Pages

Saturday, April 19, 2014

قرانی وراثت



قرآنی وراثت

عورت کی گواہی

تحریر: محمد حنیف
 
چند ایام قبل(مارچ 2012 میں) ہمارے ایک محترم دوست نے سورہ النساء کی آیت نمبر11 کے حوالے سے کچھ معروضات پیش کیں ۔ پہلے میں وہ آیت مبارکہ پیش کرتا ہوں ۔ ارشاد باری تعالٰی ہے ۔  
 يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ ۖ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ ۚ فَإِن كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ ۖ وَإِن كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ ۚ وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِن كَانَ لَهُ وَلَدٌ ۚ فَإِن لَّمْ يَكُن لَّهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ ۚ فَإِن كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ ۚ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ ۗ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا ۚ فَرِيضَةً مِّنَ اللَّهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا [٤:١١] 
 اللہ تمہیں تمہاری اولاد (کی وراثت) کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ لڑکے کے لئے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے، پھر اگر صرف لڑکیاں ہی ہوں (دو یا) دو سے زائد تو ان کے لئے اس ترکہ کا دو تہائی حصہ ہے، اور اگر وہ اکیلی ہو تو اس کے لئے آدھا ہے، اور مُورِث کے ماں باپ کے لئے ان دونوں میں سے ہر ایک کو ترکہ کا چھٹا حصہ (ملے گا) بشرطیکہ مُورِث کی کوئی اولاد ہو، پھر اگر اس میت (مُورِث) کی کوئی اولاد نہ ہو اور اس کے وارث صرف اس کے ماں باپ ہوں تو اس کی ماں کے لئے تہائی ہے (اور باقی سب باپ کا حصہ ہے)، پھر اگر مُورِث کے بھائی بہن ہوں تو اس کی ماں کے لئے چھٹا حصہ ہے (یہ تقسیم) اس وصیت (کے پورا کرنے) کے بعد جو اس نے کی ہو یا قرض (کی ادائیگی) کے بعد (ہو گی)، تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے تمہیں معلوم نہیں کہ فائدہ پہنچانے میں ان میں سے کون تمہارے قریب تر ہے، یہ (تقسیم) اللہ کی طرف سے فریضہ (یعنی مقرر) ہے، بیشک اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے، [طاہر القادری]
 ہمارے معزز دوست نے ، آیت مذکورہ سے یہ استدلال کیا کہ ، اگر صرف لڑکیاں ہوں ، تو تقسیم کے مندرجہ بالا حکم کے مطابق لڑکیوں کو دوتہائی ملے گا اور اس صورت میں جو ایک تہائی بچے گا وہ کہاں جائے گا ؟ اور اگر ایک لڑکی ہو ، تو تقسیم کے مندرجہ بالا حکم کے مطابق ،اسے نصف ملے گا ، تو باقی جو نصف بچے گا وہ کہاں جائے گا ؟
اس طرح ہمارے دوست نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ، کہ اس مقام پر قرآن خاموش ہے  ۔

 آیت مبارکہ مندرجہ بالا کے درست مفہوم کو سمجھنے کے لیے ہمیں پہلے اس طرز فکر ، اور ذہنیت پر غور کرنا ہوگا ، جو ہمارے دین سے پہلے کے ادیان ، اور خصوصاً عیسائیت میں ، ایک اٹل حقیقت  کے طور پر موجود تھیں ، اور پھر  ہمارے دین میں داخل ہو گئیں ۔اس طرز فکر کے مطابق ، عورت مرد کے مقابلے میں ایک کم تر درجہ کی مخلوق ہے  اور دنیا میں تمام مسائل اور برائیوں کی وجہ بھی یہ ہی عورت ہے ۔
 اس سوچ کے مطابق ، جنت سے آدم کا نکلنا ، اس عورت ہی کی وجہ سے ہوا ۔
 مرد کے مقابلے میں اس کی  گواہی آدھی ہوتی ہے ۔
 قتل ہو جانے کی صورت میں ، اس کا قصاص بھی مرد کا نصف ہوتا ہے ۔
 اس طرح  وراثت میں بھی ، اس کا حصہ مرد  کے حصہ کا  نصف ہوتا ہے ۔
  بد قسمتی سے ہمارے محترم دوست کا آیت بالا کے حوالے سے استدلال بھی اس ہی غیر قرآنی نظریہ کا اسیر نظر آتا ہے ۔آئیے ہم قرآن کریم سے ان نظریات کی سند یا عدم سند معلوم کرتے ہیں ۔
قرآن کریم میں ایک بنیادی قانون بیان ہوا ، فرمایا ۔
 وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُم مِّنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَىٰ كَثِيرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا [١٧:٧٠]
اور ہم نے آدم کی اولاد کو عزت دی ہے اور خشکی اور دریا میں اسے سوار کیا اور ہم نے انہیں ستھری چیزو ں سے رزق دیا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر انہیں فضیلت عطا کی [احمد علی]
 آیت مذکورہ ، تمام نوع انسانی ، بنی آدم کی یکساں عزت اور تکریم کا اعلان کر رہی ہے اور ظاہرہے کہ اولاد آدم میں صرف مرد ہی نہیں آتے ۔ عورت بھی اس ہی آدم کی اولاد ہے ۔

البتہ واجب التکریم ہونے کے لئے دوسری جگہ قانون بیان فرمایا ۔
 يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۚ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ [٤٩:١٣]
اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا فرمایا اور ہم نے تمہیں (بڑی بڑی) قوموں اور قبیلوں میں (تقسیم) کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بیشک اﷲ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہو، بیشک اﷲ خوب جاننے والا خوب خبر رکھنے والا ہے، [طاہر القادری]
 آیت مذکورہ ، عورت اور مرد کی برابر حیثیت اور مقام کو واضح کر دیتی ہے۔ رنگ و نسل ، قبیلہ و قوم کی تقسیم  محض ، ایک دوسرے کو پہچاننے کی غرض سے ہے۔ چنانچہ ، کوئی بھی انسان ، خواہ وہ کسی رنگ ، نسل قبیلہ ، قوم ، یا جنس سے تعلق رکھتا ہو ، دوسرے لوگوں سے کسی بھی طرح افضل نہیں ہے۔ البتہ وہ لوگ جو قانون خداوندی کے  زیادہ فرمابردار ہوں گے ، وہ اپنےہم عصر لوگوں کے مقابلے میں زیادہ عزت اور تکریم کے حقدار ہوں گے ۔
 اس قانون کی رو سے ،  اللہ کی  فرمابردار عورت ، کسی نافرمان مرد سے ہزار گنا زیادہ تکریم اور عزت کی حقدار ہے ۔
قرآن کریم نے متعدد مقامات پر ، عورت اور مرد کے لیے ایک جیسے الفاظ استعمال کیے ہیں ۔
ارشاد فرمایا ۔۔
إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْقَانِتِينَ وَالْقَانِتَاتِ وَالصَّادِقِينَ وَالصَّادِقَاتِ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِرَاتِ وَالْخَاشِعِينَ وَالْخَاشِعَاتِ وَالْمُتَصَدِّقِينَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ وَالصَّائِمِينَ وَالصَّائِمَاتِ وَالْحَافِظِينَ فُرُوجَهُمْ وَالْحَافِظَاتِ وَالذَّاكِرِينَ اللَّهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا [٣٣:٣٥]
  بیشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں، اور مومن مَرد اور مومن عورتیں، اور فرمانبردار مرد اور فرمانبردار عورتیں، اور صدق والے مرد اور صدق والی عورتیں، اور صبر والے مرد اور صبر والی عورتیں، اور عاجزی والے مرد اور عاجزی والی عورتیں، اور صدقہ و خیرات کرنے والے مرد اور صدقہ و خیرات کرنے والی عورتیں اور روزہ دار مرد اور روزہ دار عورتیں، اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں، اور کثرت سے اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور ذکر کرنے والی عورتیں، اللہ نے اِن سب کے لئے بخشِش اور عظیم اجر تیار فرما رکھا ہے، [طاہر القادری
 زندگی کا کوئی ایک گوشہ ایسا نہیں ہے ، جہاں قرآن نے بحیثیت ایک فرد کے عورت اور مرد میں ، اس کے جنسی تفرقہ کی بناء پر کوئی ، تخصیص رکھی ہو۔ البتہ کارہائے زندگی کی ادائیگی کے لیے ان دونوں کے فرائض  اور ذمہ داریوں کا تعین ، معاشرے کی ضرورت کے مطابق طے کئے گئے ہیں۔
 جب قرآن یہ  کہتا ہے ۔
لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ [٩٥:٤] 
 بیشک ہم نے انسان کو بہترین (اعتدال اور توازن والی) ساخت میں پیدا فرمایا ہے، [طاہر القادری]

وہ خدا جس نے انسان کی بہترین ، اعتدال اور توازن والی ساخت میں تخلیق کو اپنا کارنامہ بتایا ہے ۔
تو کیا اس احسن تقویم میں ، عورت شامل نہیں ہے ؟؟
قرآن کریم نے ان باطل عقائد اور نظریات کی کھلے الفاظ میں تردید اور مذمت کی ہے ، جس کی رو سے کسی بھی مقام پر ، ایسا کوئی عقیدہ وضع کیا جائے ، جس سے عورت کی تحقیر اور مرد کی تعظیم مقصود ہو ۔ قرآن  کریم نے عیسائیت کے اس باطل عقیدے کی، کہ عورت نے شیطان کے بہکاوے میں آکر ، آدم کو جنت سے نکلوایا ، پرزور الفاظ میں تردید کی ہے،  اور واضح الفاظ میں بتایا کہ مرد اور عورت دونوں کو شیطان نے بہکایا تھا ۔ چنانچہ فرمایا ۔
 فَأَزَلَّهُمَا الشَّيْطَانُ عَنْهَا فَأَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِيهِ ۖ وَقُلْنَا اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ۖ وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَىٰ حِينٍ [٢:٣٦] 
 آخر کار شیطان نے ان دونوں کو اس درخت کی ترغیب دے کر ہمارے حکم کی پیروی سے ہٹا دیا اور انہیں اُس حالت سے نکلوا کر چھوڑا، جس میں وہ تھے ہم نے حکم دیا کہ، "اب تم سب یہاں سے اتر جاؤ، تم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور تمہیں ایک خاص وقت تک زمین ٹھیرنا اور وہیں گزر بسر کرنا ہے" [ابوالاعلی مودودی]
 عورت کی آدھی گواہی
 ایک اور باطل عقیدہ کہ ایک مرد کے مقابلے میں دو عورتوں کی گواہی ہوگی ۔اس ہی ذہنیت کا نتیجہ ہے جو عیسائیت کی عطا ہے۔ قرآن  کریم نے واضح طور پر بیان کر دیا کہ گواہی کے سلسلے میں ، تعداد مرد و زن کے لیے  کوئی ایک مخصوص قانون نہیں ہے ، بلکہ موقع اور معاملے کی نوعیت اور نزاکت کی مناسبت سے اس کا فیصلہ ہوگا کہ گواہان کی تعداد کیا ہوگی ۔

 عام معاملات میں ، بھی اللہ کریم نے ایک مرد کی گواہی کو قبول نہیں کیاہے ۔ بلکہ اس کے لیے بھی گواہان کی تعداد ، دو کا حکم دیا ہے  ، لیکن مخصوص مقامات پر ، دو  مردوں  کی گواہی کو بھی نہیں مانا گیا ہے۔مثلاً۔۔
 وَاللَّاتِي يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ مِن نِّسَائِكُمْ فَاسْتَشْهِدُوا عَلَيْهِنَّ أَرْبَعَةً مِّنكُمْ ۖ فَإِن شَهِدُوا فَأَمْسِكُوهُنَّ فِي الْبُيُوتِ حَتَّىٰ يَتَوَفَّاهُنَّ الْمَوْتُ أَوْ يَجْعَلَ اللَّهُ لَهُنَّ سَبِيلًا [٤:١٥]
 تمہاری عورتوں میں سے جو بد کاری کی مرتکب ہوں اُن پر اپنے میں سے چار آدمیوں کی گواہی لو، اور اگر چار آدمی گواہی دے دیں تو ان کو گھروں میں بند رکھو یہاں تک کہ انہیں موت آ جائے یا اللہ اُن کے لیے کوئی راستہ نکال دے [ابوالاعلی مودودی]
  وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا ۚ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ [٢٤:٤]
اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگائیں، پھر چار گواہ لے کر نہ آئیں، ان کو اسی کوڑے مارو اور ان کی شہادت کبھی قبول نہ کرو، اور وہ خود ہی فاسق ہیں [ابوالاعلی مودودی]
  غور فرمائیں کہ معاملے کی حساسیت اور اہمیت کے پیش نظر حالات مذکورہ میں ، دو مردوں کی گواہی کو بھی کافی نہیں سمجھا جا رہا ،  بلکہ چار افراد کا حکم ہے ۔ لیکن اگر کوئی مرد اپنی عورت کے حوالے سے تہمت لگائے اور اس کے پاس کوئی اور گواہ نہ ہو ، تو وہ اکیلا بھی چار بار قسم اٹھا کر گواہی دے سکتا ہے ۔
 اس کے علاوہ ، قرض ، طلاق ، نکاح و  دیگر معاملات میں دو گواہان کا حکم ہے ۔ چنانچہ آیات بالا اس بات کو ثابت کرتی ہیں کہ ، گواہی کے ضمن میں ، تعداد گواہان ، معاملے کی نوعیت کے اعتبار سے مختلف ہوں گی ۔ اور یہ بھی لازم نہیں کہ یہ گواہان صرف اور صرف مردہی ہو سکتےہیں۔ یا اگر مرد  میسر نہ ہوں تو ایک مرد کے بجائے دو عورتیں ہوں گی ۔
 اب ہم اس مخصوص آیت مبارکہ کو پیش کرتے ہیں ، جس سے عموماً ، ایک مرد کے مقابلے میں دو عورتوں کی گواہی کی سند پیش کی جاتی ہے ۔
 ارشاد باری تعالٰی ہے ۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنتُم بِدَيْنٍ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوهُ ۚ وَلْيَكْتُب بَّيْنَكُمْ كَاتِبٌ بِالْعَدْلِ ۚ وَلَا يَأْبَ كَاتِبٌ أَن يَكْتُبَ كَمَا عَلَّمَهُ اللَّهُ ۚ فَلْيَكْتُبْ وَلْيُمْلِلِ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ وَلْيَتَّقِ اللَّهَ رَبَّهُ وَلَا يَبْخَسْ مِنْهُ شَيْئًا ۚ فَإِن كَانَ الَّذِي عَلَيْهِ الْحَقُّ سَفِيهًا أَوْ ضَعِيفًا أَوْ لَا يَسْتَطِيعُ أَن يُمِلَّ هُوَ فَلْيُمْلِلْ وَلِيُّهُ بِالْعَدْلِ ۚ وَاسْتَشْهِدُوا شَهِيدَيْنِ مِن رِّجَالِكُمْ ۖ فَإِن لَّمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ مِمَّن تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاءِ أَن تَضِلَّ إِحْدَاهُمَا فَتُذَكِّرَ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرَىٰ ۚ وَلَا يَأْبَ الشُّهَدَاءُ إِذَا مَا دُعُوا ۚ وَلَا تَسْأَمُوا أَن تَكْتُبُوهُ صَغِيرًا أَوْ كَبِيرًا إِلَىٰ أَجَلِهِ ۚ ذَٰلِكُمْ أَقْسَطُ عِندَ اللَّهِ وَأَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَأَدْنَىٰ أَلَّا تَرْتَابُوا ۖ إِلَّا أَن تَكُونَ تِجَارَةً حَاضِرَةً تُدِيرُونَهَا بَيْنَكُمْ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَلَّا تَكْتُبُوهَا ۗ وَأَشْهِدُوا إِذَا تَبَايَعْتُمْ ۚ وَلَا يُضَارَّ كَاتِبٌ وَلَا شَهِيدٌ ۚ وَإِن تَفْعَلُوا فَإِنَّهُ فُسُوقٌ بِكُمْ ۗ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ وَيُعَلِّمُكُمُ اللَّهُ ۗ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ [٢:٢٨٢] 
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب کسی مقرر مدت کے لیے تم آپس میں قرض کا لین دین کرو، تو اسے لکھ لیا کرو فریقین کے درمیان انصاف کے ساتھ ایک شخص دستاویز تحریر کرے جسے اللہ نے لکھنے پڑھنے کی قابلیت بخشی ہو، اسے لکھنے سے انکار نہ کرنا چاہیے وہ لکھے اور املا وہ شخص کرائے جس پر حق آتا ہے (یعنی قرض لینے والا)، اور اُسے اللہ، اپنے رب سے ڈرنا چاہیے کہ جو معاملہ طے ہوا ہو اس میں کوئی کمی بیشی نہ کرے لیکن اگر قرض لینے والا خود نادان یا ضعیف ہو، املا نہ کرا سکتا ہو، تواس کا ولی انصاف کے ساتھ املا کرائے پھر اپنے مردوں سے دو آدمیوں کی اس پر گواہی کرا لو اور اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہوں تاکہ ایک بھول جائے، تو دوسری اسے یاد دلا دے یہ گواہ ایسے لوگوں میں سے ہونے چاہییں، جن کی گواہی تمہارے درمیان مقبول ہو گواہوں کو جب گواہ بننے کے لیے کہا جائے، تو انہیں انکار نہ کرنا چاہیے معاملہ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا، میعاد کی تعین کے ساتھ اس کی دستاویز لکھوا لینے میں تساہل نہ کرو اللہ کے نزدیک یہ طریقہ تمہارے لیے زیادہ مبنی بر انصاف ہے، اس سے شہادت قائم ہونے میں زیادہ سہولت ہوتی ہے، اور تمہارے شکوک و شبہات میں مبتلا ہونے کا امکان کم رہ جاتا ہے ہاں جو تجارتی لین دین دست بدست تم لوگ آپس میں کرتے ہو، اس کو نہ لکھا جائے تو کوئی حرج نہیں، مگر تجارتی معاملے طے کرتے وقت گواہ کر لیا کرو کاتب اور گواہ کو ستایا نہ جائے
ایسا کرو گے، تو گناہ کا ارتکاب کرو گے اللہ کے غضب سے بچو وہ تم کو صحیح طریق عمل کی تعلیم دیتا ہے اور اسے ہر چیز کا علم ہے [ابوالاعلی مودودی] 
آیت بالا میں ، دو باتیں بہت اہم ہیں،  جنہیں سمجھنے کی ضرورت ہے ۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ یہاں بات ، مالی امور ، لین دین کی ہو رہی ہے ۔اور ظاہر ہے کہ ایسے معاملات ، اچانک رونما نہیں ہو جاتے ۔ جب ہم کسی سے لین دین کرتےہیں ، تو پہلے باقائدہ شرائظ و ضوابط ، طے کرتے ہیں ۔ اور اس کے بعد معاملے کو تحریری شکل دیتے ہیں ۔ چنانچہ اس حالت میں ، گواہان کا انتخاب ، ہنگامی صورتحال  میں نہیں ہوتا  بلکہ گواہان کا انتخاب کرنے کے لئے کافی وقت ہوتا ہے ۔ چنانچہ معاشرے کے عمومی مزاج کو مد نظر رکھتے ہوئے ، کہا جا رہاہے کہ تم دو مردوں کو گواہ بنا لو ۔  اس کے علاوہ ، کسی بھی مقام پر ، یہ بات نہیں کہی گئی کہ گواہ لازماً  مرد ہوں بلکہ ہر مقام پر یہ ہی کہا گیاہے کہ اپنے میں سے دو گواہ ، چار گواہ ، لے کر آو ۔اب یہ گواہ مرد بھی ہو سکتے ہیں اور عورت بھی ۔
 صرف اس مخصوص مقام پر ، جہاں مالی لین دین ہو رہاہے ، اور یہ کوئی  ہنگامی صورتحال نہیں ہے تو کہا کہ بہتر ہے  کہ مرد گواہ لائے جائیں ۔
 صدیوں پہلے کی بات چھوڑیں ، آج بھی ہم دیکھ سکتے ہیں کہ خواتین مالی  لین دین  کے معاملات میں عمومی طور پر ، کم ہی دلچسپی رکھتی ہیں ۔ چنانچہ اگر مرد گواہ میسر ہوں تو  یہ زیادہ بہتر ہے ۔لیکن اگر مرد گواہ میسر نہ ہوں ، تو کوئی بات نہیں ہے ۔ایک مرد اور دو عورتوں کو لے آو ۔ اور اس دوسری عورت کا کام صرف اتنا ہوگا کہ اگر گواہی دینے والی عورت کچھ بھول جائے تو دوسری اسے یاد کروا دے۔۔
 صاف سمجھ میں آ رہاہے کہ ، گواہی تو ایک عورت کی  ہی ہوگی ۔ اور اگر گواہی دینے والی عورت پر اعتماد طریقے سے گواہی دے دے ، اور کچھ نہ بھولے ، تو دوسری عورت کا کوئی بھی کردار نہیں رہے گا ۔
اب غور فرمائیں  ، کہ کہاں یہ طے کیا گیا ہے کہ ، ایک مرد کے مقابلے میں لازماً دو عورتوں کی گواہی ہوگی ؟
 مزید یہ کہ اس مالی لین دین کے علاوہ کون سی جگہ اللہ نے گواہی کے لیے  مرد کو ترجیح دی؟
 مزید یہ کہ مالی لین دین تو  پہلے سے طے شدہ ایک معاملہ ہوتاہے لیکن اگر کوئی واقعہ اچانک رونما ہو جائے مثلاً ، کسی کا قتل ہو رہا ہو  اور وہاں ، کوئی مرد نہ ہو ، بلکہ صرف دو عورتیں ہی ہوں ، تو کیا ان دو عورتوں کی گواہی نہیں مانی جائے گی ؟ 
  ایسی صورتحال میں ، مرد کا انتظام کیسے کیا جائے گا ؟ 
 کیا قتل کرنے والے کو اس وقت تک اس فعل سے منع کیا جائے گا ، جب تک کسی مرد کا بندوبست نہ ہو جائے ؟ 
 کیا ہم اللہ کریم سے اس طرح کی ، معاذ اللہ ، ثم معاذ اللہ ، طفلانہ عمل کی توقع بھی کر سکتے ہیں ؟

 چنانچہ یہ نظریہ بھی بلکل خلاف قرآن ہے کہ ، ایک مرد کے مقابلے میں دو عورتوں کی گواہی ، حکم خداوندی ہے ۔
 اب ہم اصل سوال پر آتےہیں ،  یعنی کیا  وراثت میں ، عورت کا حصہ مرد سے نصف ہوگا ؟
یا یہ کہ آیت مسؤلہ میں  وراثت کی تقسیم کس طرح ہوگی ۔
 اس مقام پر بھی ہمیں ایک بات سمجھ لینی چاہیئے  کہ معاشرے کی مختلف ضروریات  اور تقاضوں کے  پیش نظر  ، مرد اور عورت کی مختلف ذمہ داریاں ہیں ۔ عمومی طور پر ، گھر سے باہر کے معاملات مرد کے ذمہ ہوتےہیں  اور گھر کے اندر کے معاملات عورت کے ذمہ ۔
اس تقسیم کار کے حوالے سے اللہ کریم نے فرمایا ۔
 الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللَّهُ بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ۔۔  [٤:٣٤]
مرد عورتوں پر محافظ و منتظِم ہیں اس لئے کہ اللہ نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔۔ [طاہر القادری] 

یعنی مرد اور عورت دونوں کو بعض معاملات میں ، ایک دوسرے پر فضیلت حاصل ہے ۔ کس مقام پر مرد کو فضیلت ہے ، تو کہیں ، عورت کو ۔ یاد رہے کہ یہاں بات ، معاشرے کے نظم و نسق کو چلانے کے حوالے سے ہو رہی ہے ۔ البتہ ، مرد ، معاشرے میں ، عورتوں کی حفاظت اور ان کے معاملات کے انتظام کے ذمہ دار ہوتے ہیں ۔
مرد کو عورتوں پر ایک درجہ فوقیت حاصل ہے کہ  وہ اپنے یونٹ کا امیر ہوتا ہے ۔
یہ ہی  وجہ ہے کہ قرآن کریم میں عموماً مردوں ہی کو مخاطب کر کے احکامات دیے گئے ہیں ۔
اب ہم اس آیت مبارکہ پر تفکر و تدبر کرتے ہیں   جو ہمارے محترم دوست نے بطور سوال پیش کی ہے ۔
 ارشاد باری تعالٰی ہے  ۔
يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ ۖ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ ۚ فَإِن كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ ۖ وَإِن كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ ۚ وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِن كَانَ لَهُ وَلَدٌ ۚ فَإِن لَّمْ يَكُن لَّهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ ۚ فَإِن كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ ۚ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ ۗ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا ۚ فَرِيضَةً مِّنَ اللَّهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا [٤:١١] 
اللہ تمہیں تمہاری اولاد (کی وراثت) کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ لڑکے کے لئے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے، پھر اگر صرف لڑکیاں ہی ہوں (دو یا) دو سے زائد تو ان کے لئے اس ترکہ کا دو تہائی حصہ ہے، اور اگر وہ اکیلی ہو تو اس کے لئے آدھا ہے، اور مُورِث کے ماں باپ کے لئے ان دونوں میں سے ہر ایک کو ترکہ کا چھٹا حصہ (ملے گا) بشرطیکہ مُورِث کی کوئی اولاد ہو، پھر اگر اس میت (مُورِث) کی کوئی اولاد نہ ہو اور اس کے وارث صرف اس کے ماں باپ ہوں تو اس کی ماں کے لئے تہائی ہے (اور باقی سب باپ کا حصہ ہے)، پھر اگر مُورِث کے بھائی بہن ہوں تو اس کی ماں کے لئے چھٹا حصہ ہے (یہ تقسیم) اس وصیت (کے پورا کرنے) کے بعد جو اس نے کی ہو یا قرض (کی ادائیگی) کے بعد (ہو گی)، تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے تمہیں معلوم نہیں کہ فائدہ پہنچانے میں ان میں سے کون تمہارے قریب تر ہے، یہ (تقسیم) اللہ کی طرف سے فریضہ (یعنی مقرر) ہے، بیشک اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے،
 [طاہر القادری]
 آیت مبارکہ کا جو ترجمہ کیا گیا ہے ، اس میں وہی مشکل ہے ، جو ہمارے مترجمین سے مخصوص ہے ۔ ہمارے ان محترم مترجمین صاحبان ، نے قرآن کریم کے تراجم ، اپنے اپنے عقائد اور نظریات کو سامنے رکھ  کر کئے ۔اب جس مترجم صاحب کے ذہن میں پہلےہی سے ، عورت کا مقام مرد کے مقابلے میں آدھا ہو ، وہ بھلا کس طرح ، اس باطل عقیدہ کے خلاف کوئی ترجمہ کر سکتا ہے ۔
 سوال یہ ہے کہ اس آیت مبارکہ میں ، ۚ فَإِن كُنَّ نِسَآءً فَوْقَ ٱثْنَتَيْنِ ۔۔ کا ترجمہ صرف لڑکیاں کیسے کر دیا گیا ہے ؟
 آیت مبارکہ میں لفظ "نساء"  کہا گیا ہے ، عربی زبان میں بالغ عورت ، کو "نساء" کہا جاتا ہے ۔ لڑکی، کو  نساء کہتے ہی نہیں ہیں ۔
 مزید یہ کہ " فوق اثنتین " کا مطلب ، دو سے زیادہ ہوتا ہے ، نہ کہ صرف لڑکیاں یا عورتیں ۔  
 اس کا لفظی ترجمہ تو دو سے زائد عورتیں  ہے ۔ صرف لڑکیاں ہرگز نہیں ۔
 آیئے ہم عقل و فکر کے پیمانے پر اس آیت مبارکہ کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
 جب کوئی انسان مرتا ہے تو اس کے  ورثا کے حوالے سے کیا ممکنات ہوں گی ، اس پر غور کرتے ہیں ۔
متوفی کا شریک حیات
2۔متوفی کے ماں باپ ،  بہن  بھائی
3۔ متوفی کی اولاد
آیت بالا میں ، اگر متوفی کی اولاد ہو ، اور اس کے ماں باپ  بھی ہوں ، تو ماں اور باپ دونوں کا1/6، حصہ ہوگا ۔ غور فرمائیں ، حالانکہ باپ مرد ہے اور ماں عورت ۔۔ لیکن دونوں  ، برابر حصے کے حقدار ہوں گے ۔
 اگر اولاد نہ ہو ، اور ماں باپ ہی وارث ہوں ، تو ماں کا حصہ 1/3  اور باپ کا حصہ 2/3  ہوگا ۔
 اگر ماں باپ بھی ہوں ، اور متوفی کے بھائی  بھی ہوں ، تو ماں کا حصہ ، 1/6 ھوگا ، اور باقی متوفی کے والد اور بھائی میں برابر تقسیم ہوگا ۔
 اب ہم آتے ہیں ، اس کی اولاد کی جانب ۔ دیکھتے ہیں کہ اس کی کیا ممکنات ہو سکتی ہیں۔
1۔متوفی کے صرف بیٹے ہوں ، کوئی بیٹی نہ ہو
2۔ متوفی کی صرف بیٹیاں ہوں ، کوئی بیٹا نہ ہو
3۔متوفی کے کئی بیٹے بیٹیاں ہوں  ۔
4۔متوفی کا ایک بیٹا ہو ، اور  کئی بیٹیاں ہو ں۔
5۔متوفی کا ایک بیٹا ہو ، اورایک بیٹی ہو۔
6۔ متوفی کی صرف ایک بیٹی ہو ، یا صرف ایک بیٹا ہو ۔
 عدل عام کے اصول کے مطابق ، اگر متوفی کے صرف بیٹے ہیں ، یا صرف بیٹیاں ہیں ، تو اس میں کسی طرح کی کوئی کنفیوژن ہے ہی نہیں ۔دونوں صورتوں میں ، سب کے حصے برابر تقسیم ہوجائیں گے ۔ اگر متوفی کی اولاد صرف  ایک بیٹا ہو ، یا صرف ایک بیٹی ہو تو وہ ایک بیٹا ، یا بیٹی اس  پوری  وراثت کے  واحد حقدار ہوں گے ۔
 اگر متوفی کے کئے بیٹے اور بیٹیاں ہوں  ، تو اس صورتحال میں ، آیت بالا ہمیں یہ اصول دے رہی ہے کہ متوفی کے بیٹوں کا حصہ ،  بیٹیوں، سے دوگنا ہوگا ۔ یعنی اگر بیٹے کا حصہ دس ہزارہوگا ،تو بیٹیوں کو پانچ ہزار ملے گا ۔
 اگر متوفی کا ایک بیٹا ہو ، اور کئی بیٹیاں ہوں ، تو اکیلے بیٹے کو 1/3 ، ملے گا ۔ اور 2/3 ، سب بیٹیوں میں یکساں تقسیم ہوجائے گا ۔
 اگر متوفی کا ایک ہی بیٹا ہو ، اور ایک ہی بیٹی ہو ، تو متوفی کی وراثت ، دونوں بہن بھائیوں میں برابر تقسیم ہو جائے گی ۔
 نہات ہی واضح آیت ہے ۔ مگر صرف ایک غیر قرآنی نظریہ ، کہ لڑکی کا حصہ ، لڑکے سے آدھا ہوتا ہے ۔ اس آیت مبارکہ کی ایسی تاویل کی جاتی ہے جو عقل اور شعور اور شان خداوندی کے معیار پر پورا ہی نہیں اترتی ۔
 آیت بالا نہایت ہی سادہ ہے ۔ شرط صرف اس خود ساختہ ، غیر قرآنی عقیدے کو ذہن سے نکالناہے ، کہ عورت کا حصہ مرد سے نصف ہوتاہے ۔ جیسے حالات اور اس کے تقاضےہیں ، اس ہی طرح کی تقسیم کر دی گئی ہے ۔ آیت مبارکہ کے آخری الفاظ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
   "تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے تمہیں معلوم نہیں کہ فائدہ پہنچانے میں ان میں سے کون تمہارے قریب تر ہے، یہ (تقسیم) اللہ کی طرف سے فریضہ (یعنی مقرر) ہے، بیشک اللہ خوب جاننے والا بڑی حکمت والا ہے "

ہمیں یہ بتا رہے ہیں کہ ، یہ تقسیم خداوندی ، اس کی بصیرت اور حکمت کے مطابق ہے ، جس کا ہمیں علم ہی نہیں ہے ۔
چنانچہ آیت مبارکہ کا درست مفہوم یہ ہوگا کہ " اللہ متوفی کی اولاد کی وراثت کے ضمن میں یہ حکم دیتاہے کہ اگر متوفی کے کئی بیٹے اور بیٹیاں ہوں ، تو بھائی کا حصہ بہن کے مقابلے میں دگنا ہوگا ۔ اگر ایک بھائی اور کئی بہنیں ہوں ، تو بھائی کو 1/3 اور بہنوں کو ، 2/3 ملے گا ۔ لیکن اگر بھائی بھی ایک ہو ، اور بہن بھی ایک ہو تو دونوں کو برابر حصہ ملے گا ۔ یہ تقسیم ، متوفی کے ذمہ واجبات کی ادائیگی  ،اور اس کی وصیت کو پورا کرنے کے بعد بچنے والی وراثت میں ہوگی ۔
واللہ اعلم ۔  


No comments:

Post a Comment