اسلام و علیکم۔۔۔۔۔۔۔
کچھ دوست زمین کے کرایے کو جائز نہی سمجھتے ہیں۔ میں اس پر آپ دوستوں کی رائے جاننا چاہتا ہوں۔
اگر
مکان کا کرایہ لینا جائز نہی ہے تو ہم مزدور کو بھی تو کرائے پر لیتے ہیں
اس کے علاوہ اگر گاڑی کرائے پر دینا جائز ہے تو مکان کیوں نہی؟؟؟
جواب:
برادر محترم ملک صاحب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سلام و رحمت
سب سے پہلے تو اپنے اس عجز کا اعتراف کہ خاکسار قرآن کریم کا ادنیٰ سا طالب علم ہے ، جسے نہ تو اپنے عالم ہونے کا کوئی زعم ہے اور نہ ہی قرآن کریم پر کلی دسترس کا دعویٰ۔
ایک طالب علم کی حیثیت سے میں نے قرآن کریم سے کیا سمجھا ، اسے پیش کرتا ہوں ، اس اعتراف کے ساتھ کہ میری فہم کے غلط ہونے کے اُتنے ہی امکانات ہیں جتنے کے اسکے دُرست ہونے کے ۔
جو سوال آپ نے اُٹھایا ہے درحقیقت یہ ایک پنڈورا بکس ہے ۔
مجھے قوی اُمید ہے کہ میرے جواب کے بعد ، میرے موقف اور نقطہ نظر پر تنقید بھی ہوگی اور مخالفت بھی ۔
میں فیس بُک پر ہمیشہ "مکالمہ" کا قائل رہا ہوں "مباحثہ " کا نہیں ۔ مکالمہ کا مطمع نظر ہوتا ہے کہ " کیا دُرست ہے " جب کہ مباحثہ کی روح یہ ہوتی ہے کہ "کون دُرست ہے "۔
فہم قرآن کے ضمن میں ، خاکسار ہار جیت کے سفلی جذبہ سے بہت بُلند ہوکر حق اور سچ کو جاننے ، سمجھنے اور سیکھنے کی نیت سے مکالمہ کا قائل ہے ۔
میرے نقطہ نظر سے اختلاف ہر انسان کا حق ہے مجھے اُس پر کوئی اعتراض بھی نہیں البتہ اس بات کا خواہش مند ہوتا ہوں کہ یہ اختلاف اعلیٰ انسانی اقدار کے دائرے میں کیا جائے۔ دلیل و بُرہان کی رُو سے کیا جائے ۔ تحمل ، بُردباری، متانت اور باہمی احترام کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے ۔
سب سے پہلے تو اپنے اس عجز کا اعتراف کہ خاکسار قرآن کریم کا ادنیٰ سا طالب علم ہے ، جسے نہ تو اپنے عالم ہونے کا کوئی زعم ہے اور نہ ہی قرآن کریم پر کلی دسترس کا دعویٰ۔
ایک طالب علم کی حیثیت سے میں نے قرآن کریم سے کیا سمجھا ، اسے پیش کرتا ہوں ، اس اعتراف کے ساتھ کہ میری فہم کے غلط ہونے کے اُتنے ہی امکانات ہیں جتنے کے اسکے دُرست ہونے کے ۔
جو سوال آپ نے اُٹھایا ہے درحقیقت یہ ایک پنڈورا بکس ہے ۔
مجھے قوی اُمید ہے کہ میرے جواب کے بعد ، میرے موقف اور نقطہ نظر پر تنقید بھی ہوگی اور مخالفت بھی ۔
میں فیس بُک پر ہمیشہ "مکالمہ" کا قائل رہا ہوں "مباحثہ " کا نہیں ۔ مکالمہ کا مطمع نظر ہوتا ہے کہ " کیا دُرست ہے " جب کہ مباحثہ کی روح یہ ہوتی ہے کہ "کون دُرست ہے "۔
فہم قرآن کے ضمن میں ، خاکسار ہار جیت کے سفلی جذبہ سے بہت بُلند ہوکر حق اور سچ کو جاننے ، سمجھنے اور سیکھنے کی نیت سے مکالمہ کا قائل ہے ۔
میرے نقطہ نظر سے اختلاف ہر انسان کا حق ہے مجھے اُس پر کوئی اعتراض بھی نہیں البتہ اس بات کا خواہش مند ہوتا ہوں کہ یہ اختلاف اعلیٰ انسانی اقدار کے دائرے میں کیا جائے۔ دلیل و بُرہان کی رُو سے کیا جائے ۔ تحمل ، بُردباری، متانت اور باہمی احترام کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے ۔
جب بھی ہم قرآن کریم سے کچھ سیکھنے کی کوشش کریں گے ، اپنے ذہن میں اُٹھنے والے سوالات کے جوابات کے لئے اس کتاب عظیم سے رجوع کریں گے ، لا محالہ ہمارے سامنے اپنے سابقین کا فہم دین بھی آئے گا اور اُن کا نام بھی ۔
اس مقام پر میں اپنے موقف جس کا میں متعدد بار اعادہ کر چکا ہوں ، ایک بار پھر بیان کر دینا مناسب سمجھتا ہوں کہ میں اپنے اسلاف کے حوالے سے ہمیشہ حُسن ظن کا قائل ہوں ۔
میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے سابقین اکابرین کرام نے اپنے اپنے دور میں اپنی اپنی صلاحیتوں کی بُنیاد پر ، خلوص دل سے دین کو سمجھنے کی کوشش کی اور اپنی کاوشیں اس اعتراف کے ساتھ ہمارے سامنے پیش کیں کہ۔۔۔۔۔
"یہ ہمارا فہم دین ہے جو غلط بھی ہو سکتا ہے ۔ اگر کوئی ہمارے اس فہم سے متفق ہے تو بہت خوب اگر نہیں تو چاہیے کہ خود کتاب اللہ پر تفکر و تدبر کرے اور جو دُرست لگے اسے اختیار کرے "
ہمارے ان معزز اکابرین نے کبھی بھی خُود کو حرف آخرنہیں قرار دیا۔
چنانچہ ہمیں یہ حق حاصل ہے کہ اگرہم اپنے کسی سابق محترم ہستی کے فہم دین سے متفق نہ ہوں اور اس کے حق میں ہمارے پاس مناسب وجوہات اور دلائل بھی موجود ہوں تو ایسی صورت میں اپنے کسی سابق محترم ہستی کے فہم دین سے اختلاف کوئی بُری بات نہیں اور نہ ہی اس میں کسی کی تضحیک یا دل آزاری کا کوئی پہلو ہوتا ہے ۔
ایسی تنقید فہم قرآن کے ضمن میں ہمیشہ تعمیری نتائج پیدا کرتی ہے ۔
اس مقام پر میں اپنے موقف جس کا میں متعدد بار اعادہ کر چکا ہوں ، ایک بار پھر بیان کر دینا مناسب سمجھتا ہوں کہ میں اپنے اسلاف کے حوالے سے ہمیشہ حُسن ظن کا قائل ہوں ۔
میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے سابقین اکابرین کرام نے اپنے اپنے دور میں اپنی اپنی صلاحیتوں کی بُنیاد پر ، خلوص دل سے دین کو سمجھنے کی کوشش کی اور اپنی کاوشیں اس اعتراف کے ساتھ ہمارے سامنے پیش کیں کہ۔۔۔۔۔
"یہ ہمارا فہم دین ہے جو غلط بھی ہو سکتا ہے ۔ اگر کوئی ہمارے اس فہم سے متفق ہے تو بہت خوب اگر نہیں تو چاہیے کہ خود کتاب اللہ پر تفکر و تدبر کرے اور جو دُرست لگے اسے اختیار کرے "
ہمارے ان معزز اکابرین نے کبھی بھی خُود کو حرف آخرنہیں قرار دیا۔
چنانچہ ہمیں یہ حق حاصل ہے کہ اگرہم اپنے کسی سابق محترم ہستی کے فہم دین سے متفق نہ ہوں اور اس کے حق میں ہمارے پاس مناسب وجوہات اور دلائل بھی موجود ہوں تو ایسی صورت میں اپنے کسی سابق محترم ہستی کے فہم دین سے اختلاف کوئی بُری بات نہیں اور نہ ہی اس میں کسی کی تضحیک یا دل آزاری کا کوئی پہلو ہوتا ہے ۔
ایسی تنقید فہم قرآن کے ضمن میں ہمیشہ تعمیری نتائج پیدا کرتی ہے ۔
برادر محترم جو سوال آپ نے اُٹھایا ہے ، درحقیقت اس کا تعلق "ربوٰ" ، سے ہے ۔ ہماری یہاں اسے "سود" کہتے ہیں ۔
اس ضمن میں ایک موقف ہمارے ان اکابرین و محترمین کا ہے ، جنہیں ہم علماء کہتے ہیں ۔ اُمت کی غالب اکثریت ان علماء کی فہم کو دُرست سمجھتی ہے اور اس پر عمل کرتی ہے ۔
ہمارے ان اکابرین کےفہم دین کے مطابق ذاتی ملکیت ، جائیدار کا کرایہ ، زمین کی بٹائی میں حصہ، شراکتی کاروبار وغیرہ ، دُرست ہیں اور دین میں اس کی کوئی ممانعت نہیں ۔ البتہ ان بزرگان کے نزدیک اگر سرمایہ پر بطور منافع کوئی فکس رقم طے کی جائے تو وہ " سود" کہلائے گی ۔جو حرام ہے ۔
ہمارے ان محترمین کا یہ فہم دین اپنے آپ میں تضادات کا شکار ہے ۔
ایک طرف سرمایہ پر ایک طے شدہ منافع کو "سُود " کہا جا رہا ہے لیکن دوسری طرف اُس ہی سرمائے سے اگر کوئی گھر، دُکان ، بنگلہ خرید کر اسے ایک فکس کرایہ طے کر کے دیا جائے تو اسے جائز مانا جاتا ہے ۔
چونکہ ہمارے ان محترمین کے فہم دین کا ماخذ کتاب اللہ سے زیادہ کُتب روایات پر انحصار کرتا ہے اس لئے میں اس پر مزید کسی تبصرے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتا ۔
اس ضمن میں ایک موقف ہمارے ان اکابرین و محترمین کا ہے ، جنہیں ہم علماء کہتے ہیں ۔ اُمت کی غالب اکثریت ان علماء کی فہم کو دُرست سمجھتی ہے اور اس پر عمل کرتی ہے ۔
ہمارے ان اکابرین کےفہم دین کے مطابق ذاتی ملکیت ، جائیدار کا کرایہ ، زمین کی بٹائی میں حصہ، شراکتی کاروبار وغیرہ ، دُرست ہیں اور دین میں اس کی کوئی ممانعت نہیں ۔ البتہ ان بزرگان کے نزدیک اگر سرمایہ پر بطور منافع کوئی فکس رقم طے کی جائے تو وہ " سود" کہلائے گی ۔جو حرام ہے ۔
ہمارے ان محترمین کا یہ فہم دین اپنے آپ میں تضادات کا شکار ہے ۔
ایک طرف سرمایہ پر ایک طے شدہ منافع کو "سُود " کہا جا رہا ہے لیکن دوسری طرف اُس ہی سرمائے سے اگر کوئی گھر، دُکان ، بنگلہ خرید کر اسے ایک فکس کرایہ طے کر کے دیا جائے تو اسے جائز مانا جاتا ہے ۔
چونکہ ہمارے ان محترمین کے فہم دین کا ماخذ کتاب اللہ سے زیادہ کُتب روایات پر انحصار کرتا ہے اس لئے میں اس پر مزید کسی تبصرے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتا ۔
دین کے معاشی نظام کے حوالے سے دوسرا موقف اُستاد محترم پرویز علیہ رحمہ کا ہے ۔جسے عموماً قرآن کریم کے معاشی نظام کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ۔
اُن کے فہم دین کے مطابق "ذاتی ملکیت " شجر ممنوعہ ہے ۔ معاوضہ صرف محنت کا ہے ۔
چنانچہ پرویز علیہ رحمہ کے نزدیک شراکتی کاروبار ، جائیدار کا کرایہ ، زمین کی بٹائی وغیرہ سب کا سب " ربوٰ" ہے ۔ جو مطلق حرام ہے ۔اللہ اوراس کے رسول سے جنگ ہے ۔
قرآن کریم کے معاشی نظا م کے ضمن میں خاکسار کی ایک مکمل تصنیف " رزق کریم " برسوں پہلے شائع ہو چکی ہے ۔
میں نے اپنی کتاب میں اس موضوع پر تفصیلاً اپنا موقف پیش کیا ہے ۔ قرآنی آیات اور دلائل سے اسلام کے معاشی نظام کے ضمن میں پرویز علیہ رحمہ کے عقائید و نظریات پر بھر پور جرح کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ جو کچھ وہ پیش کر رہے ہیں وہ درحقیقت ، شوشلزم کو مشرف بہ قرآن کرنے کی دانستہ یا غیر دانستہ سعی ہے ۔
چنانچہ احباب سے درخواست ہے کہ اگر مناسب سمجھیں تو کتاب مذکورہ کا مطالعہ فرمائیں ۔
اُن کے فہم دین کے مطابق "ذاتی ملکیت " شجر ممنوعہ ہے ۔ معاوضہ صرف محنت کا ہے ۔
چنانچہ پرویز علیہ رحمہ کے نزدیک شراکتی کاروبار ، جائیدار کا کرایہ ، زمین کی بٹائی وغیرہ سب کا سب " ربوٰ" ہے ۔ جو مطلق حرام ہے ۔اللہ اوراس کے رسول سے جنگ ہے ۔
قرآن کریم کے معاشی نظا م کے ضمن میں خاکسار کی ایک مکمل تصنیف " رزق کریم " برسوں پہلے شائع ہو چکی ہے ۔
میں نے اپنی کتاب میں اس موضوع پر تفصیلاً اپنا موقف پیش کیا ہے ۔ قرآنی آیات اور دلائل سے اسلام کے معاشی نظام کے ضمن میں پرویز علیہ رحمہ کے عقائید و نظریات پر بھر پور جرح کی ہے اور ثابت کیا ہے کہ جو کچھ وہ پیش کر رہے ہیں وہ درحقیقت ، شوشلزم کو مشرف بہ قرآن کرنے کی دانستہ یا غیر دانستہ سعی ہے ۔
چنانچہ احباب سے درخواست ہے کہ اگر مناسب سمجھیں تو کتاب مذکورہ کا مطالعہ فرمائیں ۔
مزید کچھ کہنے سے قبل میں اس بات کا اعتراف کرنا لازم سمجھتا ہوں کہ پرویز علیہ رحمہ ایک عظیم نادرروزگار ہستی تھے ۔ وہ قرآن کریم کے مخلص طالب علم تھے ۔
خاکسار کو ان سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔زندگی کے کچھ سال ان کی صحبت میں گزارنے کی سعادت بھی حاصل ہے ۔
میرے دل میں اُن کے لئے عقیدت اور محبت کے حقیقی جذبات آج بھی پوری شدت سے موجود ہیں ۔
البتہ بحیثیت ایک انسان ، اُن کے بھی کچھ مخصوص نظریات تھے ۔
وہ بھی اپنے اردگر کے واقعات اور رحجانات سے متاثر ہوتے تھے ۔ اور یہ ہی مخصوص نظریات ، واقعات اور رُحجانات کبھی کبھی کچھ مقامات پر قرآن کریم کی خالص تعلیم پر حاوی نظر آتے تھے ۔
یہ بشری کمزوری ہر انسان میں موجود ہوتی ہے ۔
قرآن کریم کی درست فہم کے ضمن میں سوائے حضرات انبیاء علیہ سلام ، کے ہم جیسے عام انسانوں سے اس طرح کے سہو بعید از قیاس ہر گز نہیں ہوسکتے ۔
خاکسار کو ان سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔زندگی کے کچھ سال ان کی صحبت میں گزارنے کی سعادت بھی حاصل ہے ۔
میرے دل میں اُن کے لئے عقیدت اور محبت کے حقیقی جذبات آج بھی پوری شدت سے موجود ہیں ۔
البتہ بحیثیت ایک انسان ، اُن کے بھی کچھ مخصوص نظریات تھے ۔
وہ بھی اپنے اردگر کے واقعات اور رحجانات سے متاثر ہوتے تھے ۔ اور یہ ہی مخصوص نظریات ، واقعات اور رُحجانات کبھی کبھی کچھ مقامات پر قرآن کریم کی خالص تعلیم پر حاوی نظر آتے تھے ۔
یہ بشری کمزوری ہر انسان میں موجود ہوتی ہے ۔
قرآن کریم کی درست فہم کے ضمن میں سوائے حضرات انبیاء علیہ سلام ، کے ہم جیسے عام انسانوں سے اس طرح کے سہو بعید از قیاس ہر گز نہیں ہوسکتے ۔
آئیے قرآن کریم سے اس ضمن میں کچھ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
لیکن اس سے پہلے ایک بُنیادی غلطی کی اصلاح لازم ہے ۔ ایک شئے ہے قرض جب کہ دوسری شئے ہے سرمایہ کاری ۔ قرض کا لین دین ہمیشہ بحالت مجبوری کیا جاتا ہے ۔ جب کہ سرمایہ کاری کا مقصد باہمی رضامندی سے ، زیادہ بہتر مواقع روزگار اور خوش حالی کا حصول ہوتا ہے ۔
اگر ہم غور کریں تو دور نزول قرآن میں ہمیں نہ تو کسی بینک کا تصور ملتا ہے اور نہ ہی انشورنس کمپنی کا کوئی وجود ۔
چونکہ مکہ مکرمہ وادی غیر ذی زراع تھی ، اس لئے بٹائی پر زمین دینے کا بھی کوئی تصور نہ تھا ۔
البتہ تین صورتیں موجود تھیں ۔ اول شراکتی کاروبار ، دوئم جائیداد کا کرایہ سوئم قرض کا لین دین اور اس پر " ربوٰ"۔۔۔۔۔۔۔۔
چنانچہ " ربوٰ" کے ضمن میں نازل شدہ آیات قرآنی کو ان حقائق کی روشنی میں بھی سمجھنے کی کوشش کی جانی چاہیے ۔
لیکن اس سے پہلے ایک بُنیادی غلطی کی اصلاح لازم ہے ۔ ایک شئے ہے قرض جب کہ دوسری شئے ہے سرمایہ کاری ۔ قرض کا لین دین ہمیشہ بحالت مجبوری کیا جاتا ہے ۔ جب کہ سرمایہ کاری کا مقصد باہمی رضامندی سے ، زیادہ بہتر مواقع روزگار اور خوش حالی کا حصول ہوتا ہے ۔
اگر ہم غور کریں تو دور نزول قرآن میں ہمیں نہ تو کسی بینک کا تصور ملتا ہے اور نہ ہی انشورنس کمپنی کا کوئی وجود ۔
چونکہ مکہ مکرمہ وادی غیر ذی زراع تھی ، اس لئے بٹائی پر زمین دینے کا بھی کوئی تصور نہ تھا ۔
البتہ تین صورتیں موجود تھیں ۔ اول شراکتی کاروبار ، دوئم جائیداد کا کرایہ سوئم قرض کا لین دین اور اس پر " ربوٰ"۔۔۔۔۔۔۔۔
چنانچہ " ربوٰ" کے ضمن میں نازل شدہ آیات قرآنی کو ان حقائق کی روشنی میں بھی سمجھنے کی کوشش کی جانی چاہیے ۔
پرویز علیہ رحمہ کے نزدیک معاوضہ صرف محنت کا ہے سرمائے کا نہیں ۔ ان کے خیال کے مطابق سرمائے پر کوئی بھی منفعت " ربوٰ" کے زُمرے میں آتی ہے ۔چنانچہ پرویز علیہ رحمہ کے نزدیک شراکتی کاروبار بھی اس ہی زُمرے میں آتے ہیں ۔
اس سوچ کے بطلان کے لئے اس سے بڑی کسی دلیل کی ضرورت ہی نہیں رہتی جب ہم دیکھتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ، خود اُم المومنین حضرت خدیجہ رض ، کے سرمایہ سے تجارت فرمایا کرتے تھے جس سے حاصل منافع سے خود بھی اپنی ضروریات کو پورا کرتے تھے اور اُم المومنین کو بھی حصہ دیا کرتے تھے ۔
اُن تمام مسلمین کہ جو استطاعت رکھتے ہیں قرآن کریم ذی الحج کے مہینہ میں حج کے لئے مکہ مکرمہ آنے کا حکم دیتا ہے ۔ یہ عمل ہزاروں سال سے جاری و ساری ہے ۔ وہ لوگ جو دور دراز سے حج کی ادائیگی کے لئے مکہ مکرمہ آتے تھے ، وہ وہاں کے مقامی افراد سے مکان کرایہ پر لیتے تھے ۔ آج بھی ایسا ہی ہوتا ہے ۔
البتہ دور نبوی میں تو شاید بہت شدید ، بلکہ خود ہمارے بچپن کے دور میں ہم نے خود دیکھا ہے ، کس طرح ایک مجبور انسان اپنی بیٹی کی شادی ، گھر کے کسی فرد کی بیماری کے علاج کے لئے مہاجن سے کچھ رقم بطور قرض لیتا تھا اوراس پر سود کی ادائیگی کرتا تھا ۔ اور ساری عمر اصل زر ادا نہیں کر پاتا تھا ۔ قرآن کریم نے واضح الفاظ میں اس عمل کو " ربوٰ" کہا ہے ۔
اس سوچ کے بطلان کے لئے اس سے بڑی کسی دلیل کی ضرورت ہی نہیں رہتی جب ہم دیکھتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ ، خود اُم المومنین حضرت خدیجہ رض ، کے سرمایہ سے تجارت فرمایا کرتے تھے جس سے حاصل منافع سے خود بھی اپنی ضروریات کو پورا کرتے تھے اور اُم المومنین کو بھی حصہ دیا کرتے تھے ۔
اُن تمام مسلمین کہ جو استطاعت رکھتے ہیں قرآن کریم ذی الحج کے مہینہ میں حج کے لئے مکہ مکرمہ آنے کا حکم دیتا ہے ۔ یہ عمل ہزاروں سال سے جاری و ساری ہے ۔ وہ لوگ جو دور دراز سے حج کی ادائیگی کے لئے مکہ مکرمہ آتے تھے ، وہ وہاں کے مقامی افراد سے مکان کرایہ پر لیتے تھے ۔ آج بھی ایسا ہی ہوتا ہے ۔
البتہ دور نبوی میں تو شاید بہت شدید ، بلکہ خود ہمارے بچپن کے دور میں ہم نے خود دیکھا ہے ، کس طرح ایک مجبور انسان اپنی بیٹی کی شادی ، گھر کے کسی فرد کی بیماری کے علاج کے لئے مہاجن سے کچھ رقم بطور قرض لیتا تھا اوراس پر سود کی ادائیگی کرتا تھا ۔ اور ساری عمر اصل زر ادا نہیں کر پاتا تھا ۔ قرآن کریم نے واضح الفاظ میں اس عمل کو " ربوٰ" کہا ہے ۔
اس ضمن میں قرآن کریم کی چند آیات مبارکہ ساری کنفیوژن کو نکھار کر سامنے لے آتی ہیں۔ شرط صرف اتنی ہے کہ ان آیات مبارکہ پر کسی پیشگی نظریہ یا عقیدہ کے بغیر تفکر و تدبر کیا جائے ۔
اس طرح کی دوٹوک اور واضح آیات کی موجودگی میں ، ایسے نظریات کا پرچار کرنا کہ ذاتی ملکیت ممنوع ہے یا معاوضہ صرف محنت کا ہے ، سوائے انا پرستی کے کیا ہے؟؟؟
ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔
الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا ۗ وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا ۚ فَمَن جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّهِ فَانتَهَىٰ فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ ۖ وَمَنْ عَادَ فَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ [٢:٢٧٥]يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ ۗ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ [٢:٢٧٦]
مگر جو لوگ سود کھاتے ہیں، اُ ن کا حال اُس شخص کا سا ہوتا ہے، جسے شیطان نے چھو کر باؤلا کر دیا ہو اور اس حالت میں اُن کے مبتلا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں: "تجارت بھی تو آخر سود ہی جیسی چیز ہے"، حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام لہٰذا جس شخص کو اس کے رب کی طرف سے یہ نصیحت پہنچے اور آئندہ کے لیے وہ سود خوری سے باز آ جائے، تو جو کچھ وہ پہلے کھا چکا، سو کھا چکا، اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے اور جو اِس حکم کے بعد پھر اسی حرکت کا اعادہ کرے، وہ جہنمی ہے، جہاں وہ ہمیشہ رہے گا [ابوالاعلی مودودی]
اللہ سود کا مٹھ مار دیتا ہے اور صدقات کو نشو و نما دیتا ہے اور اللہ کسی ناشکرے بد عمل انسان کو پسند نہیں کرتا [ابوالاعلی مودودی]
مزید ارشاد فرمایا ۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ [٢:٢٧٨]فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَإِن تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ [٢:٢٧٩]وَإِن كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَىٰ مَيْسَرَةٍ ۚ وَأَن تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ [٢:٢٨٠]
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، خدا سے ڈرو اور جو کچھ تمہارا سود لوگوں پر باقی رہ گیا ہے، اسے چھوڑ دو، اگر واقعی تم ایمان لائے ہو [ابوالاعلی مودودی]
لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا، تو آگاہ ہو جاؤ کہ اللہ اور اسکے رسول کی طرف سے تمہارے خلاف اعلان جنگ ہے اب بھی توبہ کر لو (اور سود چھوڑ دو) تو اپنا اصل سرمایہ لینے کے تم حق دار ہو نہ تم ظلم کرو، نہ تم پر ظلم کیا جائے [ابوالاعلی مودودی] تمہارا قرض دار تنگ دست ہو، تو ہاتھ کھلنے تک اُسے مہلت دو، اور جو صدقہ کر دو، تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے، اگر تم سمجھو [ابوالاعلی مودودی]
اس طرح کی دوٹوک اور واضح آیات کی موجودگی میں ، ایسے نظریات کا پرچار کرنا کہ ذاتی ملکیت ممنوع ہے یا معاوضہ صرف محنت کا ہے ، سوائے انا پرستی کے کیا ہے؟؟؟
ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔
الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا ۗ وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا ۚ فَمَن جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّهِ فَانتَهَىٰ فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ ۖ وَمَنْ عَادَ فَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ [٢:٢٧٥]يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ ۗ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ [٢:٢٧٦]
مگر جو لوگ سود کھاتے ہیں، اُ ن کا حال اُس شخص کا سا ہوتا ہے، جسے شیطان نے چھو کر باؤلا کر دیا ہو اور اس حالت میں اُن کے مبتلا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں: "تجارت بھی تو آخر سود ہی جیسی چیز ہے"، حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام لہٰذا جس شخص کو اس کے رب کی طرف سے یہ نصیحت پہنچے اور آئندہ کے لیے وہ سود خوری سے باز آ جائے، تو جو کچھ وہ پہلے کھا چکا، سو کھا چکا، اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے اور جو اِس حکم کے بعد پھر اسی حرکت کا اعادہ کرے، وہ جہنمی ہے، جہاں وہ ہمیشہ رہے گا [ابوالاعلی مودودی]
اللہ سود کا مٹھ مار دیتا ہے اور صدقات کو نشو و نما دیتا ہے اور اللہ کسی ناشکرے بد عمل انسان کو پسند نہیں کرتا [ابوالاعلی مودودی]
مزید ارشاد فرمایا ۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ [٢:٢٧٨]فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَإِن تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ [٢:٢٧٩]وَإِن كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَىٰ مَيْسَرَةٍ ۚ وَأَن تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ [٢:٢٨٠]
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، خدا سے ڈرو اور جو کچھ تمہارا سود لوگوں پر باقی رہ گیا ہے، اسے چھوڑ دو، اگر واقعی تم ایمان لائے ہو [ابوالاعلی مودودی]
لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا، تو آگاہ ہو جاؤ کہ اللہ اور اسکے رسول کی طرف سے تمہارے خلاف اعلان جنگ ہے اب بھی توبہ کر لو (اور سود چھوڑ دو) تو اپنا اصل سرمایہ لینے کے تم حق دار ہو نہ تم ظلم کرو، نہ تم پر ظلم کیا جائے [ابوالاعلی مودودی] تمہارا قرض دار تنگ دست ہو، تو ہاتھ کھلنے تک اُسے مہلت دو، اور جو صدقہ کر دو، تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے، اگر تم سمجھو [ابوالاعلی مودودی]
ادنیٰ سے تدبر سے چند بُنیادی حقائق نکھر کر سامنے آ جاتے ہیں ۔
1۔ " ربوٰ" کے مقابل صدقات کو بیان کیا گیا ہے ۔
کتنا واضح بیان ہے ۔
صدقات وہ ہوتے ہیں جو بغیر کسی اکراہ ، زور و زبردستی کے اپنے قلب کی مکمل رضامندی سے رضاکارانہ طور پر دیئے جاتے ہیں ۔
اس کے مقابل " ربوٰ" لایا گیا ہے ، یعنی ایسی ادائیگی جس میں اکراہ ہو، زور و زبردستی ہو ۔ خوش دلی کے بجائے مجبور ہو کر دیا جائے ۔
غور فرمائیں ۔ کس طرح ایک لفظ" صدقہ" کو " ربوٰ" کے مقابل لا کر " ربوٰ" کا حقیقی مفہوم واضح کر دیا گیا ۔
چنانچہ قرآن کریم کی رُو سے ایسی کوئی بھی صورتحال جہاں انسان کو مجبور کر دیا جائے اور اس کی مجبوری کا فائدہ اُٹھا کر اس سے مالی منفعت حاصل کی جائے ، وہ سارا " ربوٰ" ہے ۔
1۔ " ربوٰ" کے مقابل صدقات کو بیان کیا گیا ہے ۔
کتنا واضح بیان ہے ۔
صدقات وہ ہوتے ہیں جو بغیر کسی اکراہ ، زور و زبردستی کے اپنے قلب کی مکمل رضامندی سے رضاکارانہ طور پر دیئے جاتے ہیں ۔
اس کے مقابل " ربوٰ" لایا گیا ہے ، یعنی ایسی ادائیگی جس میں اکراہ ہو، زور و زبردستی ہو ۔ خوش دلی کے بجائے مجبور ہو کر دیا جائے ۔
غور فرمائیں ۔ کس طرح ایک لفظ" صدقہ" کو " ربوٰ" کے مقابل لا کر " ربوٰ" کا حقیقی مفہوم واضح کر دیا گیا ۔
چنانچہ قرآن کریم کی رُو سے ایسی کوئی بھی صورتحال جہاں انسان کو مجبور کر دیا جائے اور اس کی مجبوری کا فائدہ اُٹھا کر اس سے مالی منفعت حاصل کی جائے ، وہ سارا " ربوٰ" ہے ۔
2 ۔ فرمایا گیا کہ تجارت کو حلال کیا گیا ہے جب کہ " ربوٰ" کو حرام ۔
نیز وہ لوگ جنہوں نے دوسروں کو سود پر رقم دی ہوئی ہے ان سے کہا جا رہا ہے کہ تم سود لینا چھوڑ دو ۔ پہلے جو لے چکے لے چُکے اب تمہارے لئے صرف تمہارا " راس المال" ہی جائز ہے ۔
بہت غور فرمائیں ، بار بار غور فرمائیں ۔
یہ سورہ بقرہ کی آیات مبارکہ ہیں ۔
یہ مدنی سورہ ہے ۔ یہ وہ دور ہے جب ایک اسلامی ریاست قائم ہو چکی ہے ۔ نبی اکرم ﷺ اور ان کے رفقاء اس ریاست میں غالب آ چکے ہیں ۔ اب اس ریاست کے بُنیادی خدوخال ، قواعد و ضوابط ، قوانین وغیرہ کی تعلیم بذریعہ وحی عطا فرمائی جا رہی ہے ۔
اس مقام پر دو باتوں کو حلال بیان کیا جا رہا ہے ۔ تجارت اور لوگوں کا " راس المال" ۔
ذرا غور فرمائیں ، دُنیا کا وہ کون سا کاروبار ہے جو بغیر سرمایہ کے کیا جا سکتا ہے ؟؟
اگر لوگ ذاتی ملکیت کا حق ہی نہیں رکھتے ، تو وہ تجارت کے لئے سرمایہ کہاں سے لائیں گے ؟؟؟
اور پھر لوگوں کو ان کے " راس المال" کا مالک مان کر تو بات ہی ختم کر دی گئی۔
اگر واقعی قرآن کا معاشی نظا م یہ ہی ہوتا کہ کوئی ذاتی ملکیت رکھ ہی نہیں سکتا تو اس مقام پر تو باقائدہ حکم آ جانا چاہیے تھا کہ جناب آپ سود تو خیر کیا لیں گے ، یہ جو اضافی مال ، سرمایہ جو آپ نے دوسروں کو سود پر دیا ہے ، وہ بھی بحق ریاست ضبط کیا جاتا ہے ۔
لیکن ایسا نہیں کہا گیا بلکہ ایک جملہ میں سارے کا سارا معاملہ ہی حل کر دیا گیا کہا " اپنا اصل سرمایہ لینے کے تم حق دار ہو نہ تم ظلم کرو، نہ تم پر ظلم کیا جائے" ۔
بخُدا ، کبھی کبھی میں اس سوچ میں پڑ جاتا ہوں کہ لوگ کس طرح اپنے خود ساختہ نظریات اور عقائید کو سند دینے کے لئے آیات قرآنی کا استحصال کرتے ہیں ۔ کس طرح مفہوم کے نام پر بات کو کچھ سے بنا دیتے ہیں ۔
سچ کہا تھا علامہ اقبال علیہ رحمہ نے۔۔۔۔
احکام تیرے حق ہیں مگر اپنے مفسر
تاویل سے قرآن کو بنا سکتے ہیں پاژند
قرآن کہہ رہا ہے کہ جس طرح تم لوگوں سے " ربوٰ" وصول کرتے ہو وہ " ظلم " ہے بلکل اس ہی طرح اگر تمہارا " راس المال" تمہیں نہ ملے تو یہ بھی ویسا ہی ظلم ہے ۔
لیکن ہمارے مفسر ، اس ہی قرآن سے فتوے صادر فرما رہے ہیں کہ جناب آپ کے پاس زائد از ضرورت ایک روپیہ بھی نہیں رہ سکتا ۔ سب کا سب ریاست کا ہے ۔ اگر خودسے نہیں دو گے تو زبردستی وصول کر لیا جائے گا ۔
قرآن " ربوٰ" کے مقابل " صدقات" کا لفظ لا کر واضح کر رہا ہے کہ کسی سے بھی اس کی مرضی کے بغیر زبردستی مالی منفعت " ربوٰ" ہے جو حرام ہے ۔ یہ کہتے ہیں کہ جناب ہم تو زبردستی لے لیں گے ۔
نیز وہ لوگ جنہوں نے دوسروں کو سود پر رقم دی ہوئی ہے ان سے کہا جا رہا ہے کہ تم سود لینا چھوڑ دو ۔ پہلے جو لے چکے لے چُکے اب تمہارے لئے صرف تمہارا " راس المال" ہی جائز ہے ۔
بہت غور فرمائیں ، بار بار غور فرمائیں ۔
یہ سورہ بقرہ کی آیات مبارکہ ہیں ۔
یہ مدنی سورہ ہے ۔ یہ وہ دور ہے جب ایک اسلامی ریاست قائم ہو چکی ہے ۔ نبی اکرم ﷺ اور ان کے رفقاء اس ریاست میں غالب آ چکے ہیں ۔ اب اس ریاست کے بُنیادی خدوخال ، قواعد و ضوابط ، قوانین وغیرہ کی تعلیم بذریعہ وحی عطا فرمائی جا رہی ہے ۔
اس مقام پر دو باتوں کو حلال بیان کیا جا رہا ہے ۔ تجارت اور لوگوں کا " راس المال" ۔
ذرا غور فرمائیں ، دُنیا کا وہ کون سا کاروبار ہے جو بغیر سرمایہ کے کیا جا سکتا ہے ؟؟
اگر لوگ ذاتی ملکیت کا حق ہی نہیں رکھتے ، تو وہ تجارت کے لئے سرمایہ کہاں سے لائیں گے ؟؟؟
اور پھر لوگوں کو ان کے " راس المال" کا مالک مان کر تو بات ہی ختم کر دی گئی۔
اگر واقعی قرآن کا معاشی نظا م یہ ہی ہوتا کہ کوئی ذاتی ملکیت رکھ ہی نہیں سکتا تو اس مقام پر تو باقائدہ حکم آ جانا چاہیے تھا کہ جناب آپ سود تو خیر کیا لیں گے ، یہ جو اضافی مال ، سرمایہ جو آپ نے دوسروں کو سود پر دیا ہے ، وہ بھی بحق ریاست ضبط کیا جاتا ہے ۔
لیکن ایسا نہیں کہا گیا بلکہ ایک جملہ میں سارے کا سارا معاملہ ہی حل کر دیا گیا کہا " اپنا اصل سرمایہ لینے کے تم حق دار ہو نہ تم ظلم کرو، نہ تم پر ظلم کیا جائے" ۔
بخُدا ، کبھی کبھی میں اس سوچ میں پڑ جاتا ہوں کہ لوگ کس طرح اپنے خود ساختہ نظریات اور عقائید کو سند دینے کے لئے آیات قرآنی کا استحصال کرتے ہیں ۔ کس طرح مفہوم کے نام پر بات کو کچھ سے بنا دیتے ہیں ۔
سچ کہا تھا علامہ اقبال علیہ رحمہ نے۔۔۔۔
احکام تیرے حق ہیں مگر اپنے مفسر
تاویل سے قرآن کو بنا سکتے ہیں پاژند
قرآن کہہ رہا ہے کہ جس طرح تم لوگوں سے " ربوٰ" وصول کرتے ہو وہ " ظلم " ہے بلکل اس ہی طرح اگر تمہارا " راس المال" تمہیں نہ ملے تو یہ بھی ویسا ہی ظلم ہے ۔
لیکن ہمارے مفسر ، اس ہی قرآن سے فتوے صادر فرما رہے ہیں کہ جناب آپ کے پاس زائد از ضرورت ایک روپیہ بھی نہیں رہ سکتا ۔ سب کا سب ریاست کا ہے ۔ اگر خودسے نہیں دو گے تو زبردستی وصول کر لیا جائے گا ۔
قرآن " ربوٰ" کے مقابل " صدقات" کا لفظ لا کر واضح کر رہا ہے کہ کسی سے بھی اس کی مرضی کے بغیر زبردستی مالی منفعت " ربوٰ" ہے جو حرام ہے ۔ یہ کہتے ہیں کہ جناب ہم تو زبردستی لے لیں گے ۔
3 ۔ ان آیات کا پس منظر قرض کا لین دین ہے جس پر " ربوٰ" وصول کیا جا رہا ہے ۔
یہ نہ تو کوئی سرمایہ کاری ہے نہ شراکتی کاروبار ۔
چنانچہ حکم دیا جا رہا ہے اپنے مقروض سے سود کی وصولی فوری بند کر دو ۔ صرف راس المال تمہارا حق ہے جو تمہیں ملنا چاہیے لیکن اگر تمہارا مقروض تنگ دست ہے تو اسے مہلت دو ۔
باوجود اس کے کہ " راس المال " تمہارا حق ہے ، اگر تم اس قرض کو صدقہ میں بدل دو تو یہ تمہارے حق میں زیادہ بہتر ہے اگر تم اس اجر پر غور کرو جو تمہارے اس عمل کے نتیجے میں اللہ کریم تمہیں عطا فرمائیں گے ۔
یہ ہیں وہ آیات مبارکہ جو " ربوٰ" کی حقیقت کو واضح کر دیتی ہیں ۔ کوئی ابہام نہیں ہے ۔
میرے نقطہ نظر کے مطابق انسان کی کسی مجبوری کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اس سے ، اس کی مرضی کے خلاف کسی بھی طرح کی مالی منفعت " ربوٰ" کے زُمرے میں آتی ہے ۔
چنانچہ اگر کوئی عبد مومن ، اپنی محنت سے ، حلال طریقے سے ، کوشش کرے، کسی کا حق نہ مارے ، کسی کے ساتھ زیادتی نہ کرے اور اللہ کریم اسے کشادہ رزق حلال سے نوازیں تو وہ انسان اپنی محنت کی اس کمائی کے ایک ایک روپے کا حقدار اور مالک ہے ۔
اسے یہ حق حاصل ہے کہ اپنے مال کو اللہ کریم کی مقرر کردہ حدود و قیود میں رہتے ہوئے جس طرح چاہے استعمال کرے ۔
اپنی محنت کی کمائی سے انسان چاہے کاروبارکرے ، فیکٹری لگائے ، زمین خریدے ، کوئی قدغن نہیں ۔ نہ ہی اپنی محنت کی کمائی سے بنی ہوئی جائیداد کا کرایہ وصول کرنے پر کوئی پابندی ہے ۔
اللہ کریم سے دست بہ دُعا ہوں کہ وہ ہم سب کو دین خالص کو سیکھنے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
سلامت رہیں
یہ نہ تو کوئی سرمایہ کاری ہے نہ شراکتی کاروبار ۔
چنانچہ حکم دیا جا رہا ہے اپنے مقروض سے سود کی وصولی فوری بند کر دو ۔ صرف راس المال تمہارا حق ہے جو تمہیں ملنا چاہیے لیکن اگر تمہارا مقروض تنگ دست ہے تو اسے مہلت دو ۔
باوجود اس کے کہ " راس المال " تمہارا حق ہے ، اگر تم اس قرض کو صدقہ میں بدل دو تو یہ تمہارے حق میں زیادہ بہتر ہے اگر تم اس اجر پر غور کرو جو تمہارے اس عمل کے نتیجے میں اللہ کریم تمہیں عطا فرمائیں گے ۔
یہ ہیں وہ آیات مبارکہ جو " ربوٰ" کی حقیقت کو واضح کر دیتی ہیں ۔ کوئی ابہام نہیں ہے ۔
میرے نقطہ نظر کے مطابق انسان کی کسی مجبوری کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اس سے ، اس کی مرضی کے خلاف کسی بھی طرح کی مالی منفعت " ربوٰ" کے زُمرے میں آتی ہے ۔
چنانچہ اگر کوئی عبد مومن ، اپنی محنت سے ، حلال طریقے سے ، کوشش کرے، کسی کا حق نہ مارے ، کسی کے ساتھ زیادتی نہ کرے اور اللہ کریم اسے کشادہ رزق حلال سے نوازیں تو وہ انسان اپنی محنت کی اس کمائی کے ایک ایک روپے کا حقدار اور مالک ہے ۔
اسے یہ حق حاصل ہے کہ اپنے مال کو اللہ کریم کی مقرر کردہ حدود و قیود میں رہتے ہوئے جس طرح چاہے استعمال کرے ۔
اپنی محنت کی کمائی سے انسان چاہے کاروبارکرے ، فیکٹری لگائے ، زمین خریدے ، کوئی قدغن نہیں ۔ نہ ہی اپنی محنت کی کمائی سے بنی ہوئی جائیداد کا کرایہ وصول کرنے پر کوئی پابندی ہے ۔
اللہ کریم سے دست بہ دُعا ہوں کہ وہ ہم سب کو دین خالص کو سیکھنے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
سلامت رہیں
جیسا کہ اپنے مضمون کی ابتداء میں ایک بات بہت زور دے کر واضح کی ہے کہ ایک شئے ہوتی ہے جسے ہم قرض کہتے ہیں جب کہ دوسری شئے ہے سرمایہ کاری ۔
پرائز بانڈ یا وہ دیگر تمام بچت کی اسکیمیں ، جو حکومت وقت جاری کرتی ہے اس میں سرمایہ کاری میرے نقطہ نظر کے مطابق بلکل جائز ہے اور اس کا منافع بھی ۔
بلکل اس ہی طرح انشورنش پالیسی خریدنا بھی میرے نقطہ نظر کے مطابق درست ہے ۔
البتہ شیڈول بینکوں کی اسکیموں میں سرمایہ کاری اس وجہ سے درست نہیں کہ ایک تو وہ ریاست کی طرف سے نہیں ہوتیں اور نہ ہی ان کی کوئی گارنٹی ہوتی ہے ۔ مزید یہ شیڈول بینک اس سرمایہ کاری کو پرسنل لون اور کریڈٹ کارڈ کی صورت میں سود پر آگے بڑھا دیتے ہیں ۔
اب اگر پرسنل لون لینے والا یا کریڈٹ کارڈ سے فائدہ اُٹھانے والا شخص کسی وجہ سے مالی مشکلات کا شکار ہو جائے تو بینک بھی بلکل اس ہی طرح اپنی رقم کی وصولیابی کے ہتھکنڈے اپناتے ہیں جیسے پرانے زمانے کے مہاجن ۔
اس مقام پر جبر کا پہلو بھی شامل ہو جاتا ہے اور ظلم کا ۔
اگر ان شیڈول بینکوں کے قرض کے لین دین کے ضمن میں ریاست سرمایہ کاری کرنے والے کی رقم کی ضمانت دے اور کسی مشکل صورتحال میں عام آدمی کی ریلیف کا کوئی قانون بنا کر ان بینکوں کو پابند کر دے تو یہ بھی ممنوع نہیں ہوں گے ۔
No comments:
Post a Comment