Pages

Monday, November 7, 2016

ختم نبوت اور قرآن حصہ اول تحریر محمد حنیف


ختم نبوت اور قرآن حصہ اول تحریر محمد حنیف


 دور جدید کی ترقی ، خصوصاً انفارمیشن ٹیکانالوجی کے حوالے سے ھونے والی پیش رفت اور نت نئی ایجادات دیکھ کر علامہ اقبال علیہ رحمہ کا شعر ذھن میں گونج اُٹھتا ھے ۔۔۔
آنکھ جو کچھ دیکھتی ھے لب پہ آ سکتا نہیں
محو حیرت ھوں کہ دنیا کیا سے کیا ھو جائے گی

غور فرمائیں ، کس طرح زندگی کے وہ لوازمات ، جن کے بغیر معاملات زندگی کا تصور بھی محال تھا ، آج قصئہ پارینہ بن کے رہ گئے ھیں ۔۔

انسانی زندگی کی بیشتر ضروریات کس طرح ، ایک چھوٹے سے موبائیل ، لیپ ٹاپ ، آئی پوڈ ۔۔ میں سمٹ کر رہ گئی ھیں ۔۔ ایک چھوٹے سے موبائیل نے ، کس طرح ، کیمرہ ، بڑی بڑی فوٹو لیباریٹریز ، میوزک سسٹم ، ٹارچ ، کلکولیٹر ، رائیٹنگ پیڈ ، قلم ، الارام ، تاروں کے بنڈل ، اور بہت ساری اشیاء زندگی کو بےکار اور غیر اھم بنا کر ردی
کی ٹوکری کی نذر کر دیا ھے ۔۔

فائیلوں کے ڈھیر ، ان کی الماریاں ،ان الماریوں کی گرد صاف کرتے ھوئے کارندے ، کاروبار کے حساب کتاب ، کھاتے ، لائبریریاں ، سی ڈیز ، وڈیو اور آڈیو کیسٹس کے ڈھیر ، غرض کیا کیا ، ایک لیپ ٹاپ میں سمٹ کر رہ گئے ھیں ۔۔ اب ھم جہاں جاتے ھیں ، ھمارا سارا ریکارڈ ، ھمارے ماضی حال کی تصویری داستانیں ، سب ھمارے ساتھ ساتھ چپکی ھوئی ھیں ۔۔۔

کس طرح انٹرنیٹ نے ، انسانوں کو علم اور آگہی کی بلندیوں پر پہنچا دیا ۔۔ آج  میں ایک ڈاکٹر نہ ھونے کے باوجود ، اپنی صحت اور اس سے متعلق تمام معلومات سے مکمل طور پر آگاہ ھوں ۔۔

ایک ماھر معاشیات نہ ھونے کے باوجود ، کاروبار سے متعلق کوئی دشواری اب میرے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی ، اور میرے انگلی کے ایک بٹن کے نیچے دبی میرے حکم کی محتاج ھے ۔۔

ایک وکیل نہ ھونے کے باوجود قانون کی شقیں ، میری انگلی کے اشارے پر ، میرے سامنے آشکار ھونے کو بےتاب ھیں ۔۔

پانچویں ، یا چھٹی کلاس کا طالب علم ، اپنے اس استاد سے جس سے وہ اردو پڑھ رھا ھے ، انگریزی پڑھ رھا ، کتنے ھی معاملات میں ، کئی گنا زیادہ معلومات رکھتا ھے ۔۔ اور اس طرح رفتہ رفتہ ایک " انسان معلم " کی حیثیت بھی ماضی کا کوئی قصہ بننے جا رھی ھے اور اس کی جگہ ، ایک " انٹرنیٹ معلم " یعنی برقی کتاب نے لے لی ھے ۔۔  

آج ھم اپنی ضرورت کی تمام معلومات ،  بغیر کسی " انسان  معلم " کے ، از خود کسی کتاب سے اور اب ان" برقی کتب " سے اتنی آسانی سے حاصل کرنے پر قادر ھیں کہ جن کا شاید چند دھائیوں پہلے تصور بھی نہ تھا ۔۔

آج اکیسوئیں صدی میں ترقی کا یہ عالم ھے،کہ عقل حیران اور ذھن گنگ ھے ۔۔  ھم نہیں جانتے کہ ترقی کے اس سفر کی انتہا کیا ھے ۔۔

لیکن اس خالق حقیقی رب ذوالجلال  کی بصیرت سے باھر نہیں ۔۔ پیدائش کائنات،  سے لے کر ، اس کی انتہا تک کا ھر مرحلہ اس کی عظیم الشان مشیت کے مطابق ،
مصروف عمل ھے ۔۔ وہ جانتا ھے کہ کب کیا ھونا ھے ۔۔ کب کیا ھونا چاھیے ۔۔  

اس نے انسانی ترقی کی معراج اس دور کو قرار دیا ھے کہ

جب کوئی انسان کسی دوسرے انسان کا محتاج نہ ھو ۔۔ اپنی انفرادی حیثیت اور مقام کا مالک ھو ۔۔ آزاد و خودمختار ھو ۔۔ نہ حاکم ھو اور نہ محکوم ۔۔ بس اپنے رب کا عبد ھو ۔۔۔

ارشاد ربانی ھے ۔۔
وَمَا أَدْرَاكَ مَا يَوْمُ الدِّينِ [٨٢:١٧]ثُمَّ مَا أَدْرَاكَ مَا يَوْمُ الدِّينِ [٨٢:١٨]يَوْمَ لَا تَمْلِكُ نَفْسٌ لِّنَفْسٍ شَيْئًا ۖ وَالْأَمْرُ يَوْمَئِذٍ لِّلَّهِ [
٨٢:١٩]

اور تم کیا جانوکہ وہ دور کہ جب دین مکمل طور نافذ ھو چکا ھوگا ، کیا ھوگا ۔۔۔۔  دوبارہ سنو کہ وہ دور کہ جب دین مکمل طور پر نافذ ھو چکا ھوگا ، کیا ھوگا ۔۔ یہ وہ دور ھوگا جب کسی انسان کا دوسرے انسان پر کوئی تسلط نہیں ھوگا ۔۔ اور ھر کام اللہ کے عطا کئے ھونے قانون کے مطابق ھوگا ۔۔۔۔  مفہوم

حاکم و محکوم ، کمزور و طاقت ور ، مالک و ملازم ، استاد و شاگرد ، وغیرہ ۔۔۔ یہ سب انسانوں کے بالا دست اور زیر دست ھونے کی نشانیاں ھیں ۔۔

لیکن مشیت خداوندی انسان کو اس کی اپنی منفرد  حیثیت میں ، آزاد اور خودمختار ،  دیکھنا چاھتی ھے ۔۔ یہ ھی وہ بنیادی فلسفہ ھے جو ختم نبوت و رسالت کی بنیاد ھے ۔۔

جب آدم نے اپنی کوتاھی ، غلطی کا اعتراف کیا ۔۔ جب اس پر شرمندگی کا اظہار کیا ۔۔ اور اپنے رب سے رحمت کی درخواست کی ۔۔ تو اللہ نے اس سے فرمایا ۔۔۔۔

قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْهَا جَمِيعًا فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّي هُدًى فَمَن تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ﴿البقرة:
٣٨﴾
ہم نے فرمایا کہ تم سب یہاں سے اتر جاؤ جب تمہارے پاس میری طرف سے ہدایت پہنچے تو (اس کی پیروی کرنا کہ) جنہوں نے میری ہدایت کی پیروی کی ان کو نہ کچھ
خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔۔

اپنے وعدے کے مطابق اس رب کریم نے انسانوں پر متواتر انبیاء کرام علیہ سلام کا نزول فرمایا ۔۔ انھیں کتاب ھدایت عطا فرمائی ، جس کے ذریعے وہ اپنے دور کے لوگوں کو
درست راہ کی راھنمائی فرماتے تھے ۔۔

لیکن وہ خدا ، جو انسان کی انفرادی شخصیت ، اس کی خودمختاری ، اس کی آزاد حیثیت کا متمنی تھا ، وہ جانتا تھا کہ کسی مقام پر ایسا نہ ھو جائے کہ عام انسان اپنے انبیاء کو اپنے سے برتر کوئی مخلوق سمجھنے لگ جائیں ۔۔ ان کی پرستش کرنے لگ جائیں ۔۔

چنانچہ اس نے واضح الفاظ میں اپنے ان مرسلین کی "حقیقی حیثیت" کا اعلان فرما کر ، عام انسان کو یہ پیغام بھی دے دیا کہ وقتی طور پر کہ جب انسانی عقل و شعور ، فہم و فراست ، عہد طفولیت میں ھے ۔۔ اسے راھنمائی کے لیے ایک "انسانی معلم " کی ضرورت ھے ۔۔ اس لیے ھم نے ان انسانوں کو تمھاری رشد و ھدایت کی پیغام رسانی کےلیے منتخب کیا ھے ۔۔ ورنہ یہ تمھاری طرح کے ھی انسان ھیں ۔۔ فرمایا ۔۔

قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَىٰ إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَٰهُكُمْ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ ۖ فَمَن كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا [
١٨:١١٠]
کہہ دو کہ میں بھی تمہارے جیسا آدمی ہی ہوں میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے پھر جو کوئی اپنے رب سے ملنے کی امید رکھے تو اسے چاہیئے کہ اچھے کام کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنائے [احمد علی]

اور ھر نبی سے اس اقرار کے بعد کہ میں تمھارے جیسا ایک انسان ھی ھوں ، صرف اس فرق کے ساتھ کہ مجھ پر وحی آتی ھے ۔۔۔ خود ان کی حیثیت کا تعین بھی فرما دیا ۔۔۔ فرمایا
مَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُؤْتِيَهُ اللَّهُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ ثُمَّ يَقُولَ لِلنَّاسِ كُونُوا عِبَادًا لِّي مِن دُونِ اللَّهِ وَلَٰكِن كُونُوا رَبَّانِيِّينَ بِمَا كُنتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتَابَ وَبِمَا كُنتُمْ تَدْرُسُونَ [
٣:٧٩]
کسی بشر کو یہ حق نہیں ھے کہ ﷲ اسے کتاب اور حکمت اور نبوت عطا فرمائے پھر وہ لوگوں سے یہ کہنے لگے کہ تم اﷲ کو چھوڑ کر میرے بندے بن جاؤ بلکہ (وہ تو یہ کہے گا) تم اﷲ والے بن جاؤ اس سبب سے کہ تم کتاب سکھاتے ہو اور اس وجہ سے کہ تم خود اسے پڑھتے بھی ہو، [طاہر القادری]

یعنی اگر ان بندوں کی طرف وحی نازل کی جاتی ھے ، تو ایسا ھرگز نہیں ھے کہ یہ انسانوں سے بالا کوئی مخلوق ھیں ، اور اس وجہ سے ان کی پرستش کرنا شروع کردو ، یا ان ھی کو دین کی انتہا سمجھنا شروع کردو ۔۔ نہیں بلکہ اصل مقصود تو تمھیں اپنے رب کی پہچان کروانی ھے ۔۔ اصل شئے تو تمھارا دین ھے ۔۔ نبی و رسول تو آتے جاتے رھے ھیں ۔۔ اور اگر یہ محمد ، رسول اللہ بھی کل نہ رھے گا ، تب بھی تمھیں اپنے دین پر چلنا ھے ۔۔

چنانچہ ارشاد فرمایا ۔۔۔
وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِ ن قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ وَمَن يَنقَلِبْ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ فَلَن يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئًا وَسَيَجْزِي اللَّهُ الشَّاكِرِينَ ﴿آل‌عمران:
١٤٤﴾
محمدؐ اس کے سوا کچھ نہیں کہ بس ایک رسول ہیں، اُن سے پہلے اور رسول بھی گزر چکے ہیں، پھر کیا اگر وہ مر جائیں یا قتل کر دیے جائیں تو تم لوگ الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟ یاد رکھو! جو الٹا پھرے گا وہ اللہ کا کچھ نقصان نہ کرے گا، البتہ جو اللہ کے شکر گزار بندے بن کر رہیں گے انہیں وہ اس کی جزا دے گا [ابوالاعلی مودودی]

یعنی رسول کا کام تو اپنے رب کا پیغام ، حرف بہ حرف ، بغیر کسی ترمیم کے ، مکمل حالت میں ، اپنے لوگوں تک پہنچانا ، اور پھر اپنے لوگوں کے ساتھ  باھمی مشاورت سے اس پیغام کو عملی طور پر اپنے معاشرے میں نافذ کرنا ھوتا ھے ۔۔ یہ ھی کچھ  تمام انبیاء علیہ سلام نے کیا ۔۔ یہ ھی کچھ ھمارے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے بھی کیا ۔۔

صدیوں کی مسافت ، کٹھن و صبر آزما مراحل سے گزرنے کے بعد ، انسانی فہم و فراست ، عقل و شعور ، دور نبوی محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں  بلوغت کے اس مقام پر پہنچ گئی تھی کہ دین کے حوالے سے اسے کسی " انسانی معلم " کی احتیاج نہ رھی ۔۔

انسانی شعور اس مقام پر پہنچ گیا تھا کہ جب وہ اپنے رب کی عطا کی ھوئی ھدایت کو بغیر کسی انسان کی راھنمائی کے ، از خود سمجھ بھی سکتا تھا ، اور اس پرعمل بھی کر سکتا تھا ۔۔ چنانچہ اس مقام پر ، رب کائینات نے اپنی حکمت بالغہ کے تحت ، سلسلہ رشد و ھدایت کے اس عمل کو ، ایک ابدی ، غیرمتبدل ، اور مکمل ضابطہ حیات کے نزول ، اور اس کی تاقیامت حفاظت کا ذمہ لے کر ، ھمیشہ ھمیشہ کے لیے ختم فرما دیا ۔۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ کوئی نبی آ سکتا ھے اور نہ ھی قرآن کریم کے بعد  کوئی کتاب ۔۔ چنانچہ ارشاد فرمایا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَٰكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا ﴿الأحزاب:٤٠﴾

محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیاء کے آخر میں (سلسلۂ نبوت ختم کرنے والے) ہیں، اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے، [طاہر القادری]

چنانچہ نبی اکرم  کے بعد نہ کوئی نبی و رسول ھے ، اور نہ ھی قرآن کریم کے بعد کوئی آسمانی کتاب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محمد صلعم ، اپنے دور کے تمام انسانوں ، اور ان کے بعد آنے والے تمام انسانوں کے لیے اللہ کے رسول ھیں ۔۔۔۔

چنانچہ ارشاد فرمایا ۔۔۔

قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ يُحْيِي وَيُمِيتُ ۖ فَآمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ الَّذِي يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَكَلِمَاتِهِ وَاتَّبِعُوهُ
لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [٧:١٥٨]

اے محمدؐ، کہو کہ "اے انسانو، میں تم سب کی طرف اُس خدا کا پیغمبر ہوں جو زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے، اُس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے، وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے، پس ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے بھیجے ہوئے نبی اُمی پر جو اللہ اور اس کے ارشادات کو مانتا ہے، اور پیروی اختیار کرو اُس کی، امید ہے کہ تم راہ راست پا لو گے" [ابوالاعلی مودودی]

آیت مذکورہ میں لفظ " الناس" اور  "جمیعا " قابل غور ھیں ۔۔ اس میں تمام کی تمام انسانیت آ جاتی ھے ۔۔

مزید ارشاد فرمایا ۔۔۔

وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ [٣٤:٢٨]

اور (اے نبیؐ،) ہم نے تم کو تمام ہی انسانوں کے لیے بشیر و نذیر بنا کر بھیجا ہے، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں [ابوالاعلی مودودی]

آیت بالا میں لفظ " کافۃ للناس " حرف آخر ھے ۔۔ تمام کی تمام انسانیت ۔۔۔ وہ جو اس وقت تھے ، اور وہ بھی جو آئیندہ آئیں گے ۔۔ سب کے سب انسانوں کے لیے رسول ۔۔ مزید فرمایا ۔۔
هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ [٦٢:٢]وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [٦٢:٣]

وہی ہے جس نے اَن پڑھ لوگوں میں انہی میں سے ایک (با عظمت) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھیجا وہ اُن پر اُس کی آیتیں پڑھ کر سناتے ہیں اور اُن (کے ظاہر و باطن) کو پاک کرتے ہیں اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں، بیشک وہ لوگ اِن (کے تشریف لانے) سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے،  اور اِن میں سے دوسرے لوگوں میں بھی (اِس رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تزکیہ و تعلیم کے لئے بھیجا ہے) جو ابھی اِن لوگوں سے نہیں ملے (جو اس وقت موجود ہیں یعنی اِن کے بعد کے زمانہ میں آئیں گے)، اور وہ بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے، [طاہر القادری

وہ لوگ جو اس وقت حضور اکرم کے مخاظب تھے ان کے لیے بھی رسول ، اور وہ لوگ جو اس مخاطب قوم کے بعد آئیں گے ، ان سب کی طرف بھی رسول ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور اس آخری پیغام " قرآن کریم " کے حوالے سے ارشاد فرمایا ۔۔۔

قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهَادَةً ۖ قُلِ اللَّهُ ۖ شَهِيدٌ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ ۚ وَأُوحِيَ إِلَيَّ هَٰذَا الْقُرْآنُ لِأُنذِرَكُم بِهِ وَمَن بَلَغَ ۚ أَئِنَّكُمْ لَتَشْهَدُونَ أَنَّ مَعَ اللَّهِ آلِهَةً أُخْرَىٰ ۚ قُل لَّا أَشْهَدُ ۚ قُلْ إِنَّمَا هُوَ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ وَإِنَّنِي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ [٦:١٩]

آپ (ان سے دریافت) فرمائیے کہ گواہی دینے میں سب سے بڑھ کر کون ہے؟ آپ (ہی) فرما دیجئے کہ اﷲ میرے اور تمہارے درمیان گواہ ہے، اور میری طرف یہ قرآن اس لئے وحی کیا گیا ہے کہ اس کے ذریعے تمہیں اور ہر اس شخص کو جس تک (یہ قرآن) پہنچے ڈر سناؤں۔ کیا تم واقعی اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ اﷲ کے ساتھ دوسرے معبود (بھی) ہیں؟ آپ فرما دیں: میں (تو اس غلط بات کی) گواہی نہیں دیتا، فرما دیجئے: بس معبود تو وہی ایک ہی ہے اور میں ان(سب) چیزوں سے بیزار ہوں جنہیں تم
(اﷲ کا) شریک ٹھہراتے ہو، [طاہر القادری]

مزید ارشاد فرمایا ۔۔۔۔۔۔۔

الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۔۔
5/3

آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے۔۔۔ جناب مودودی صاحب

مزید ارشاد فرمایا ۔۔۔۔۔۔۔۔

أَفَغَيْرَ اللَّهِ أَبْتَغِي حَكَمًا وَهُوَ الَّذِي أَنزَلَ إِلَيْكُمُ الْكِتَابَ مُفَصَّلًا ۚ وَالَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَعْلَمُونَ أَنَّهُ مُنَزَّلٌ مِّن رَّبِّكَ بِالْحَقِّ ۖ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ [٦:١١٤]

پھر جب حال یہ ہے تو کیا میں اللہ کے سوا کوئی اور فیصلہ کرنے والا تلاش کروں، حالانکہ اس نے پوری تفصیل کے ساتھ تمہاری طرف کتاب نازل کر دی ہے؟ اور جن لوگوں کو ہم نے (تم سے پہلے) کتاب دی تھی وہ جانتے ہیں کہ یہ کتاب تمہارے رب ہی کی طرف سے حق کے ساتھ نازل ہوئی ہے لہٰذا تم شک کرنے والوں میں شامل نہ ہو [ابوالاعلی مودودی]

نہ صرف یہ کہ کتاب مفصل ھے ۔۔ بلکہ ھر شئے کوبیان کر دینے والی کتاب ھے ۔۔۔

وَيَوْمَ نَبْعَثُ فِي كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيدًا عَلَيْهِم مِّنْ أَنفُسِهِمْ ۖ وَجِئْنَا بِكَ شَهِيدًا عَلَىٰ هَٰؤُلَاءِ ۚ وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَىٰ لِلْمُسْلِمِينَ [١٦:٨٩]

(اے محمدؐ، اِنہیں اُس دن سے خبردار کر دو) جب کہ ہم ہر امت میں خود اُسی کے اندر سے ایک گواہ اٹھا کھڑا کریں گے جو اُس کے مقابلے میں شہادت دے گا، اور اِن لوگوں کے مقابلے میں شہادت دینے کے لیے ہم تمہیں لائیں گے اور (یہ اسی شہادت کی تیاری ہے کہ) ہم نے یہ کتاب تم پر نازل کر دی ہے جو ہر چیز کی صاف صاف وضاحت کرنے والی ہے اور ہدایت و رحمت اور بشارت ہے اُن لوگوں کے لیے جنہوں نے سر تسلیم خم کر دیا ہے [ابوالاعلی مودودی]



وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَعَدْلًا ۚ لَّا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهِ ۚ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ [٦:١١٥]

تمہارے رب کی بات سچائی اور انصاف کے اعتبار سے کامل ہے، کوئی اس کے فرامین کو تبدیل کرنے والا نہیں ہے اور وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے [ابوالاعلی مودودی]

نہ صرف یہ کہ کتاب نازل فرما دی ۔۔ بلکہ تا قیامت اس کی حفاظت کی ذمہ داری بھی خود ھی اٹھا لی ۔

چنانچہ ارشاد فرمایا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ [
١٥:٩]
بیشک یہ ذکرِ عظیم (قرآن) ہم نے ہی اتارا ہے اور یقیناً ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے، [طاہر القادری]

چنانچہ آیات بالا سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ھو جاتی ھے کہ رشد و ھدایت کا وہ سلسلہ جو حضرت نوح علیہ سلام سے شروع ھوا تھا ، وہ نبی آخر حضرت محمد صلعم پر آکر ، اختتام پذیر ھو گیا ۔۔

اس مقام پر آکر ، اللہ کریم نے انسانوں کی راھنمائی کے لیے ایک غیر متبدل اور اکمل کتاب عطا فرما دی ، اس کتاب کی حفاظت کا ذمہ لے لیا ۔۔ اور " انسان معلم " کی آمد کا سلسلہ روک کر تمام انسانوں کو اپنی فہم و فراست کی بنیاد پر ، پیغام خداوندی کو آگے بڑھانے اور اس پیغام کے مطابق ، معاشرے کی تکمیل کی ذمہ داری سونپ دی گئی۔۔

عقل کی بات ھے کہ جب محمد صلم ، تمام انسانیت کے نبی و رسول ، اور قرآن کریم ، تمام انسانوں کے لیے کتاب ھو ۔۔  ھر شئے کو بیان کر دینے والی ھو ۔۔۔ مفصل ھو ۔۔۔ غیر متبدل ھو ۔۔  محفوظ ھو ۔۔ تو پھر کس طرح کسی اور نبی و رسول یا کتاب کی ضرورت رہ جاتی ھے ؟؟ 

دین تو اللہ کے نزدیک  ھمیشہ سے اسلام ھی تھا ۔۔ ھر نبی و رسول نے آکر اس دین اسلام ھی کی ترویج کی ۔۔ اپنے رب کا پیغام لوگوں تک پہنچایا ۔۔

ھر دور کے نبی و رسول کے چلے جانے کے کچھ عرصہ کے بعد ، اس کی قوم اپنے نبی و رسول کی تعلیمات سے روگردانی اختیار کر لیتی تھی ، اور اپنی مرضی کے اضافے اور ترامیم سے اپنے نبی و رسول کی اصل تعلیم کی جگہ ایک نئی تعلیم کو خدا کا پیغام کہہ کر لوگوں کو گمراہ کرنا شروع کر دیتی تھی ۔۔ چنانچہ اللہ کریم پھر ایک نبی و رسول کو بھیج دیا کرتے تھے ۔۔ جو از سر نو ، اس قوم کو ، اللہ کے حقیقی پیغام کی طرف بلاتے تھے اور ان کی راھنمائی کرتے تھے ۔۔  یہ سلسلہ حضرت عیسٰی علیہ سلام تک جاری رھا ،
تا آنکہ اللہ کریم نے ایک ایسی کتاب نازل فرما دی ، جس کی حفاظت کا ذمہ بھی خود لے لیا ۔۔ اور اس کتاب کو مکمل ضابطہ حیات بھی بنا دیا ۔۔۔

ایک ایسی کتاب جو اپنے متن کے حوالے سے  محفوظ ترین ،اپنی تعلیم کے حوالے سے سے مکمل ترین ، اپنے بیان کے حوالے سے مفصل ترین ھو ، کیا ایسی کتاب کی موجودگی میں کسی اور کتاب کی ضرورت باقی رہ جاتی ھے ؟؟؟؟؟

 ھرگز نہیں ۔۔۔ اگر ایسی کتاب کے ھوتے ھوئے ، کسی دوسرے پیغام کی ضرورت باقی رہ جاتی ھو ، تو اس کتاب کی اکمل حالت میں ، محفوظ رکھنے کی خدائی گارنٹی ، معاذ اللہ ثم معاذ اللہ ، محض ایک مذاق ھی کہلایا جا سکتا ھے ۔۔ اور میرا رب ، اس طرح کے سطحی اور جاھلانا عمل سے پاک ھے ۔۔۔

کسی انسان کے مومن  ھونے کی جو شرائط ، قرآن کریم نے واضح الفاظ میں بیان فرما دی ھیں ۔۔  ارشاد باری تعالٰی ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔

مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ ۔۔۔ 2/177

اللہ پر ایمان ، یوم آخر پر ایمان ، اللہ کے ملائکہ پر ایمان ، اللہ کی نازل کی ھوئی کتابوں پر ایمان ، اللہ کے بھیجے گئے انبیاء پر ایمان ۔۔۔۔

ایمان لانے کے بعد ، کسی انسان کے ھدایت یافتہ ھونے کی نشانیاں اس طرح بیان فرمائی گئی ھیں ۔ فرمایا ۔۔۔۔

الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ [٢:٣]

جو غیب پر ایمان لاتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، جو رزق ہم نے اُن کو دیا ہے، اُس میں سے خرچ کرتے ہیں [ابوالاعلی مودودی]

وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ [٢:٤]

جو کتاب تم پر نازل کی گئی ہے (یعنی قرآن) اور جو کتابیں تم سے پہلے نازل کی گئی تھیں ان سب پر ایمان لاتے ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں [ابوالاعلی مودودی]

أُولَٰئِكَ عَلَىٰ هُدًى مِّن رَّبِّهِمْ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ [٢:٥]

ایسے لوگ اپنے رب کی طرف سے راہ راست پر ہیں اور وہی فلاح پانے والے ہیں [ابوالاعلی مودودی]

آیت مذکورہ ، اللہ کریم کی طرف سے نازل شدہ ان کتابوں پر ، جو قرآن کریم سے پہلے نازل ھوئیں ، اس پر ایمان کا مطالبہ کرتی ھے ، اور اس کتاب قرآن کریم پر ایمان کا مطالبہ کرتی ھے ۔۔ لیکن ، مستقبل میں کسی اور نازل کی ھوئی کتاب کا نہ تو کوئی ذکر کرتی ھے ، اور نہ ھی اس پر ایمان کا مطالبہ ۔۔

مزید ارشاد فرمایا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا آمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي نَزَّلَ عَلَىٰ رَسُولِهِ وَالْكِتَابِ الَّذِي أَنزَلَ مِن قَبْلُ ۚ وَمَن يَكْفُرْ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا [٤:١٣٦]

اے ایمان والو! تم اللہ پر اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل فرمائی ہے اور اس کتاب پر جو اس نے (اس سے) پہلے اتاری تھی ایمان لاؤ، اور جو کوئی اللہ کا اور اس کے فرشتوں کا اور اس کی کتابوں کا اور اس کے رسولوں کا اور آخرت کے دن کا انکار کرے تو بیشک وہ دور دراز کی گمراہی میں بھٹک گیا، [طاہر القادری]

صرف اور صرف اس کتاب عظیم ، قرآن کریم پر ایمان ، اس قرآن کریم سے پہلے کی تمام کتب پر ایمان ۔۔ اور بس ۔۔۔۔۔۔۔ کسی آنے والی کتاب پر ایمان کا کوئی ذکر نہیں ۔۔ نہ کسی کتاب کا کوئی ذکر اور نہ ھی کسی آنے والے نبی و رسول کا کوئی ذکر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


اب یہ تو ایک طے شدہ امر ھے کہ کسی انسان کے مومن ھونے کے لیے لازم ھے کہ وہ اللہ کریم کی نازل کی ھوئی تمام کی تمام کتب ، اور تمام کے تمام ، انبیاء اور رسولوں پر ایمان لائے ۔۔ اور ان میں سے کسی ایک میں بھی تفریق نہ کرے ،

چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ھے ۔۔۔۔

آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مِن رَّبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ ۚ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّن رُّسُلِهِ ۚ وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۖ غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ [٢:٢٨٥]

رسول اُس ہدایت پر ایمان لایا ہے جو اس کے رب کی طرف سے اس پر نازل ہوئی ہے اور جو لوگ اِس رسول کے ماننے والے ہیں، انہوں نے بھی اس ہدایت کو دل سے تسلیم کر لیا ہے یہ سب اللہ اور اس کے فرشتوں اوراس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کو مانتے ہیں اور ان کا قول یہ ہے کہ: "ہم اللہ کے رسولوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کرتے، ہم نے حکم سنا اور اطاعت قبول کی مالک! ہم تجھ سے خطا بخشی کے طالب ہیں اور ہمیں تیری ہی طرف پلٹنا ہے" [ابوالاعلی مودودی]


چنانچہ اگر حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے بعد ، کسی اور رسول ، اور قرآن کریم کے بعد کسی اور کتاب کا آنا ھوتا ، تو لازم تھا کہ اللہ اپنے بندوں سے اس کا بھی اقرار کرواتا ، جس طرح حضور سے پہلے کے انبیاء اور کتب آسمانی پر ایمان کا مطالبہ کیا گیا ھے ۔۔

دلائل بالا ، اس بات کو روز روشن کی طرح عیاں کر دیتے ھیں کہ قرآن کریم ، اللہ کی نازل کردہ کتب آسمانی کے سلسلے کی آخری کتاب ھے ۔۔۔ اور نبی اکرم ، محمد مصطفٰی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اللہ کریم کی طرف سے بھیجے جانے والے انبیاء و مرسلین کے آخری نبی و رسول ھیں ۔۔

وحی خداوندی کا سلسلہ ، حضور اکرم صلعم کی ذات اقدس پر اختتام پذیر ھو گیا ھے ۔۔ رب کائنات نے آخری بار کسی انسان سے جو مکالمہ کیا ، وہ انسان نبی اکرم
محمد صلعم ھیں ، اور وہ مکالمات ، اس رب کائنات کی محفوظ کی ھوئی کتاب ، قرآن کریم میں ، حرف بہ حرف ، مکمل اور مفصل حالت میں موجود ھیں ۔۔۔۔

حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے بعد ، کسی بھی انسان کا براہ راست اللہ کی ذات سے ھدایت پانے ، کا دعویٰ ، دراصل وحی پانے کا دعویٰ ھے ۔۔۔ خواہ اس کا نام ،کشف ، الہام ، وجدان یا  کچھ بھی رکھ دیا جائے ۔۔۔

اور اس طرح سے یہ دعویٰ نبوت و رسالت ھے ۔۔ جو قرآن کریم کے واضح بیان سے متصادم ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رسول

اقبال علیہ رحمہ نے خوب کہا تھا ۔۔۔۔۔۔

خوگر پیکر محسوس تھی انسان کی نظر
مانتا پھر کوئی ان دیکھے خدا کو کیوں کر

ایک طرف ، حضرت انسان محسوسات کی دنیا کا باشندہ ھے ، تو دوسری طرف ، اپنی فطرت میں جلد باز ، اور خود پر ظلم کرنے والا بھی ھے ۔۔۔ یہ عمومی فطرت انسانی ھے کہ وہ آسان راستوں کا انتخاب کرتا ھے ۔۔ مشکلات اور کٹھنائیوں سے بچنے کی کوشش کرتا ھے ۔۔ کم محنت سے زیادہ حاصل کرنے کی خواھش کرتا ھے ۔۔ شارٹ کٹ کا متلاشی ھے ۔

آسمانی سلسلہ رشد و ھدایت کے اختتام پر ، اللہ کریم نے اپنے دین کی تبلیغ و ترویج ، اور اس کے نفاذ کی ذمہ داری امت محمدی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو منتقل کر دی ۔۔
چنانچہ ارشاد فرمایا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ [٣:١٠٤]

تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی رہنے چاہییں جو نیکی کی طرف بلائیں، بھلائی کا حکم دیں، اور برائیوں سے روکتے رہیں جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے [ابوالاعلی مودودی]

یہ ھی وہ فریضہ تھا ، جو حضرات انبیاء کرام علیہ سلام  انجام دیتے تھے ۔۔ یعنی امر بالمعروف ، نھی عن المنکر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اب یہ ھی فریضہ اس امت مسلمہ کے ذمہ لگا دیا گیا ۔۔۔ اور اس امت کو ، بہترین امت قرار دیا گیا ۔۔ کیونکہ اس امت نے تا قیامت ، نبوت و رسالت کے اس فریضہ کو ادا کرنا تھا ۔۔۔
چنانچہ ارشاد فرمایا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ ۗ وَلَوْ آمَنَ أَهْلُ الْكِتَابِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُم ۚ مِّنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَأَكْثَرُهُمُ الْفَاسِقُونَ [٣:١١٠]

اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو یہ اہل کتاب ایمان لاتے تو انہی کے حق میں بہتر تھا اگرچہ ان میں کچھ لوگ ایمان دار بھی پائے جاتے ہیں مگر اِن کے بیشتر افراد نافرمان ہیں [ابوالاعلی مودودی]

چنانچہ امت محمدیہ کا ھر فرد ، اس حکم خداوندی کے تحت ، اس فریضہ نبوت و رسالت کی ادائیگی کا ذمہ دار  ھے ۔۔ وہ لوگوں تک اللہ کی بات ، یعنی قرآن کریم کی تعلیم پہنچانے ، اور اس تعلیم کے مطابق ، اس دین کو عملی طور پر نافذ کرنے کا پابند ھے ۔۔ اس جہت سے  امت محمدی کا ھر فرد ، لغوی معنوں میں " رسول " یعنی پیغام ربی کو لوگوں تک پہنچانے اور اس پیغام کے مطابق دین کے نفاذ کی کوشش کرنے والا ھے ۔۔

لیکن اصطلاحی معنوں میں ، رسول اس انسان کو کہتے ھیں ، جس پر وحی خداوندی کا نزول ھوتا ھے ۔۔ اور یہ سلسلہ نبی آخر محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس پر اختتام پذیر ھو گیا ھے ۔۔
جاری ھے 

No comments:

Post a Comment