Pages

Monday, January 18, 2016

وحی صرف قرآن میں ھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حصہ اول

وحی صرف قرآن میں ھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حصہ اول


حصہ اول

دوستو۔۔۔۔۔۔۔۔ چند ایام قبل میرے کچھ محترم دوستوں نے خارج از قرآن وحی کے موضوع پر اپنی معروضات پیش کیں۔۔ اور اس ناچیز کو اس پر تبصرے کی دعوت دی گئی۔۔ بد قسمتی سے اس وال پر اس موضوع کے حوالے سے علمی مباحثہ ذاتی الزام تراشیوں ، اور کفر اور اسلام کی جنگ کی صورت اختیار کر گیا۔۔ غیر مناسب طرز کلام ، اور عامیانہ انداز بیان ، اس خاکسار کو اس مباحثے میں شمولیت سے باز رکھنے کا باعث بنا۔۔ مجھے اس وال پر ھونے والی تمام گفتگو ، اور اس کے انداز پر بے حد دکھ ھوا ھے ۔۔۔ لیکن ظاھر ھے ، میں اس پوزیشن میں نہیں کہ کسی کو زبردستی کسی بات پر مجبور کر دوں ۔۔ سوائے اس اپیل کے ، کہ  رواداری ، شائستگی ،  احترام انسانیت ،دلیل و برھان کا دامن ھرگز ھاتھ سے نہیں چھوڑنا چاھیے۔  مطمع نظر صرف اور صرف دین کو سمجھنا اور سمجھانا ھو، تو بات کا کوئی تعمیری نتیجہ نکل سکتا ھے ۔۔ ورنہ جو کچھ اس وال پر ھوا ، صدیوں سے ھوتا چلا آ رھا ھے ۔۔ پہلے کسی نے کیا حاصل کر لیا ھے جو اب حاصل ھو جائے گا۔۔  اس طرز فکر کا نتیجہ امت کی ذلت اور مسکنت اور بربادی ، کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ۔۔۔۔۔۔  قرآن کریم کے ایک ادنٰی طالب علم کی حیثیت سے مجھ پر یہ لازم ھو گیا ھے کہ موضوع زیر بحث کے حوالے سے اپنی فہم کےمطابق ، جو میں نے سمجھا ھے پیش کر دوں۔۔۔۔۔ اس یقین کے ساتھ کہ میری معروضات کو ، صرف ایک طالب علم کی تحقیق کے طور پر لیا جائے گا ۔۔ اور خاکسار کو کفر اور ایمان کے فتووں سے معاف رکھا جائے گا۔۔ نیز ایسی تمام تنقید اور تبصروں کا خیر مقدم کروں گا جو صرف اور صرف دین کو سیکھنے اور سمجھنے کے جذبے کے تحت کیے جائیں۔۔ گالم گلوچ اور الزام تراشیوں سےگریز کیا جائے ۔۔ اور کسی بھی زندہ یا مردہ شخصیت کے لیے کوئی تبصرہ نہ کیا جائے ، کہ جو کچھ میں لکھ رھا ھوں ، میری ذاتی کاوش ھے ، میرا فہم ھے ، میرے خیالات ھیں۔۔  یہ ایک انسانی کوشش ھے ، جو کسی بھی طور پر غلطی اور سہو سے منزہ نہیں ھو سکتی۔۔  دوستوں کو اس سے اختلاف کا حق ھے ۔۔

جیسا کہ ھم جانتے ھیں ، اللہ کریم نے آدم سے اس بات کا وعدہ فرمایا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔

فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّى هُدًى فَمَن تَبِعَ هُدَاىَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ 
۲/۳۸
 پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمہارے پاس پہنچے، تو جو لوگ میر ی ہدایت کی پیروی کریں گے، ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہوگا۔۔۔۔۔۔۔  ترجمہ جناب مودودی صاحب

اپنے اس وعدے کا ایفا کرتے ھوئے اس رحیم و کریم نے اس خطہ ارض پر موجود ھر انسان کی راھنمائی کے لیے ھر دور میں اپنے انبیاء کو مبعوث کیا ۔۔ قرآن ھمیں یہ بھی بتاتا ھے کہ سلسلہ رشد و ھدایت ، اس وقت اس زمین پر آباد مختلف بستیوں میں ان ھی میں سے چنے ھوئے نبی و رسول کی معرفت جاری کیا گیا۔۔ ۔۔ ھر نبی کو کتاب دی گئی۔۔  وہ تمام انبیاء کرام علیہ سلام کسی ایک مخصوص قوم کی ھدایت کے لیے مبعوث ھوئے ۔۔ چنانچہ اس قوم کے بعد اس نبی کا دور ختم ھو جاتا تھا اور اس قوم میں نازل کی ھوئی کتاب بھی متروک ھو جاتی تھی۔۔ یہاں تک کہ یہ قافلہ رشد و ھدایت ، نبی آخر الزماں ، خاتم الانبیاء ، حضرت
محمد مصطفٰی ۖ  کی ذات اقدس پر اختتام پذیر ھوا۔۔  چنانچہ فرمایا گیا ۔۔

قُلْ يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ إِنِّى رَسُولُ ٱللَّـهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا ٱلَّذِى لَهُۥ مُلْكُ ٱلسَّمَـٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضِ ۖ لَآ إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ يُحْىِۦ وَيُمِيتُ ۖ فَـَٔامِنُوا۟ بِٱللَّـهِ وَرَسُولِهِ ٱلنَّبِىِّ ٱلْأُمِّىِّ ٱلَّذِى يُؤْمِنُ بِٱللَّـهِ وَكَلِمَـٰتِهِۦ وَٱتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ۔۔ ۷/۱۵۸

اے محمدؐ، کہو کہ "اے انسانو، میں تم سب کی طرف اُس خدا کا پیغمبر ہوں جو زمین اور آسمانوں کی بادشاہی کا مالک ہے، اُس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے، وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے، پس ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے بھیجے ہوئے نبی اُمی پر جو اللہ اور اس کے ارشادات کو مانتا ہے، اور پیروی اختیار کرو اُس کی، امید ہے کہ تم راہ راست پا لو گے"۔۔۔ ترجمہ جناب مودودی صاحب
یعنی اب یہ رسول کسی ایک قوم یا بستی کی طرف مبعوث نہیں ھوا ۔۔ بلکہ تمام نوع انسانی جو اس وقت موجود تھی اور آئیندہ آنے والی تھی ، سب کا رسول اور رھبر ٹہرا۔۔ اور اس ھی جہت سے وہ کتاب جو اس ذات اقدس پر نازل کی گئی وہ بھی کسی ایک بستی یا قوم کے لیے نہیں ھے۔۔ بلکہ تمام انسانوں کی راھنمائی کے لیے ھے۔۔

وعدہ خداوندی کے مطابق ، کہ وہ ھر انسان کو ھدایت دے گا ، یہ ضروری ٹہرا کہ وہ پیغام ، جو اس ذات اقدس ، رسول امین کی وساطت سے انسانوں کی طرف بھیجا گیا ، اسے من و عن اس طرح محفوظ کر دیا جائے کہ وہ قیامت تک کے انسان کی راھنمائی
کر سکے۔۔ نہ صرف اپنے متن کے لحاظ سے بلکہ اپنے معانی و مفہوم کے لحاظ سے بھی ۔۔ چنانچہ ارشاد باری تعالٰی ھوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا ٱلذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُۥ لَحَـٰفِظُونَ ۔۔۔۔ ۱۵/۹

بیشک یہ ذکرِ عظیم (قرآن) ہم نے ہی اتارا ہے اور یقیناً ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے،۔۔۔۔۔ ترجمہ جناب طاھر القادری صاحب

اور اس حفاظت کے وعدے کے ساتھ ، یہ بھی واضح کر دیا کہ کیا نازل ھوا ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔ چنانچہ فرمایا ۔۔۔۔۔

إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا عَلَيْكَ ٱلْقُرْءَانَ تَنزِيلًا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۷۶/۲۳

 اے نبیؐ، ہم نے ہی تم پر یہ قرآن تھوڑا تھوڑا کر کے نازل کیا ہے ۔۔۔۔۔ ترجمہ جناب مودودی صاحب

یعنی نہایت ھی وضاحت کے ساتھ فرما دیا گیا کہ ھم نے یہ قرآن نازل کیا ھے اور ھم اسے محفوظ بھی رکھیں گے تاکہ تاقیامت انسانیت کی راھنمائی اور ھدایت کا وعدہ پورا ھو۔۔  اور کسی نازل کی ھوئی ھدایت کی سند کے لیے وہ پیمانہ بھی بتا دیا کہ جس کی بنیاد پر انسان راھنمائی حاصل کر سکے کہ کیا " ما انزل اللہ " ھے اور کیا نہیں ۔۔۔۔ چنانچہ فرمایا ۔

ذَٰلِكَ ٱلْكِتَـٰبُ لَا رَيْبَ ۛ فِيہ۔۔ 2/2

دین کی بنیاد یقیناً وہ  " ما انزل اللہ  "  ھی ھو سکتا ھے ، جس میں کوئی ریب نہ ھو ۔۔۔۔۔ کوئی کھٹک نہ ھو ۔۔۔ کوئی بھی ایسی کتاب جسے" ما انزل اللہ " کہہ کر پیش کیا جائے ، اور اس کی وجہ سے انسان کی الجھن میں اضافہ ھو ، وہ
۔" ما انزل اللہ " ھو ھی نہیں سکتا۔۔
انسانی تاریخ کا وہ بد ترین دور تھا ، امت مسلمہ کی بد قسمتی کا وہ پہلا دن تھا جب یہ عقیدہ وضع کیا گیا کہ " کچھ وحی قرآن کریم کے اندر ھے اور کچھ قرآن کریم کے باھر " ۔۔۔

یہ عقیدہ اپنے اپنے من پسند نظریات کو
" justify "
کرنے کے لیے وضع کیا گیا ، اور اس نے مسلمانوں میں ایک مستقل عقیدہ کی شکل اختیار کر لی۔۔ جو اس عظیم الشان امت کی تباھی اور بربادی کا باعث بنا۔۔ اس سے وہ چور دروازہ کھول دیا گیا ، کہ جس کا جو جی چاھے حضور ۖ کی ذات مبارکہ سے منسوب کر کے ، اسے وحی خداوندی کا درجہ دے کے ، عام مسلمانوں کو ایک ایسے عقیدے کی پیروی کرنے کا پابند بنا دیا جائے ، جس کی کوئی سند قرآن کریم سے نہیں ملتی۔اللہ  کی اس عظیم الشان کتاب قرآن حکیم کا اگر بغیر تعصب کے ، کھلے ذھن اور کسی عقیدے کو اپنے دل میں بسائے بغیر ، مطالعہ کیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ھو جاتی ھے کہ وحی صرف اورصرف اس کتاب یعنی قرآن حکیم میں ھے اور کہیں نہیں۔۔۔
اپنے اس نکتہ نظر کو ثابت کرنے کے لیے پہلے قرآن کریم سے ھی کچھ آیات مبارکہ پیش کرنے کی سعادت حاصل کروں گا ، پھر عام عقلی دلائل ۔۔۔۔
ارشاد باری تعالٰی ھے ۔۔۔۔۔۔
۱۔۔۔

۱۲/۳ نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ أَحْسَنَ ٱلْقَصَصِ بِمَآ أَوْحَيْنَآ إِلَيْكَ هَـٰذَا ٱلْقُرْءَانَ وَإِن كُنتَ مِن قَبْلِهِۦ لَمِنَ ٱلْغَـٰفِلِينَ۔۔  

اے محمدؐ، ہم اس قرآن کو تمہاری طرف وحی کر کے بہترین پیرایہ میں واقعات اور حقائق تم سے بیان کرتے ہیں، ورنہ اس سے
پہلے تو (ان چیزو ں سے) تم بالکل ہی بے خبر تھے ۔۔۔۔۔ ترجمہ جناب مودودی صاحب

آیت مذکورہ میں اللہ کریم اس بات کی شہادت دے رھے ھیں کہ حضور ۖ پر یہ قرآن ھی نازل ھوتا تھا۔۔  اور نا صرف یہ کہ حضور ۖ پر اس قرآن کے نازل ھونے کی خبر دی جارھی ھے بلکہ اس بات کی وضاحت بھی کی جا رھی ھے کہ اس سے پہلے حضورۖ ان چیزوں سے بے خبر تھے۔۔۔۔۔ اور پھر ارشاد فرمایا ۔۔۔۔۔۔۔۔
۲۔۔۔

۲۔۔قُلْ أَىُّ شَىْءٍ أَكْبَرُ شَهَـٰدَةً ۖ قُلِ ٱللَّـهُ ۖ شَهِيدٌۢ بَيْنِى وَبَيْنَكُمْ ۚ وَأُوحِىَ إِلَىَّ هَـٰذَا ٱلْقُرْءَانُ لِأُنذِرَكُم بِهِۦ وَمَنۢ بَلَغَ ۚ أَئِنَّكُمْ لَتَشْهَدُونَ أَنَّ مَعَ ٱللَّـهِ ءَالِهَةً أُخْرَىٰ ۚ قُل لَّآ أَشْهَدُ ۚ قُلْ إِنَّمَا هُوَ إِلَـٰهٌ وَٰحِدٌ وَإِنَّنِى بَرِىٓءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ۔۔۔۶/۱۹

ان سے پوچھو، کس کی گواہی سب سے بڑھ کر ہے؟کہو، میرے اور تمہارے درمیان اللہ گواہ ہے، اور یہ قرآن میری طرف بذریعہ وحی بھیجا گیا ہے تاکہ تمہیں اور جس جس کو یہ پہنچے، سب کو متنبہ کر دوں کیا واقعی تم لوگ یہ شہادت دے سکتے ہو کہ اللہ کے ساتھ دوسرے خدا بھی ہیں؟ کہو، میں تو اس کی شہادت ہرگز نہیں دے سکتا کہو، خدا تو وہی ایک ہے اور میں اس شرک سے قطعی بیزار ہوں جس میں تم مبتلا ہو۔۔۔۔ ترجمہ جناب مودودی صاحب

اس آیت مبارکہ میں خود حضور ۖ کی زبانی اس بات کا اقرار کروایا گیا کہ " مجھ پر یہ قرآن نازل ھوتا ھے، تاکہ میں تمھیں اس کے ذریعہ متنبہ کر دوں۔۔۔۔۔ اور ھذا کا اسم اشارہ ساتھ لانے سے حصر کر دیا گیا ھے ، یہ ھی قرآن مجھ پر نازل کیا گیا ھے۔۔ چنانچہ آیات مذکورہ اس بات کی حتمی دلیل ھیں کہ وحی صرف اور صرف قرآن کریم ھی میں ھے ، قرآن سے علاوہ کہیں اور وحی کی کوئی خبر قرآن میں نہیں۔۔۔۔

۳۔۔۔ 

  قُلْ إِنَّمَآ أُنذِرُكُم بِٱلْوَحْىِ ۚ وَلَا يَسْمَعُ ٱلصُّمُّ ٱلدُّعَآءَ إِذَا مَا يُنذَرُونَ۔۔۔۔۔۔
۲۱/۴۵          

کہہ دیجئے! میں تو تمہیں اللہ کی وحی کے ذریعہ آگاه کر رہا ہوں مگر بہرے لوگ بات نہیں سنتے جبکہ انہیں آگاه کیا جائے۔۔ ترجمہ جناب محمد جونا گڑھی

غور فرمائیں ، اوپر بیان کی گئی آیت نمبر ۲ میں حضور ۖ کی زبانی اس تنذیر کا ذکر ھے جو حضور ۖ اس قرآن کے ذریعہ انسانوں تک پہنچا رھے ھیں ۔۔۔۔۔ اور آیت نمبر ۳ میں یہ عمل تنذیر ، کی بنیاد وحی کو کہا جا رھا ھے ۔۔۔۔۔ یعنی ایک جگہ یہ تنذیر بذریعہ قرآن ھے تو دوسری جگہ وہ ھی تنذیر بذریعہ وحی ھے ۔۔۔۔۔ چنانچہ ثابت ھوا کہ قرآن اور وحی دونوں مترادف الفاظ ھیں یہ وحی ھی قرآن ھے اور یہ قرآن ھی وحی ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۴۔۔۔

 إِنَّآ أَنزَلْنَآ إِلَيْكَ ٱلْكِتَـٰبَ بِٱلْحَقِّ لِتَحْكُمَ بَيْنَ ٱلنَّاسِ بِمَآ أَرَىٰكَ ٱللَّـهُ ۚ وَلَا تَكُن لِّلْخَآئِنِينَ خَصِيمًا۔۔۔ ۴/۱۰۵

اے نبیؐ! ہم نے یہ کتاب حق کے ساتھ تمہاری طرف نازل کی ہے تاکہ جو راہ راست اللہ نے تمہیں دکھائی ہے اس کے مطابق لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تم بد دیانت لوگوں کی طرف سے جھگڑنے والے نہ بنو۔۔۔ ترجمہ جناب مودودی صاحب

۵ ۔۔۔۔۔

فَٱحْكُم بَيْنَهُم بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّـهُ۔۔۔ ۵/۱۰۸

 لہٰذا تم خدا کے نازل کردہ قانون کے مطابق لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرو۔۔۔۔۔۔۔  ترجمہ جناب مودودی صاحب

آیات مذکورہ نمبر ۴ میں حضور ۖ کو اس کتاب یعنی قرآن کے مطابق فیصلہ کرنے کا حکم دیا جا رھا ھے۔۔۔۔۔۔۔ جبکہ آیت مبارکہ نمر ۵ میں ، بما انزل اللہ  کے مطابق فیصلہ کرنے کا حکم دیا جارھا ھے ۔۔۔۔۔۔ جو اس بات کو روز روشن کی طرح عیاں کر دیتے ھیں کہ
ما انزل اللہ ، صرف اور صرف قرآن ھی ھے 

ما یو حی الیک اور قرآن ایک دوسرے کے متبادل استعمال کیے گئیے ھیں ۔۔۔۔۔۔۔

۶۔۔۔۔ 

۔۔ فَلَعَلَّكَ تَارِكٌۢ بَعْضَ مَا يُوحَىٰٓ إِلَيْكَ وَضَآئِقٌۢ بِهِۦ صَدْرُكَ أَن يَقُولُوا۟ لَوْلَآ أُنزِلَ عَلَيْهِ كَنزٌ أَوْ جَآءَ مَعَهُۥ مَلَكٌ ۚ إِنَّمَآ أَنتَ نَذِيرٌ ۚ وَٱللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ وَكِيلٌ۔۔۔۔أَمْ يَقُولُونَ ٱفْتَرَىٰهُ ۖ قُلْ فَأْتُوا۟ بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِهِۦ مُفْتَرَيَـٰتٍ وَٱدْعُوا۟ مَنِ ٱسْتَطَعْتُم مِّن دُونِ ٱللَّـهِ إِن كُنتُمْ صَـٰدِقِين ۔۔ ۱۱/۱۳

تو اے پیغمبرؐ! کہیں ایسا نہ ہو کہ تم اُن چیزوں میں سے کسی چیز کو (بیان کر نے سے) چھوڑ دو جو تمہاری طرف وحی کی جا رہی ہیں اور اِس بات پر دل تنگ ہو کہ وہ کہیں گے "اس شخص پر کوئی خزانہ کیوں نہ اتارا گیا" یا یہ کہ "اس کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہ آیا" تم تو محض خبردار کرنے والے ہو، آگے ہر چیز کا حوالہ دار اللہ ہے ۔۔۔۔۔۔ کیا یہ کہتے ہیں کہ پیغمبر نے یہ کتاب خود گھڑ لی ہے؟ کہو، "اچھا یہ بات ہے تو اس جیسی گھڑی ہوئی دس سورتیں تم بنا لاؤ اور اللہ کے سوا اور جو جو (تمہارے معبود) ہیں اُن کو مدد کے لیے بلا سکتے ہو تو بلا لو اگر تم (انہیں معبود سمجھنے میں) سچے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔  ترجمہ جناب مودودی صاحب

۷۔۔۔۔

۔۔۔ وَمَا كَانَ هَـٰذَا ٱلْقُرْءَانُ أَن يُفْتَرَىٰ مِن دُونِ ٱللَّـهِ وَلَـٰكِن تَصْدِيقَ ٱلَّذِى بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيلَ ٱلْكِتَـٰبِ لَا رَيْبَ فِيهِ مِن رَّبِّ ٱلْعَـٰلَمِينَ ۔۔أَمْ يَقُولُونَ ٱفْتَرَىٰهُ ۖ قُلْ فَأْتُوا۟ بِسُورَةٍ مِّثْلِهِۦ وَٱدْعُوا۟ مَنِ ٱسْتَطَعْتُم مِّن دُونِ ٱللَّـهِ إِن كُنتُمْ صَـٰدِقِينَ۔ ۔۔  ۱۰/۳۸

 کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ پیغمبرؐ نے اسے خود تصنیف کر لیا ہے؟ کہو، “اگر تم اپنے اس الزام میں سچّے ہو تو ایک سُورۃ اس جیسی تصنیف کر لاؤ اور ایک خدا کو چھوڑ کر جس جس کو بُلا سکتے ہو مدد کے لیے بُلا لو" ۔۔۔۔ ترجمہ جناب مودودی صاحب

غور فرمائیں ، آیت نمبر ۶ میں افترٰی کا الزام ، ما یوحی پر کیا گیا ھے ، دوسری آیت نمر ۷ میں افتری کا الزام قرآن پر کے متعلق بیان کیا گیا ھے ۔۔ آیت نمبر ۶ میں ، یوحٰی الیک کے لیے تحدی کی گئی ھے ، کہ اس کے مقابلے کی دس صورتیں بنا کر لاؤ ۔۔ جبکہ آیت نمبر ۷ میں اس قرآن کے لیے کہا گیا ھے کہ اس کے مثل سورت بنا کر لاؤ ۔۔۔۔۔ چنانچہ بات بلکل واضح ھے کہ قرآن ھی کو ایک مقام پر ما یوحٰی کہا گیا ھے اور دوسری جگہ قرآن کہا گیا ھے ۔۔۔۔۔۔۔ ما یوحٰی قرآن سے باھر کسی شئے کا نام نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔
§        وحی صرف متلو ھے ۔۔۔۔۔۔۔
ھمارے یہاں یہ عقیدہ بھی موجود ھے کہ جناب ایک وحی متلو، یا وحی جلی ھے اور دوسری وحی غیر متلو یا وحی خفی۔۔  یعنی وہ وحی جو قرآن میں ھے وہ وحی متلو ھے اور جو قرآن سے باھر ھے وہ وحی غیر متلو ھے ۔۔ یہ عقیدہ قرآن کریم سے متصادم اور من گھڑت ھے اور خود قرآن اس عقیدہ کی تردید کرتا ھے ۔۔۔۔۔

۸۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔  كَذَٰلِكَ أَرْسَلْنَـٰكَ فِىٓ أُمَّةٍ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهَآ أُمَمٌ لِّتَتْلُوَا۟ عَلَيْهِمُ ٱلَّذِىٓ أَوْحَيْنَآ إِلَيْكَ وَهُمْ يَكْفُرُونَ بِٱلرَّحْمَـٰنِ ۚ قُلْ هُوَ رَبِّى لَآ إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ مَتَابِ۔۔۔۔ ۱۳/۳۰

 اسی طرح ہم نے آپ کو اس امت میں بھیجا ہے جس سے پہلے بہت سی امتیں گزر چکی ہیں کہ آپ انہیں ہماری طرف سے جو وحی آپ پر اتری ہے پڑھ کر سنایئے یہ اللہ رحمٰن کے منکر ہیں، آپ کہہ دیجئے کہ میرا پالنے وا تو وہی ہے اس کے سوا درحقیقت کوئی بھی ئق عبادت نہیں، اسی کے اوپر میرا بھروسہ ہے اور اسی کی جانب میرا رجوع ہے ۔۔۔ ترجمہ جناب محمد جونا گڑھی

آیت مذکورہ نمبر ۸ اس بات کی مطلق دلیل ھے کہ قرآن کریم میں جہاں جہاں بھی لفظ " ما یوحٰی" کا استعمال ھوا ھے ، وہ سارے کا سارا ، متلو ھے ۔۔ اور حضور ۖ سارے" ما یوحٰی " کی تلاوت فرمایا کرتے تھے ۔۔  وحی ساری کی ساری قرآن کریم میں محفوظ ھے جو متلو ھے ۔ ایسا کوئی عقیدہ کہ کچھ وحی متلو ھے اور کچھ غیر متلو ، غیر قرآنی اور گمراہ کن تصور ھے ۔۔
§       امت صرف اور صرف قرآن کی وارث ھے ۔۔ خارج از قرآن کسی بھی شئے کی نہ وارث ھے اور نہ ھی پابند ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۹۔۔
وَٱلَّذِىٓ أَوْحَيْنَآ إِلَيْكَ مِنَ ٱلْكِتَـٰبِ هُوَ ٱلْحَقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ ۗ إِنَّ ٱللَّـهَ بِعِبَادِهِۦ لَخَبِيرٌۢ بَصِيرٌ ﴿٣١﴾ ثُمَّ أَوْرَثْنَا ٱلْكِتَـٰبَ ٱلَّذِينَ ٱصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا ۖفَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهِۦ وَمِنْهُم مُّقْتَصِدٌ وَمِنْهُمْ سَابِقٌۢ بِٱلْخَيْرَٰتِ بِإِذْنِ ٱللَّـهِ ۚذَٰلِكَ هُوَ ٱلْفَضْلُ ٱلْكَبِيرُ۔۔۔ ۳۵/۳۲

(اے نبیؐ) جو کتاب ہم نے تمہاری طرف وحی کے ذریعہ سے بھیجی ہے وہی حق ہے، تصدیق کرتی ہوئی آئی ہے اُن کتابوں کی جو اِس سے پہلے آئی تھیں بے شک اللہ اپنے بندوں کے حال سے باخبر ہے اور ہر چیز پر نگاہ رکھنے والا ہے (31) پھر ہم نے اس کتاب کا وارث بنا دیا اُن لوگوں کو جنہیں ہم نے (اِس وراثت کے لیے) اپنے بندوں میں سے چن لیا اب کوئی تو ان میں سے اپنے نفس پر ظلم کرنے والا ہے، اور کوئی بیچ کی راس ہے، اور کوئی اللہ کے اذن سے نیکیوں میں سبقت کرنے والا ہے، یہی بہت بڑا فضل ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  ترجمہ جناب مودودی صاحب

عربی زبان ، گرامر اور لغت جاننے والے ، اس بات کو سمجھنے میں کوئی مشکل محسوس نہیں کریں گے کہ آیت مذکورہ میں لفظ " من " بیانیہ ھے ، اور کسی صورت میں بھی" تبعیضیہ " نہیں بن سکتا۔۔ کیوں کہ اگر یہاں " من " کو " تبعیضیہ " مانا جائے تو اس کا مطلب یہ ھوگا کہ قرآن کا کچھ حصہ حق ھے اور کچھ باطل ۔۔۔۔۔ جو قطعی طور پر متفق علیہ درست نہیں ۔۔۔۔۔ اس لیے یہاں
" من " بیانیہ ھی لیا جائے گا ، اور آیت کا مفہوم بلکل واضح ھے کہ جو کچھ بھی وحی ھے وہ  کتاب  یعنی قرآن ھے ۔۔ مزید یہ کہ " ثُمَّ أَوْرَثْنَا ٱلْكِتَـٰبَ " سے مزید وضاحت کر دی گئی ھے کہ وحی صرف کتاب ھے ۔۔ جس کا وارث امت مسلمہ کو بنایا گیا ھے ۔۔ امت مسلمہ صرف کتاب کی وارث ھے ،  وحی اگر قرآن سے باھر بھی ھوتی تو یہ امت اس کی بھی وارث قرار پاتی ۔۔ یہ آیت کریمہ ایسی برھان قاطعھے ، کہ اس کے علاوہ کسی اور دلیل کی ضرورت ھی نہیں رھتی۔ امت مسلمہ صرف قرآن کی وارث ھے اور اس کے اتباع کی مکلف ۔۔

§       ما یوحٰی اور قرآن ایک ھی چیز ھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۰۔۔۔۔

وَٱتْلُ مَآ أُوحِىَ إِلَيْكَ مِن كِتَابِ رَبِّكَ ۖ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَـٰتِهِۦ وَلَن تَجِدَ مِن دُونِهِۦ مُلْتَحَدًا ۔۔ ۱۸/۲۷

 اے نبیؐ! تمہارے رب کی کتاب میں سے جو کچھ تم پر وحی کیا گیا ہے اسے (جوں کا توں) سنا دو، کوئی اُس کے فرمودات کو
بدل دینے کا مجاز نہیں ہے، (اور اگر تم کسی کی خاطر اس میں رد و بدل کرو گے تو) اُس سے بچ کر بھاگنے کے لیے کوئی جائے پناہ نہ پاؤ گے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ترجمہ جناب مودودی صاحب

۱۱۔۔۔

إِنَّمَآ أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ رَبَّ هَـٰذِهِ ٱلْبَلْدَةِ ٱلَّذِى حَرَّمَهَا وَلَهُۥ كُلُّ شَىْءٍ ۖوَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ ٱلْمُسْلِمِينَ ﴿٩١﴾ وَأَنْ أَتْلُوَا۟ ٱلْقُرْءَانَ ۖ فَمَنِ ٱهْتَدَىٰ فَإِنَّمَا يَهْتَدِى لِنَفْسِهِۦ ۖ وَمَن ضَلَّ فَقُلْ إِنَّمَآ أَنَا۠ مِنَ ٱلْمُنذِرِينَ ۔۲۷/۹۲

(اے محمدؐ، اِن سے کہو) "مجھے تو یہی حکم دیا گیا ہے کہ اِس شہر کے رب کی بندگی کروں جس نے اِسے حرم بنایا ہے اور جو ہر چیز کا مالک ہے مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں مسلم بن کر رہوں (91) اور یہ قرآن پڑھ کر سناؤں" اب جو ہدایت اختیار کرے گا وہ اپنے ہی بھلے کے لیے ہدایت اختیار کرے گا اور جو گمراہ ہو اُس سے کہہ دو کہ میں تو بس خبردار کر دینے والا ہوں ۔۔۔۔۔۔ ترجمہ جناب مودودی صاحب

آیت مبارکہ نمبر ۱۰ میں ، ما یوحٰی کی تلاوت کا حکم ھے ، جبکہ دوسری آیت مبارکہ نمبر ۱۱ میں قرآن کریم کی تلاوت کا حکم ھے ۔۔ جس سے صاف واضح ھوتا ھے کہ ما یوحٰی اور قرآن ایک چیز ھے ۔ اور دونوں الفاظ ایک دوسرے کے متبادل استعمال کیے گئیے ھیں ۔
§       کتاب اور ما انزل ایک ھی چیز ھے ۔۔
بدقسمتی سے ھمارے یہاں یہ عقیدہ بھی بہت شدت کے ساتھ موجود ھے کہ کتاب کا مطلب قرآن ھے ، لیکن      
 ما انزل "میں قرآن کے علاوہ بھی حضور ۖ  پر کچھ نازل ھوتا تھا ۔۔ انھیں حدیث کا نام دیا جاتا ھے ۔۔۔۔۔"

۱۲۔۔

وَهَـٰذَا كِتَـٰبٌ أَنزَلْنَـٰهُ مُبَارَكٌ فَٱتَّبِعُوهُ وَٱتَّقُوا۟ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ ۔۔۔۶/۱۵۵

اور اسی طرح یہ کتاب ہم نے نازل کی ہے، ایک برکت والی کتاب پس تم اِس کی پیروی کرو اور تقویٰ کی روش اختیار کرو، بعید نہیں کہ تم پر رحم کیا جائے ۔۔۔ ترجمہ جناب مودودی صاحب

۱۳۔۔۔

ٱتَّبِعُوا۟ مَآ أُنزِلَ إِلَيْكُم مِّن رَّبِّكُمْ وَلَا تَتَّبِعُوا۟ مِن دُونِهِۦٓ أَوْلِيَآءَ ۗ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ ۔۔ ۷/۳

لوگو، جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے اُس کی پیروی کرو اور اپنے رب کو چھوڑ کر دوسرے سرپرستوں کی پیروی نہ کرو مگر تم نصیحت کم ہی مانتے ہو ۔۔۔ ترجمہ جناب مودودی صاحب

غور فرمائیں ، آیت مبارکہ نمبر ۱۲ میں کتاب کی پیروی کا حکم دیا جارھا ھے ، اور آیت نمبر ۱۳ میں "ما انزل "کی پیروی کا حکم دیاگیا ھے ۔۔ جو اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کافی ھے کہ کتاب اور " ما انزل "ایک ھی سکہ کے دو رخ ھیں ۔۔ کتاب ھی" ما انزل "ھے اور "ما انزل "بھی صرف کتاب ھی ھے ۔۔۔
§       نزل علی محمد ، صرف اور صرف قرآن ھی ھے ۔۔
۱۴۔۔

وَٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَعَمِلُوا۟ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ وَءَامَنُوا۟ بِمَا نُزِّلَ عَلَىٰ مُحَمَّدٍ وَهُوَ ٱلْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ ۙ كَفَّرَ عَنْهُمْ سَيِّـَٔاتِهِمْ وَأَصْلَحَ بَالَهُمْ۔۔ ۴۷/۲

اور جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے اور اُس چیز کو مان لیا جو محمدؐ پر نازل ہوئی ہے اور ہے وہ سراسر حق اُن کے رب کی طرف سے اللہ نے ان کی برائیاں اُن سے دور کر دیں اور ان کا حال درست کر دیا۔۔ ترجمہ جناب مودودی صاحب

۱۵۔۔۔

وَإِنَّهُۥ لَتَنزِيلُ رَبِّ ٱلْعَـٰلَمِينَ﴿١٩٢﴾ نَزَلَ بِهِ ٱلرُّوحُ ٱلْأَمِينُ ﴿١٩٣﴾ عَلَىٰ قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ ٱلْمُنذِرِينَ﴿١٩٤﴾ بِلِسَانٍ عَرَبِىٍّۢ مُّبِينٍ ۔۔ وَإِنَّهُۥ لَفِى زُبُرِ ٱلْأَوَّلِينَ ۲۶/۱۹۲

اور یہ قرآن رب العالمین کا اتارا ہوا ہے (192)اسے امانت دار فرشتہ لے کر آیا ہے (193) تیرے دل پر تاکہ تو ڈرانے والوں میں سے ہو (194) صاف عربی زبان میں (195) اور البتہ اس کی خبر پہلوں کی کتابوں میں بھی ہے۔۔ ترجمہ جناب احمد علی صاحب

نہایت ھی واضح ھے کہ آیت نمبر ۱۴ میں محمد ۖ  پر نزول کا بیان ھے اور  آیت نمبر ۱۵ میں بتا دیا گیا کہ محمد ۖ  پر کیا نازل ھوتا تھا۔۔۔۔ یہ کتاب مبین ، جس کا ذکر سابقہ کتابوں میں بھی موجود ھے ۔۔۔۔۔۔۔ جو روح الامین ، نبی اکرم ۖ  کے قلب مبارک پر نازل کرتے تھے ۔۔ صاف عربی زبان میں ۔۔ یعنی یہ قرآن کریم ۔۔

اب میں وہ نہایت ھی دلچسپ اور قابل توجہ دلیل پیش کر رھا ھوں ، کہ جس کے بعد یہ تصور اور عقیدہ کہ قرآن کریم کے علاوہ بھی کہیں وحی ھے ، اس کی جڑ ھی کٹ جاتی ھے ۔۔ بشرط یہ کہ احباب تعصب اور ھٹ دھرمی کے بجائے سچ کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ھوں ۔۔۔۔۔۔۔۔

ھم جانتے ھیں کہ قرآن کریم کے من جانب اللہ ھونے کے دلائل کے علاوہ ، اللہ کریم  نے یہ چیلنج ، اس وقت کے تمام اھل علم اور رھتی دنیا تک کے تمام ماھریں لسانیات اور عالموں کو دیا ھوا ھے ، کہ اگر تم سمجھتے ھو کہ یہ کتاب اللہ یعنی قرآن ، اللہ کی جانب سے نہیں ھے اور یہ محمد ۖ  خود گھڑ لیتے ھیں یا کوئی اور انسان انھیں سکھا جاتا ھے ، تو پھر تم سب مل کر اس کے جیسی ایک سورہ بنا کے لے آو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  اس آیت مبارکہ پر غور فرمائيں۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۶۔۔۔

وَإِن كُنتُمْ فِى رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَىٰ عَبْدِنَا فَأْتُوا۟ بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِهِۦ وَٱدْعُوا۟ شُهَدَآءَكُم مِّن دُونِ ٱللَّـهِ إِن كُنتُمْ صَـٰدِقِينَ ۔۔ ۲/۲۳

 اور اگر تمہیں اس چیز میں شک ہے جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کی ہے تو ایک سورت اس جیسی لے آؤ اور الله کے سوا جس قدر تمہارے حمایتی ہوں بلا لو اگر تم سچے ہو ۔۔۔ ترجمہ جناب احمد علی صاحب

غور فرمائیں ، یہ چیلنج ، کس چیز کے لیے ھے ۔  "مما نزلنا "۔۔۔ جو محمد ۖ  پر نازل ھوا ۔۔ کہا اس جیسی ایکسورة بنا لاو ۔۔ اب سوال یہ ھے کہ " ما انزل "اگر قرآن کے علاوہ بھی کچھ تھا ، تو یہ چیلنج تو پھر اس  "ما انزل "کے لیے بھی ھے ۔۔ تو کیا فرماتے ھیں وہ احباب جو خارج از قرآن وحی کے دعوے دار ھیں ، کیا ان کی اس خود ساختہ وحی کی بھی سورتیں ھوتی ھیں ۔۔ اور کیا اس کی مثل بھی نہیں بن سکتی ۔۔۔ اور کیا وہ خارج از قرآن وحی ، اس دور میں تحریری شکل میں موجود تھیں ، کہ جن کو دیکھ کر ، وہ لوگ بھی اس کی مثل بنا کر لے آتے ۔۔ اور اگر ایسا نہیں تھا ۔ تو کیا یہ بات کسی ذی شعور انسان سے بھی منسوب کی جا سکتی ھے کہ وہ ایسی بات کو مطالبہ کر ے جس کا کوئی وجود ھی نہ ھو ۔۔ کجا کہ اللہ کریم سے۔۔

اس آیت میں معارضہ" مما نزلنا "کا کیا گیا ھے ۔۔ صرف قرآن کا نہیں ۔۔ یہاں یہ بات بڑی غور طلب ھے ، کہ اگر قرآن کریم کے علاوہ بھی کوئی شئے ، منزل من اللہ ھوتی ، تو اس کے معارضے کی بھی تحدی پیش کی جاتی ، اور ارشاد ھوتا ، کہ  ۔۔
فاتو بسورة او بحدیث من مثلہ ۔۔لیکن یہاں" مما نزلنا "کو ، صرف سورتوں پر مشتمل قرار دیا گیا ھے ۔ نیز اس آیت مبارکہ میں منزل من اللہ کا محک و میزان ، نکھار کر پیش کر دیاگیا ھے ، کہ منزل من اللہ صرف وہ ھی ھو سکتا ھے کہ جس کی مثل نہ بن سکے ، اور اس معیار پر تو صرف اور صرف یہ کتاب اللہ یعنی قرآن حکیم ھی اترتا ھے ۔ کہ جس کا مثل آج تک نہیں بنایا جا سکا ۔ ورنہ روایات کا مثل تو اس قدر کثیر تعداد میں ھے ، کہ اس کی صحت و سقم جانچنے کے لیے ، مستقل ایک علم درکار ھے ۔ اس کے باوجود آج تک یہ بات حتمی طور پر نہیں معلوم کی جاسکی کہ کون سے روایت واقعی حدیث ھے اور کون سے وضعی یا ان دوستوں کے مطابق ضعیف ۔۔
جاری ھے۔۔ دوسرا حصہ پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔






No comments:

Post a Comment