے احباب کے ذھنوں میں ، مزید
کئ سوالات ھیں ۔۔ چنانچہ کوشش کروں گا کہ ، مزید بات عقل ، شعور اور دلیل و برھان
کی رو سے بھی پیش کر دوں ۔۔۔۔۔
ارشاد باری تعالی ھے ۔۔۔۔۔۔
يَـٰٓأَيُّهَا
ٱلرَّسُولُ
بَلِّغْ مَآ أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ ۖ وَإِن
لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُۥ ۚ وَٱللَّـهُ
يَعْصِمُكَ مِنَ ٱلنَّاسِ ۗ إِنَّ
ٱللَّـهَ
لَا يَهْدِى ٱلْقَوْمَ ٱلْكَـٰفِرِينَ۔۔ ۵/۶۷
اے پیغمبرؐ! جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم
پر نازل کیا گیا ہے وہ لوگوں تک پہنچا دو اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اس کی پیغمبری
کا حق ادا نہ کیا اللہ تم کو لوگوں کے شر سے بچانے والا ہے یقین رکھو کہ وہ کافروں
کو (تمہارے مقابلہ میں) کامیابی کی راہ ہرگز نہ دکھائے گا ۔۔۔ ترجمہ جناب
مودودی صاحب
یعنی حضور ۖ کو واضح طور پر اس بات کا
حکم تھا ، کہ جو کچھ بھی آپ پر نازل ھو رھا ھے ، آپ وہ
سب کا سب امت تک پہنچا دیں۔۔ اور اگر آپ نے ایسا نہیں کیا ، تو
آپ نے رسالت کا حق ادا نہیں کیا ۔۔ اب سوال یہ ھے کہ معاذ اللہ ، کیا حضور ۖ نے اپنے رب کے اتنے
واضح حکم کی خلاف ورزی کی ۔۔ کہ وحی کے ایک حصے کو تو ، ھر صحابی محترم کو
یاد کروایا ، اسے کتابی شکل دی ، اسے محفوظ فرمایا ۔۔ یعنی قرآن کریم
۔۔ لیکن وحی کے اس دوسرے حصے کو ، ویسے ھی چھوڑ دیا ، کہ جس
کے لیے ھمارے آئمہ کرام جناب امام بخاری علیہ رحمہ ، اور دیگر کو دو ڈھائی
سو سالوں کے بعد ، اتنی کڑی محنت کرنی پڑی، اتنا سفر کرنا پڑا ، کیا آیت
مذکورہ کا حکم ، حضور ۖ نے اس طرح پورا کیا ۔۔
قرآن کریم کی حفاظت کی ذمہ داری بھی خود اللہ
کریم نے اپنے ذمہ لی ھوئی ھے ، تو کیا وحی کے اس حصے کی ذمہ داری اللہ کریم کے ذمہ
نہیں بنتی ۔۔ اگر یہ روایات بھی وحی ھیں ، اور ان آئمہ روایات کی کوششوں سے جمع کی
گئیں ، تو اس کا نتیجہ یہ ھے کہ ، نصف وحی تو اللہ نے محفوظ رکھی ،
اور باقی نصف ان حضرات کرام کی وجہ سے محفوظ ھو سکی ، تو اس طرح تو یہ حضرات گرامی
بھی شریک کار رسالت قرار پاتے ھیں۔۔ یہ کس طرح مانا جا سکتا ھے کہ وحی جیسی
اھم چیز کو حضور ۖ
دوسرے انسانوں کی کوششوں پر چھوڑ جاتے ۔۔ پھر کتب روایات میں ، روایات جمع کرنے کے
جو کوائف مذکور ھیں ، اس کے مطابق ، ان چھ محترم بزرگان جنھیں ھم صحاح ستہ میں شمار
کرتے ھیں ، کی کتب میں موجود روایات کی پوزیشن کچھ اس طرح ھے ۔۔۔۔۔۔
۱۔۔۔
امام بخاری علیہ رحمہ نے چھ لاکھ روایات میں
سے مکررات کو نکال کر صرف 2762 کو اپنی کتاب میں
حدیث مانا
۲۔۔۔
امام مسلم علیہ رحمہ نے تین لاکھ روایات میں
سے مکررات کو نکال کر صرف 4348 کو اپنی کتاب میں حدیث
مانا
۳۔۔۔
امام ترمذی علیہ رحمہ نے تین لاکھ روایات میں
سے مکررات کو نکال کر صرف 3115 کو اپنی کتاب میں حدیث
مانا
۴۔۔۔
امام ابوداود علیہ رحمہ نے پانچ لاکھ روایات
میں سے مکررات کو نکال کر صرف 4800 کو اپنی کتاب میں حدیث
مانا
۵۔۔۔
امام ابن ماجہ علیہ رحمہ نے چار لاکھ روایات
میں سے مکررات کو نکال کر صرف 4000 کو اپنی کتاب میں حدیث مانا
۶۔۔۔
امام نسائی علیہ رحمہ نے دو
لاکھ روایات میں سے مکررات کو نکال کر صرف 4321 کو اپنی کتاب
میں حدیث مانا
اب وہ نازک سوال پیدا ھوتا ھے کہ اگر
یہ روایات بھی وحی ھیں ۔ " ما انزل اللہ "ھیں ، تو پھر
امام ابو داود علیہ رحمہ کی کتاب میں سب سے زیادہ یعنی 4800 اور
امام بخاری علیہ رحمہ کی کتاب میں سب سے کم 2762 ، " ما
انزل اللہ "ھیں ۔۔ تو امام بخاری علیہ رحمہ نے 2000 سے زائد
" ما انزل اللہ "کہاں ضائع کر دیں ، اور اگر امام بخاری
علیہ رحمہ نے درست انتخاب کیا ھے ، تو پھر امام ابو داود علیہ رحمہ نے یہ
2000 سے زائد کس شئے کو " ما انزل اللہ "بنا کر پیش کر دیا ھے ۔۔ کیا
وحی کا یہ ھی معیار ھوتا ھے کہ ایک کے نزدیک 4800 وحی خداوندی ھیں ، اور دوسرے کے
نزدیک 2762۔۔ اور دونوں ھی سچے ھیں ۔۔ کیا اس ھی کو محفوظ
کہا جاسکتا ھے ۔ اور کیا اس طرح کی شئے کی بنیاد پر کسی انسان کے کفر اور اسلام کا
فیصلہ کیا جاسکتا ھے۔
§
وحی خارج از قرآن کا اقرار
بھی اور انکار بھی ۔۔
یہ عجیب بات ھے کہ جملہ اھل اسلام کے
مختلف فرقے ، سب کے سب موجودہ ذخیرہ روایات کا اقرار بھی کرتے ھیں اور
انکار بھی ۔ یہ اس لیے کہ مسلمانوں میں جتنے بھی فرقے ھیں ، ان میں اھل
تشیع اور اھل سنت کی روایات کی کتب ھی مختلف ھیں ۔ شیعہ حضرات کی
کتب اربعہ ھیں ، اور اھل سنت کی صحاح ستہ ۔ اس طرح سے ایک فرقے کے لیے چار
کتبروایات درست ھیں اور چھ غلط ۔۔ اور دوسری طرف دوسرے فرقے
کے نزدیک چھ درست ھیں اور چار غلط ۔۔۔ اس طرح سے اھل تشیع ، اھل
سنت کی حدیثوں سے انکار کرتے ھیں اور اپنی حدیثوں کا
اقرار ، اس ھی طرح اھل سنت ، اھل تشیع کی حدیثوں سے انکار کرتے
ھیں ، اور اپنی حدیثوں کا اقرار ۔۔ اس لحاظ سے دونوں طرف
سے انکار بھی ھے اور اقرار بھی۔۔۔ اس ھی طرح اھل حدیث حضرات فاتحہ
خلف الامام ، رفع یدین ، رفع سبابہ آمین بالجہر ، کی احادیث کو درست قرار
دیتے ھیں ۔ مگر اھل تقلید حضرات ان احادیث سے انکار کرتے ھیں ۔
اس ھی طرح حنفی فرقہ کے
پیروکاروں میں بھی ، بریلوی حضرات ایصال ثواب ، سماع
موتی ، استمداد غیر اللہ ، کو سپورٹ کرنے والی احادیث کو درست خیال کرتے
ھیں ، لیکن دیوبندی حضرات ، ان کو غلط شمار کرتے ھیں ۔۔
غرض یہ کہ تمام مسلمانوں میں یہ ھی کیفیت ھے کہ اقرار بھی ھے اور انکار بھی
۔۔ کیا وحی کی یہ ھی حیثیت ھوتی ھے کہ کچھ کو مان لیا جائے اور
کچھ کو نہ مانا جائے ۔۔ وحی الہی اس سطح سے بہت بلند ھوتی ھے ، اس
پر ایمان لانا ھوتا ھے ، وحی پر ایمان نہ لانے والا ، مسلمان ھی نہیں ھو
سکتا ۔۔ اس میں ظن و شک کا شائبہ ھی نہیں ھوتا ۔۔ اور یہ ھی وجہ ھے کہ ایمان کے جو پانچ
اجزاء قرآن کریم بیان کرتا ھے ، کہ ایمان لاو اللہ پر ، اس کے ملائکہ پر ، اس کے
رسولوں پر ، روز آخرت پراور اس کی نازل کردہ کتابوں پر ۔۔۔۔ اب ظاھر ھے
کہ کتاب تو قرآن ھی ھے ، تو ایمان لانے کا حکم تو قرآن کے لیے ھی
ھے ، اب اگر آپ کسی ایسی شئے کے قائل ھیں ، جو قرآن کریم کے علاوہ بھی ھے تو ،
جناب ھمیں تو اس پر ایمان لانے کا کہا ھی نہیں جا رھا ۔ اور جس شئے پر
ایمان لانے کا تقاضہ ھی نہ ھو ،وہ تاریخ تو ھو سکتی ھے ، وہ تحقیق تو ھو
سکتی ھے ، "انزل من اللہ " ھرگز نہیں ھو سکتی۔۔
اب میں اپنے ایک محترم دوست کے لکھے ھوئے اس
نوٹ کا جواب دینا چاھوں گا ، جس میں انھوں نے سورہ نجم کی آیت کو
بنیاد بنا کر ، اس عقیدے کو ثابت کرنے کی کوشش کی ۔۔ بد قسمتی یہ ھے کہ ، ھمارے یہ
محترم دوست ، اور صرف یہ ھی نہیں ، امت کے اکثر دوستوں کی یہ ھی کیفیت ھے کہ
، کسی سابقہ محترم بزرگ کی کسی کاوش کو بنیاد بنا کر اسے دوھرائے چلے جاتے
ھیں ۔۔ مکھی پر مکھی بٹھائے چلے جاتے ھیں ۔ خود سے کبھی بھی تفکر اور
تدبر ھی نہیں کرتے ۔۔ اگر میرے وہ محترم دوست ، نطق کے حوالے سے
اپنی معروضات پیش کرنے سے پہلے ، اسے عربی گرامر ھی کے معیار پر
پرکھ لیتے یا پھر عقلی تدبر کر لیتے تو ممکن ھے کہ ان کے خیالات کچھ اور
ھوتے ۔۔ بہر حال ، ھمارے ان محترم دوست اور اس عقیدہ کے دیگر علماء کے
مطابق ، نطق رسول وحی ھے ، چنانچہ حضور ۖ
کا ھر قول وحی ھے ۔۔ اس ھی بناء پر یہ روایات بھی وحی
ھیں۔۔ عموماً ھمارے یہ روایت پسند دوست یہ ھی آیت مبارکہ ، اپنے اس عقیدے کے
حوالے سے پیش کرتے ھیں ۔۔ بد قسمتی سے یا دانستہ یا غیر دانستہ طور پر یہ اعتراض ،
اس آیت مبارکہ کا صحیح مفہوم سامنے نہ ھونے کی وجہ سے ھے
۔۔ حضور ۖ کے ھر نطق کے وحی ھونے کے خلاف ، خود قرآن
اور روایت میں دلائل موجود ھیں ۔۔ سب سے پہلے قرآن کی طرف آتے ھیں۔
۱۔۔۔
عَفَا ٱللَّـهُ
عَنكَ لِمَ أَذِنتَ لَهُمْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكَ ٱلَّذِينَ
صَدَقُوا۟ وَتَعْلَمَ
ٱلْكَـٰذِبِينَ۔۔ ۹/۴۳
اللہ تجھے معاف فرما دے، تو نے انہیں کیوں
اجازت دے دی؟ بغیر اس کے کہ تیرے سامنے سچے لوگ کھل جائیں اور تو جھوٹے لوگوں کو
بھی جان لے۔۔۔۔ ترجمہ جناب محمد جونا گڑھی صاحب
اس آیت مبارکہ کی تفسیر ، شان نزول ،
وغیرہ کا مطالعہ تو دوستوں کو ان کی کتب تفاسیر اور کتب روایات میں مل سکتا ھے
جہاں وہ جان سکیں گے کہ کیا ھوا ۔۔ ھمیں اس آیت مبارکہ کہ مضمون سے
یہ سمجھ آتی ھے کہ حضور اکرم ۖ نے کچھ لوگوں کو کسی سلسلے میں کوئی اجازت
عطا فرمائی ۔۔ لیکن حضور ۖ کا یہ عمل ، منشاء خداوندی کے
خلاف تھا ، چنانچہ نہ صرف یہ کہ حضور ۖ کو اس بات پر متوجہ کیا گیا
بلکہ" اللہ تمھیں معاف فرمائے "کہ الفاظ اس عمل کی سنگینی کا پتہ بھی
دیتے ھیں۔۔۔ سوال یہ ھے کہ اگر حضور ۖ
کا ھر قول اور فعل وحی خداوندی ھے تو پھر اس باز پرس کا کیا جواز ھے اگر رسول ۖ
نے حکم خداوندی کے مطابق ان لوگوں کو اجازت دی تھی تو پھر معافی کا کیا سوال ھے ۔۔
صاف نظر آ رھا ھے کہ حضور ۖ نے اپنے انسانی شعور اور
رحجان کے مطابق ، ان لوگوں کو اجازت دے دی ۔۔ جو بارگاہ ایزدی میں قابل
قبول نہ تھی ۔۔ چنانچہ اس پر متنبہ فرمایا گیا ۔۔ کہ آپ ۖ کو ایسا نہیں کرنا چاھیے تھا۔۔۔
۲۔۔
قَدْ سَمِعَ ٱللَّـهُ
قَوْلَ ٱلَّتِى
تُجَـٰدِلُكَ
فِى زَوْجِهَا وَتَشْتَكِىٓ إِلَى ٱللَّـهِ
وَٱللَّـهُ
يَسْمَعُ تَحَاوُرَكُمَآ ۚ إِنَّ ٱللَّـهَ
سَمِيعٌۢ بَصِيرٌ ﴿١﴾ ٱلَّذِينَ
يُظَـٰهِرُونَ
مِنكُم مِّن نِّسَآئِهِم مَّا هُنَّ أُمَّهَـٰتِهِمْ ۖ إِنْ
أُمَّهَـٰتُهُمْ
إِلَّا ٱلَّـٰٓـِٔى
وَلَدْنَهُمْ ۚ وَإِنَّهُمْ لَيَقُولُونَ
مُنكَرًا مِّنَ ٱلْقَوْلِ وَزُورًا ۚ وَإِنَّ
ٱللَّـهَ
لَعَفُوٌّ غَفُورٌ ۵۸/۲
(اے پیغمبر) جو عورت تم سے اپنے شوہر کے بارے
میں بحث جدال کرتی اور خدا سے شکایت (رنج وملال) کرتی تھی۔ خدا نے اس کی التجا سن
لی اور خدا تم دونوں کی گفتگو سن رہا تھا۔ کچھ شک نہیں کہ خدا سنتا دیکھتا
ہے (1) جو لوگ تم میں سے اپنی عورتوں کو ماں کہہ دیتے ہیں وہ ان
کی مائیں نہیں (ہوجاتیں) ۔ ان کی مائیں تو وہی ہیں جن کے بطن سے وہ پیدا ہوئے۔
بےشک وہ نامعقول اور جھوٹی بات کہتے ہیں اور خدا بڑا معاف کرنے والا (اور) بخشنے
والا ہے ۔۔ ترجمہ جناب فتح محمد جالندھری صاحب
اس آیت مذکورہ کے حوالے سے بھی کتب تفاسیر
اور کتب روایات میں اس کے شان نزول وغیرہ پر کثرت سے لکھا گیا ھے۔۔
آیت مبارکہ کو پڑھنے سے یہ بات سمجھ میں آتی
ھے کہ کوئی عورت اپنے شوھر کے حوالے سے حضور ۖ اکرم سے باقائدہ بحث
و تکرار کر رھی تھی ۔۔ اور اس کے فوراً بعد" ظہار "کے
حوالے سے اللہ کریم اپنا فیصلہ دے رھے ھیں ۔۔ جس سے ظاھر ھوتا ھے کہ اس عورت کے
شوھر نے اپنی بیوی کو ماں کہہ دیا تھا ، روایت عرب کے مطابق اس عمل کو طلاق سمجھا
جاتا تھا ۔۔ یہ عورت اس معاملے میں حضور ۖ سے الجھ رھی تھی
۔۔ ظاھر ھے کہ حضور ۖ نے جو رائے دی ھوگی
وہ اس عورت کو قبول نہ تھی ۔۔ وہ اس پر بحث کر رھی تھی ۔۔
اگر حضور ۖ
کی رائے اس عورت کو قبول ھوتی تو کسی مباحثے کی ضرورت ھی نہیں رھتی ۔۔ اور
حضور ۖ
کی رائے یقیناً اس آیت ربی کے مطابق بھی نہ تھی ۔۔ ورنہ خدا کو مداخلت کرنے کی بھی
ضرورت نہ تھی ۔۔ یہاں بھی یہ ھی سوال پیدا ھوتا ھے کہ اگر حضور ۖ
کا ھر قول وحی ھوتا ھے تو پھر یہ کیسے ممکن ھے کہ حضور ۖ کو
پہلے کچھ اور کرنے کو کہا جائے اور پھر دوسری وحی کے ذریعے اس کے خلاف دوسری بات کر
دی جائے کیا معاذ اللہ یہ حرکت خدا کو زیب دیتی ھے۔۔
۳۔۔۔
يَـٰٓأَيُّهَا
ٱلنَّبِىُّ
لِمَ تُحَرِّمُ مَآ أَحَلَّ ٱللَّـهُ
لَكَ ۖ تَبْتَغِى
مَرْضَاتَ أَزْوَٰجِكَ ۚ وَٱللَّـهُ
غَفُورٌ رَّحِيمٌ۔۔۔ ۶۶/۱
اے نبی! جس چیز کو اللہ نے آپ کے لیے حلال کر
دیا ہے اسے آپ کیوں حرام کرتے ہیں؟ (کیا) آپ اپنی بیویوں کی رضامندی حاصل کرنا
چاہتے ہیں اور اللہ بخشنے واﻻ رحم کرنے واﻻ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ترجمہ جناب
محمد جونا گڑھی
آیت مذکورہ کا شان نزول ، تفاسیر اور روایات
کی کتابوں میں بہت وضاحت کے ساتھ بیان ھوا ھے ۔۔ ھمیں اس قرآنی آیت سے یہ سمجھ آتی
ھے کہ حضور ۖ
نے اپنی بیویوں کی خوشنودی کے لیے کسی ایسی شئے کو اپنے لیے حرام قرار دے دیا جسے
اللہ نے حلال کیا ھے ۔۔ چنانچہ اس آیت مبارکہ میں اس بات پر سوال کیا گیا ھے کہ آپ
کس طرح اپنی عورتوں کی خوشنودی کی خاطر ، حکم خداوندی کے خلاف کر سکتے
ھیں۔۔۔ اب اگر حضور ۖ کا ھر عمل یا قول ،
وحی تھا ، تو پھر یہ کسیے ممکن ھے کہ ایک وحی کسے شئے کو حلال قرار دے رھی ھو ۔۔۔
اور دوسری وحی کے اتباع میں آپ ۖ نے اسے اپنے لیے حرام
کر دیا ۔۔ اور پھر خدا اس کی باز پرس بھی کر رھا ھو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صاف نظر آ رھا ھے کہ
حضور ۖ
نے بحیثیت بشر کسی ایسی شئے کو اپنے لیے حرام قرار دے دیا جسے اللہ نے حلال کیا ھے
۔۔ لیکن جب وحی خداوندی کے مطابق اس کی سرزش ھوئی تو حضور ۖ
نے اپنے اصلاح کر لی ۔۔۔
۴۔۔۔۔
سَيَقُولُونَ ثَلَـٰثَةٌ
رَّابِعُهُمْ كَلْبُهُمْ وَيَقُولُونَ خَمْسَةٌ سَادِسُهُمْ كَلْبُهُمْ رَجْمًۢا
بِٱلْغَيْبِ ۖ وَيَقُولُونَ
سَبْعَةٌ وَثَامِنُهُمْ كَلْبُهُمْ ۚ قُل
رَّبِّىٓ أَعْلَمُ بِعِدَّتِهِم مَّا يَعْلَمُهُمْ إِلَّا قَلِيلٌ ۗ فَلَا
تُمَارِ فِيهِمْ إِلَّا مِرَآءً ظَـٰهِرًا وَلَا تَسْتَفْتِ فِيهِم
مِّنْهُمْ أَحَدًا ﴿٢٢﴾ وَلَا تَقُولَنَّ لِشَا۟ىْءٍ
إِنِّى فَاعِلٌ ذَٰلِكَ غَدًا ۔۔ ۱۸/۲۳
کچھ لوگ کہیں گے کہ وہ تین تھے اور
چوتھا ان کا کتا تھا اور کچھ دوسرے کہہ دیں گے کہ پانچ تھے اور چھٹا اُن کا کتا
تھا یہ سب بے تکی ہانکتے ہیں کچھ اور لوگ کہتے ہیں کہ سات تھے اور آٹھواں اُن کا
کتا تھا کہو، میرا رب ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ کتنے تھے کم ہی لوگ ان کی صحیح تعداد
جانتے ہیں پس تم سرسری بات سے بڑھ کر ان کی تعداد کے معاملے میں لوگوں سے بحث نہ
کرو، اور نہ ان کے متعلق کسی سے کچھ پوچھو (22) اور دیکھو، کسی
چیز کے بارے میں کبھی یہ نہ کہا کرو کہ میں کل یہ کام کر دوں گا ۔۔۔۔ ترجمہ
جناب مودودی صاحب
ٹھنڈے دل سے غور کریں اس آیت مبارکہ پر
۔۔۔۔۔۔۔ آیت مبارکہ کا متن صاف صاف بتا رھا ھے کہ حضور ۖ کسی سے ان اصحاب کہف
کے حوالہ سے ، بحث و مباحثہ فرما رھے تھے ، ان کی تعداد کے حوالے
سے ۔۔۔ چنانچہ واضح الفاظ میں ھدایت دی جا رھی ھے کہ آپ سرسری بات سے زیادہ بحث
نہ کیا کرو ۔۔ اور نہ ھی کسی سے کچھ معلوم کرو ۔۔۔ نیز یہ کہ یہ بھی نہ کہا کرو کہ
میں کل یہ کام کر دوں گا ۔۔۔ اب سوال یہ ھی ھے کہ اگر حضور ۖ
کا ھر قول اور فعل وحی خداوندی ھے ، تو پھر اس مباحثے سے کیوں روکا جارھا ھے ۔۔۔ اور
جب حضور ۖ
نے کسی سے یہ کہہ دیا کہ میں یہ کام کل کر لوں گا ، تو ایسا کرنے سے کیوں روکا جا
رھا ھے ۔۔۔ ظاھر ھے کہ حضور ۖ کے یہ عمل بحیثیت ایک
بشر ھی کے تھے ۔۔ اگر یہ وحی ھوتے تو اس میں کسی غلطی کا تو سوال ھی پیدا نہیں ھوتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور نہ ھی اس سے منع فرمایا جاتا۔۔۔۔۔۔۔
۵۔۔۔
مَا كَانَ لِنَبِىٍّ أَن يَكُونَ لَهُۥٓ
أَسْرَىٰ حَتَّىٰ يُثْخِنَ فِى ٱلْأَرْضِ ۚتُرِيدُونَ
عَرَضَ ٱلدُّنْيَا
وَٱللَّـهُ
يُرِيدُ ٱلْـَٔاخِرَةَ ۗ وَٱللَّـهُ
عَزِيزٌ حَكِيمٌ ﴿٦٧﴾ لَّوْلَا كِتَـٰبٌ
مِّنَ ٱللَّـهِ
سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِيمَآ أَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ ۔۔۔ ۸/۶۷
کسی نبی کو یہ سزاوار نہیں کہ اس کے لئے
(کافر) قیدی ہوں جب تک کہ وہ زمین میں ان (حربی کافروں) کا اچھی طرح خون نہ بہا
لے۔ تم لوگ دنیا کا مال و اسباب چاہتے ہو، اور اللہ آخرت کی (بھلائی) چاہتا ہے،
اور اللہ خوب غالب حکمت والا ہے، (67) اگر اللہ کی طرف سے پہلے
ہی (معافی کا حکم) لکھا ہوا نہ ہوتا تو یقیناً تم کو اس (مال فدیہ کے بارے) میں جو
تم نے (بدر کے قیدیوں سے) حاصل کیا تھا بڑا عذاب پہنچتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ جناب طاھر القادری صاحب
جو کچھ نبی نے کیا ، اگر وہ وحی خداوندی تھا
، تو پھر یہ کس بڑے عذاب کا ڈروا دیا جا رھا ھے ۔۔۔ کیا وحی خداوندی پر عمل کا
نتیجہ بھی عذاب عظیم ھو سکتا ھے ۔۔
۶۔۔۔
وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِىٓ أَنْعَمَ ٱللَّـهُ
عَلَيْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَٱتَّقِ
ٱللَّـهَ
وَتُخْفِى فِى نَفْسِكَ مَا ٱللَّـهُ
مُبْدِيهِ وَتَخْشَى ٱلنَّاسَ وَٱللَّـهُ
أَحَقُّ أَن تَخْشَىٰهُ ۖ فَلَمَّا قَضَىٰ زَيْدٌ
مِّنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَـٰكَهَا لِكَىْ لَا يَكُونَ
عَلَى ٱلْمُؤْمِنِينَ
حَرَجٌ فِىٓ أَزْوَٰجِ أَدْعِيَآئِهِمْ إِذَا قَضَوْا۟ مِنْهُنَّ
وَطَرًا ۚ وَكَانَ أَمْرُ ٱللَّـهِ
مَفْعُولًا۔۔۔۔۔۔۔ ۳۳/۳۷
اے نبیؐ، یاد کرو وہ موقع جب تم اس شخص سے
کہہ رہے تھے جس پر اللہ نے اور تم نے احسان کیا تھا کہ "اپنی بیوی کو نہ چھوڑ
اور اللہ سے ڈر" اُس وقت تم اپنے دل میں وہ بات چھپائے ہوئے تھے جسے اللہ
کھولنا چاہتا تھا، تم لوگوں سے ڈر رہے تھے، حالانکہ اللہ اس کا زیادہ حقدار ہے کہ
تم اس سے ڈرو پھر جب زیدؓ اس سے اپنی حاجت پوری کر چکا تو ہم نے اس (مطلقہ خاتون)
کا تم سے نکاح کر دیا تاکہ مومنوں پر اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے معاملہ میں
کوئی تنگی نہ رہے جبکہ وہ ان سے اپنی حاجت پوری کر چکے ہوں اور اللہ کا حکم تو عمل
میں آنا ہی چاہیے تھا ۔۔۔ ترجمہ جناب مودودی صاحب
اگر حضور ۖ
کا ھر عمل یا قول وحی ھوتا ھے تو کیا ھم معاذ اللہ ثم معاذ اللہ حضرت زید رضی اللہ
تعالٰی عنہ کو وحی خداوندی کا نا فرمان کہیں ۔۔ ظاھر ھے کہ حضور ۖ
نے حضرت زید کو بحیثیت نبی کے نہیں بلکہ اپنی بشری حیثیت میں ایک مشورہ دیا ۔۔ جو انھوں
نے بوجوہ قبول نہ کیا ۔۔ اگر حضرت زید رضی اللہ تعالٰی عنہ نے وحی خداوندی کو ماننے
سے انکار کر دیا تو پھر وہ مومن ھی کیسے رھے ۔۔۔ معاذ اللہ
۷۔۔۔
وَقُل رَّبِّ أَعُوذُ بِكَ مِنْ هَمَزَٰتِ ٱلشَّيَـٰطِينِ
۔۔۔۔ ۲۳/۹۷
۸۔۔
وَإِمَّا يَنزَغَنَّكَ مِنَ ٱلشَّيْطَـٰنِ
نَزْغٌ فَٱسْتَعِذْ
بِٱللَّـهِ ۚ إِنَّهُۥ سَمِيعٌ
عَلِيمٌ۔۔۷/۲۰۰
جب حضور ۖ کا ھر عمل یا قول وحی تھا
۔ تو پھر شیطان کے غلبے کا کیاسوال ھے جس سے پناہ مانگنے کو کہا جا رھا ھے ۔۔
۹۔۔
فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ ٱللَّـهِ
لِنتَ لَهُمْ ۖ وَلَوْ كُنتَ فَظًّا
غَلِيظَ ٱلْقَلْبِ
لَٱنفَضُّوا۟ مِنْ
حَوْلِكَ ۖ فَٱعْفُ
عَنْهُمْ وَٱسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِى ٱلْأَمْرِ ۖ فَإِذَا
عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى ٱللَّـهِ ۚ إِنَّ
ٱللَّـهَ
يُحِبُّ ٱلْمُتَوَكِّلِينَ۔۔ ۳/۱۵۹
(اے پیغمبرؐ) یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم
اِن لوگوں کے لیے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو ورنہ اگر کہیں تم تند خو اور سنگ دل
ہوتے تو یہ سب تمہارے گردو پیش سے چھٹ جاتے اِن کے قصور معاف کر دو، اِن کے حق میں
دعا ئے مغفرت کرو، اور دین کے کام میں ان کو بھی شریک مشورہ رکھو، پھر جب تمہارا
عزم کسی رائے پر مستحکم ہو جائے تو اللہ پر بھروسہ کرو، اللہ کو وہ لوگ پسند ہیں
جو اُسی کے بھروسے پر کام کرتے ہیں ۔۔ ترجمہ جناب مودودی صاحب
سوال یہ ھے کہ کیا وحی خداوندی میں بھی مشورہ کی
گنجائش ھوتی ھے ۔۔ حضور ۖ کو اپنے صحابہ کرام سے مشورہ کا حکم دیاگیا ھے ۔۔ تو
ظاھر ھے کہ یہ مشورہ حضور ۖ کے ذاتی یا گھریلو معاملات میں تو ھو نہیں سکتا۔۔
یقیناً یہ مشورہ دین اور اسلامی مملکت کے حوالے سے ھی ھو سکتا ھے ۔۔ تو
پھر وحی خواہ وہ قرآن میں ھو یا خارج از قرآن ، اس میں مشورہ کی کیا توجیح ھو سکتی
ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اختصار کے پیش نظر ، ان آیات پر ھی اکتفا
کرتے ھیں ۔۔ ان آیات مبارکہ سے یہ ثابت ھوتا ھے کہ حضور اکرم ۖ کا ھر قول
وحی نہیں ھوتا تھا ۔۔ اگر حضور ۖ کا ھر قول وحی تھا ،
تو حضور ۖ
کے ان اقوال میں تخالف و تضاد ھر گز نہ ھوتا ۔ صحیح صورتحال یہ ھی ھے کہ یہ حضور ۖ
کے بشری اقوال ھوتے ھیں ۔۔ آپ ۖ بشر صاحب وحی ھیں ۔۔۔۔ آپ
ۖ
بشر بھی تھے اور رسول بھی ۔۔ چنانچہ آپ کے بشری اقوال وحی نہیں تھے ۔۔
مثلاٌ اگر آپ ۖ
یہ فرمائیں کہ آج مجھے بھوک نہیں ھے ۔۔ یا کل میں فلاں دوست کے پاس جاوں گا ۔۔ یا
فلاں دن میں فلاں جگہ کا سفر کرنے کا ارادہ ھے۔۔ وغیرہ ۔۔ تو یہ اقوال وحی
نہیں تھے ۔۔ اب اگر حضور ۖ کے ھر قول کو وحی مان لیا
جائے تو ، یہ وحی کی حقیقی حیثیت ، عظمت ، اور مقام سے لا علمی کا اظہار ھے ۔۔
اب آئیے سورہ نجم کی ان آیات کی جانب
۔۔۔۔۔۔۔ جنھیں بنیاد بنا کر ، اس فرسودہ اور خلاف قرآن عقیدہ کی سند لی جاتی
ھے ۔۔۔
وَٱلنَّجْمِ
إِذَا هَوَىٰ ﴿١﴾ مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَىٰ ﴿٢﴾ وَمَا
يَنطِقُ عَنِ ٱلْهَوَىٰٓ ﴿٣﴾ إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْىٌ
يُوحَىٰ ۔۔۔ ۵۳/۴
یہ ستارہ گواہ ھے اس بات کا کہ تمھارا رفیق
نہ ھی بھٹکا ھوا ھے اور نہ ھی بہکا ھوا ھے ۔۔ اور یہ اپنی خواھش نفس کے مطابق نہیں
بولتا ۔۔ نہیں ھے یہ کلام یعنی قرآن ، مگر ایک وحی ۔۔ جو نازل کی جا رھی ھے ۔۔۔۔
ترجمہ آسان قرآن
سورہ نجم کی آیت مبارکہ نمبر
4 میں ، لفظ " ھو " کی ضمیر کا مرجع ، محذوف نہیں ھے بلکہ مظہر ھے ۔
" ھو "ضمیر کا مرجع النجم ھے ۔۔ دوستوں کی اکثیریت نے یہاں
لفظ " ھو " کی ضمیر کا درست ادراک نہیں کیا ۔۔ اور ان ھو الا وحی
یوحی ،میں اس لفظ "ھو" کو حضور کی طرف لے کر یہ ترجمہ کردیا کہ
حضور جو کچھ کہتے ھیں وہ وحی ھے ۔۔ حالانکہ اس بات کا اظہار کیا جا رھا ھے کہ
، حضور ۖ
یقیناً بحیثیت رسول کوئی بات اپنی خواھش نفس کے تحت نہیں کرتے ۔۔۔ اور
یہ قرآن اللہ کی طرف سے نازل کردہ وحی
ھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
§
وحی صرف قرآن میں ھونے پر
دوسرا اعتراض ۔۔۔۔۔۔۔
اس ضمن میں ایک اور مضحکہ خیز اعتراض کیا
جاتا ھے ۔۔ کہ قرآن کریم میں " اطیعو اللہ
"اور" اطیعو الرسول " دونوں کا حکم ھے وہ
وحی جو قرآن کریم میں ھے اس کی اطاعت سے" اطیعو اللہ "کے حکم کی
تکمیل ھو جاتی ھے ۔۔ لیکن اگر خارج از قرآن وحی یعنی ان روایات سے
انکار کر دیا جائے تو پھر" اطاعت رسول "کیسے ھوگی ۔۔ یعنی
ان روایات کو ، جنھیں یہ وحی خفی ، وحی غیر متلو وغیرہ کا نام دیتے ھیں ، کا ماننا
،درحقیقت اطاعت رسول ھے ۔۔۔ اب ذرا عقل و شعور کی کسوٹی کے مطابق ، اس
سوچ پر تدبر کریں ۔۔ کہ ان دوستوں کے نزدیک قرآن کریم ، وحی جلی یا وحی
متلو ھے ، اور یہ روایات ، وحی خفی یا وحی غیر متلو ھیں ۔۔ یعنی بہر حال ھیں
تو یہ دونوں ھی وحی ۔۔۔ جو منجانب اللہ ھیں۔۔۔۔۔۔۔ اب یہ بات سمجھ میں نہیں
آتی کہ ایک وحی جو خدا کی طرف سے ھے یعنی قرآن اس پر عمل پذیر ھونے کا مطلب
اطاعت اللہ ھے ، اور اس ھی خدا کی ایک دوسری وحی جسے یہ دوست وحی خفی یا وحی غیر
متلو کہتے ھیں ، پر عمل پذیر ھونے سے اطاعت رسول کیسے ھو گئی ۔۔۔ اگر خارج از قرآن
کوئی وحی مان بھی لی جائے تو بھی وحی ھونے کی جہت سے یہ بھی اطاعت خداوندی ھی ھوگی
نہ کہ اطاعت رسول ۔۔۔۔۔۔ وحی تو نبی کو خارج سے ملتی ھے ، وحی یکسر وہبی ھوتی ھے ،
اس میں رسول کے جذبات کا مطلقاً دخل نہیں ھوتا ۔۔ اگر یہ روایات وحی ھیں تو
ان کی اطاعت حضور ۖ کی اطاعت کیسے ھو جائے
گی۔۔۔ نیز یہ احباب اس بات کا بھی جواب نہیں دے پاتے ، کہ اطاعت اللہ ، اطاعت رسول
کے ساتھ قرآن کریم میں اطاعت اولی الامر کا حکم بھی ھے ۔۔اس پر کیسے عمل درآمد
ھوتا ھے ۔۔
§
جزیات کے تعین کا طریقہ
۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک اور بھونڈا سا اعتراض ، عموماً یہ کیا
جاتا ھے کہ اگر خارج از قرآن اس وحی یعنی روایات کو نہ مانا جائے ، تو بہت سارے
معاملات کی جزیات ، طریقے کس طرح سے طے کیے جائیں گے ۔۔۔۔۔ اور مجھے ان دوستوں کے
اس طرح کے ، معصومانہ اعتراضات پر کبھی ھنسی آتی ھے اور کبھی رونا ۔۔۔۔۔
ایک بار یہ خاکسار ایک بڑی ھی علمی
محفل میں ، بڑے بڑے نام نہاد علماء کرام کے ساتھ محو
گفتگو تھا ۔۔ اور ظاھر ھے کہ وہ علماء کرام تو پھر بادشاہ ھی
ھوتے ھیں ۔۔۔ لمحوں میں اچھے خاصے بندے کو ، کافر ، قادیانی ، مرتد اور
نہ جانے کیا کیا القابات دے کر دفع ھو جانے کا حکم صادر فرما دیتے ھیں ۔۔۔ لیکن
کبھی کبھی لشکر یزید سے کوئی حر بھی نکل آتا ھے ۔۔۔ تو اس محفل میں تان
اس بات پر آ کر ٹوٹی ، کہ اگر ان روایات کو نہ مانا جائے ، تو
بتاو نماز کیسے پڑھو گے ، کتنی پڑھو گے ، کتنی بار پڑھو گے ۔ وغیرہ
وغیرہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر نعرہ تکبیر کے الفاظ ۔۔۔ میں نے نہایت ادب سے ان
عالم دین صاحب سے جان کی امان مانگی ، اور سوال کیا کہ اپنے رب کو حاضر ناظر جان
کر بتاو کہ تم نے پہلی بار نماز کس عمر میں پڑھی انھوں نے
نہایت ھی وجد میں آ کر ، بتایا کہ جناب ھمارا خاندان تو متقین کا خاندان ھے ،
ھمارے یہاں تو بچہ جیسے ھی کچھ سمجھنے کے قابل ھوتا ھے ھم نماز پڑھوانا شروع کر
دیتے ھیں ۔۔ میرے نہایت ھی اصرار پر سرکار نے بتایا کہ عمر عزیز
کے چھٹے سال ، پہلی بار نماز پڑھی ۔۔۔ میں نے جب ان سے یہ سوال
کیا کہ آپ سرکار نے یہ نماز ، امام بخاری علیہ رحمہ کی روایت کے
مطابق پڑھی تھی یا امام مسلم یا کسی اور روایت کے مطابق ۔۔۔ اور رفع یدین کیا
تھا یا نہیں کیا تھا۔۔ بس میرے اس سوال کی دیر تھی ۔۔۔۔۔۔ عالم دین صاحب
کی آنکھوں میں جلال اتر آیا ، ان کے مریدین ، اس خاکسار کی تکہ
بوٹی کرنے کے لیے تیاری کرنے لگے ، لیکن اس مرحلے پر ، اس محفل میں
موجود ایک کرنل صاحب ، نے دو ٹوک انداز میں ، میرے سوال کے جواب کا
اصرار کیا ۔۔ محفل پر سناٹا طاری ھو گیا ۔۔ اور بلآخر ان عالم دین صاحب
نے اس بات کا اقرار کر ھی لیا کہ انھوں نے نماز کسی روایت
یا حدیث کو پڑھ کر نہیں بلکہ اپنے والد محترم کو دیکھ دیکھ کر
پڑھی ۔۔ اور چونکہ ان کے والد اھل حدیث تھے ،
چنانچہ انھوں نے بھی رفع یدین کیا ۔۔ انھوں نے یہ تسلیم کیا کہ اس وقت
انھیں اس بات کا کوئی شعور نہ تھا ، کہ یہ رکوع کیا ھوتا
ھے اور سجدہ کیوں کرتے ھیں ۔۔ وغیرہ وغیرہ
تب اس خاکسار نے ان کی خدمت میں عرض کی ، کہ
سرکار جائیے اور اپنے والد محترم سے بھی یہ ھی سوال کیجے کہ
انھوں نے نماز کیسے پڑھی ، انشاء اللہ ان کا
جواب بھی آپ سے مختلف نہ ھوگا۔۔۔۔۔۔۔ اور آج اس لمحے ، میں ان
تمام دوستوں سے پوچھتا ھوں ، اپنے خدا کو گواہ بنا کر بتائیں کہ انھوں نے جب پہلی
بار نماز پڑھی تو کون سے روایت کو پڑھ کر پڑھی ۔۔ اور پھر میرا چیلنج ھے ان کو کہ
وہ اپنے والد ، دادا ، نانا جو بھی بقید حیات ھوں ان سے بھی معلوم کریں ،
کہ انھوں نے نماز بخاری شریف کو پڑھ کر پڑھی
یا مسلم شریف کو پڑھ کر ؟؟؟ یا اس وقت موجود اپنے بڑوں کو دیکھ دیکھ
کر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
§
حرف آخر ۔۔۔۔۔۔۔۔
نبی زمین پر خدا کا نمائندہ ھوتا ھے ۔۔ جسے
خدا اپنی مشیت کے مطابق چنتا ھے ۔۔ نبی روئے زمین پر موجود انسانوں میں بہترین
انتخاب ھوتا ھے اور کیوں نہ ھو ، کہ چننے والا مالک و آقا ، علیم و خبیر ھے ۔۔ بے
مثل ھے ۔۔ اس کا انتخاب کسی طرح کے نقص کا حامل ھو ، یہ ھو ھی نہیں سکتا ۔۔ نبی کا
فرض منصبی صرف یہ نہیں ھوتا کہ وہ اللہ کا پیغام اس کے بندوں تک پہنچا دے ۔۔ بلکہ
وہ پیغام خداوندی کے تحت ، ایک ایسی ٹیم تیار کرتا ھے ، جو آگے جا کر دین خداوندی
کے عملی نفاذ کو ممکن بناتی ھے ۔ وہ ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کرتا ھے جہاں دین
خداوندی ، اپنی تمام تر خوبیوں کے ساتھ نافذ ھوتا ھے ۔ نبی کا کردار ، اور عمل
اپنے پیروکاروں کے لیے ایک نمونہ ھوتا ھے ۔۔ خدا کی طرف سے اتمام حجت ھوتا ھے ۔۔
ایسا نبی جو انسانی مجبوریوں اور ضرورتوں سے بے نیاز ھو ، ایک مافوق الفطرت ھستی
ھو ، عام انسان کے لیے کس طرح سے نمونہ ھو سکتا ھے ؟
یہ بات نبی کی شان میں کوئی اضافہ نہیں کرتی
کہ ، اسے ایک مشین کے طور پر پیش کیا جائے جو بس ھر لمحہ ملنے والی ھدایت پر عمل
پیرا ھو ، اس کا اپنا کوئی فیصلہ نہ ھو ، کوئی تفکر و تدبر نہ ھو ۔۔ تو پھر
ایسے کسی انسان کی کارکردگی کی ستائش کیسے کی جاسکتی ھے ۔۔ قرآن کریم نے ببانگ دھل
اس بات کا اعلان کیا ھے کہ ھر نبی بشر تھا ، انسان تھا ۔ اور اس جہت سے وہ بھی عام
انسانوں کی طرح معاملات زندگی میں اپنی فہم اور شعور کے مطابق فیصلے کرنے کے لیے
خودمختار تھا ۔۔ اسے بھی دکھ ،سکھ ، انسانی حاجات ، اور ضروریات ، خوشی ، غمی ،
اور درست اور غلط فیصلے کرنے کے عمل سے گزرنا ھوتا تھا۔۔
اس کی زندگی کے وہ فیصلے اور اعمال جو وحی
خداوندی کے اتباع میں ھوتے تھے وہ ھر قسم کی اغلاط اور سہو سے مبرا ھوتے تھے ۔۔
لیکن بشری فیصلوں میں اس سے بھی سہو سرزد ھوتے تھے ۔۔ وہ بھی روز قیامت ، اپنے
اعمال کے لیے اپنے رب کے آگے جواب دہ ھوتا ھے ۔۔
اگر غیر جانبداری سے کتاب اللہ پر تفکر اور
تدبر کیا جائے ، تو ھم اس نتیجے پر پہنچتے ھیں کہ ، اس ذات باری تعالٰی نے ، بہت
کم ایسے معاملات زندگی ھیں ، جن کی جزیات کا تعین بھی خود کیا ھے۔۔ ورنہ اکثر
معاملات میں اس ذات کریمی نے ھمیں وہ اصول اور ضوابط عطا فرمائے ھیں ، جن کے تحت
ھم نے اس دنیا میں اپنی زندگی گزارنی ھے ۔ چونکہ اب نہ کوئی نبی آئے گا ، اور نہ ھی
کوئی کتاب ۔۔ تا قیامت انسانوں کے پاس صرف یہ کتاب اللہ ھی راھنمائی کا واحد ذریعہ
ھے ۔۔
وقت ، حالات ، موسم ، طرز رھائش ، طرز معاشرت
، یہ سب تغیر پذیر ھوتے ھیں ۔ اگر اللہ کریم تمام معاملات کی جزیات کا تعین بھی
خود فرما دیتے ، تو اس ھدایت میں وہ وہ وسعت اور عالمگیریت ھی نہ
رھتی جو تا قیامت انسانوں کی ضروریات کو پورا کر سکتی ۔۔ دین ایک ساکت
اورجامد شئے بن کے رہ جاتا ۔۔ جو بدلتے ھوئے حالات اور ضروریات سے ھم
آھنگ ھی نہ ھوتا ۔۔ چنانچہ بنیادی اصول ، قواعد و ضوابط ، بذریعہ وحی عطا کر دینے
کے بعد ان پر عمل پیرا ھونے کے لیے ، جزیات کا تعین مومنین کو باھمی
مشاورت سے کرنے کا حکم دیا گیا ۔ اور حضور اکرم ۖ نے اپنے دور میں ، صحابہ
کرام کی مشاورت سے ان جزیات کا تعین کیا ۔ جو تواتر کے
ساتھ ھم تک پہنچیں ۔۔ یہ ھی سنت رسول اللہ ھیں اور ان میں کوئی کنفیوزن نہیں ۔۔
حضور اکرم ۖ کی دنیا سے رخصتی کے
سینکڑوں سال بعد ھمارے بزرگان نے ، حضور ۖ کے اقوال اور افعال کو جمع کرنے کے لیے جو کاوشیں
کیں ۔۔ وہ ھمارا اثاثہ ھے ۔۔ ھماری تاریخ ھے ۔۔ لیکن
ان محترم بزرگان کی ان علمی کاوشوں سے پہلے ، مومنین ، کیا نماز نہیں پڑھتے
تھے ۔ روزے ، حج ، زکواة اور دیگر ارکان دین پر عمل نہیں کرتے تھے ۔۔ سب کچھ ھوتا
تھا ، ان کتابوں کے بغیر بھی ۔۔ اور یہ سب تواتر کے ساتھ ھم تک
پہنچا ۔۔ اس وقت کوئی اختلاف نہ تھا ۔۔ کوئی فرقہ بندی نہ تھی ۔۔ کوئی شیعہ ، سنی
، اھل حدیث ، شافعی مالکی حنبلی ، حنفی کی تفریق نہ تھی ۔۔ سیدھا سادہ دین تھا ۔
ھمارے بزرگان ، امام بخاری ،امام
مسلم و دیگر علیہ رحمہ نے ، اپنے وقت میں ، اپنی فہم ، شعور ،صلاحیت اور
دستیاب علم کی بنیاد پر دین کی خدمت کی کوشش کی ۔ وہ بڑے لوگ تھے ، دین سے
مخلص اور حضور اکرم ۖ کے عاشق تھے
۔۔ ان کی صلاحیتوں اور علم و فہم پر بات ھو سکتی ھے مگر ان کی نیتوں پر
کوئی شک نہیں کیا جاسکتا ۔۔ حضور اکرم ۖ نے امت کو یہ کتاب اللہ
مکمل حالت میں ، محفوظ کر کے منتقل کی ۔۔ حضور ۖ کا کوئی عمل ، یا
قول خلاف قرآن ھرگز نہ تھا ۔ آج اگر ان محترم بزرگان کی کتب میں ھمیں
خلاف قرآن کوئی بات نظر آتی ھے ، یا حضور اکرم ۖ اور ان کے صحابہ کرام رضوان
اللہ تعالٰی عنھم کے کردار کے حوالے سے کوئی متنازعہ بات نظر آتی ھے ۔۔ تو اس پر ھمارا
رویہ یہ ھونا چاھیے کہ ایسی کوئی بات ان محترم بزرگان نے کبھی بھی اپنی کتابوں میں
نہیں لکھیں۔۔ وہ لوگ حضور ۖ کی ذات اقدس کی شان میں کوئی گستاخی کریں
، یہ بات نا ممکن ھے ۔۔ میرا نکتہ نظر اس حوالے سے یہ ھے کہ جس طرح امت سابقہ نے اللہ
کریم کی نازل کردہ کتب ، توریت ، زبور ، انجیل میں اپنے مذموم مقاصد کے لیے ، ترامیم
کیں ۔ بلکل اس ھی طرح ، ان دشمنان اسلام نے ھمارے ان محترم بزرگان کی کتابوں میں
بھی ترامیم کیں ھیں اور ایسی روایات کو داخل کیا ھے جو کسی بھی صورت میں ان
محترم بزرگوں نے اپنی کتابوں میں شامل نہیں کی تھیں ۔۔۔
چنانچہ آج ھمارا عمل ھرگز یہ نہیں ھونا چاھیے
کہ ، ان دشمنوں کی سازش کا شکار ھو کر ، ان کتب روایات کومنزل من اللہ کا
درجہ دے دیں ، خارج از قرآن وحی کا عقیدہ اپنائیں ، اور ان روایات کو قرآن
کا ھم پلہ قرار دیں ۔ بلکہ ان کتب روایات کو روایات ھی سمجھیں ، انھیں
قرآن کریم پر پرکھیں ۔۔ ایسی تمام روایات ، جو قرآن کریم سے متصادم ھوں ، جو
مشاھدے کے خلاف ھوں ، جو حضور اکرم ۖ اور ان کے صحابہ کرام کی شان اقدس پر سوالیہ
نشان ھوں ، ان کے حوالے سے یہ اعلان کریں کہ ان روایات کی نسبت حضور ۖ سے درست نہیں ۔۔ ھمیں
مل کر باھمی مشاورت سے ، متحد ھو کر ،تمام مکتبہ فکر کے پڑھے لکھے دوستوں کو اکھٹا
کر کے ، عملی طور پر ان کتب روایات سے ایسی تمام روایات کو نکال دینا چاھیے جو کسی
بھی طرح ، حضور ۖ
کا قول یا فعل نہ لگیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جزاک اللہ
No comments:
Post a Comment