ارشاد باری تعالٰی ھے۔۔۔
إِنَّ
ٱلدِّينَ عِندَ ٱللَّـهِ ٱلْإِسْلَـٰمُ ۗ وَمَا ٱخْتَلَفَ ٱلَّذِينَ
أُوتُوا۟ ٱلْكِتَـٰبَ إِلَّا مِنۢ بَعْدِ مَا جَآءَهُمُ ٱلْعِلْمُ بَغْيًۢا
بَيْنَهُمْ ۗ وَمَن يَكْفُرْ بِـَٔايَـٰتِ ٱللَّـهِ فَإِنَّ ٱللَّـهَ
سَرِيعُ ٱلْحِسَابِ ۔۔ 3/19
اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے اس دین سے ہٹ کر جو مختلف طریقے
اُن لوگوں نے اختیار کیے، جنہیں کتاب دی گئی تھی، اُن کے اِس طرز عمل کی کوئی وجہ
اس کے سوا نہ تھی کہ انہوں نے علم آ جانے کے بعد آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی کرنے
کے لیے ایسا کیا اور جو کوئی اللہ کے احکام و ہدایات کی اطاعت سے انکار کر دے،
اللہ کو اس سے حساب لیتے کچھ دیر نہیں لگتی ہے
مزید فرمایا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٱلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ
نِعْمَتِى وَرَضِيتُ لَكُمُ ٱلْإِسْلَـٰمَ دِينًا۔۔ 5/3
آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی
نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر
لیا ہے
آیات مذکورہ سے دو باتیں سامنے آتی ھیں۔۔۔
یہ کہ اللہ کے نزدیک دین تو صرف اور صرف اسلام ھی ھے۔۔۔ یعنی ھر
نبی علیہ سلام جو نبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے
تشریف لائے وہ سب مسلمان تھے اور انھوں نے جس دین کو اپنی قوم کے سامنے پیش کیا وہ
بھی اسلام ھی تھا۔۔ چنانچہ ھم سے پہلے کی تمام امتیں جو اپنے اپنے نبی پر ایمان لے
آئیں وہ سب بھی مسلمان ھی تھیں۔۔ خواہ تعارف کے لیے ھم انھیں عیسائی ، یہودی، یا
کسی اور نام سے پکاریں۔ اور پھر نبی آخرۖ نے بھی اس ھی دین کا پرچار
کیا اوراس جہت سے وہ لوگ جو آپۖ پر ایمان لے آئے وہ بھی مسلمان کہلائے۔
۔۔۔2 یہ کہ نبی اکرمۖ کی حیات مبارکہ میں یہ دین اپنی
تکمیل کو پہنچ گیا تھا۔۔ اور اللہ کی اس کتاب القرآن میں محفوظ ھے۔ چنانچہ جو کچھ
اس میں ھے وہ دین ھے۔۔ چاھے اس دنیا میں کوئی ایک انسان بھی اس پر عمل نہ کرے۔۔۔۔
اور جو کچھ اس میں نہیں ھے وہ دین نہیں ھے خواہ ساری دنیا کسی بات پر متفق ھو اس
پر عمل پیرا ھو۔اور اسے دین سمجھتی ھو۔
اب سوال یہ ھے کہ مقصد کیا ھے اس دین کا۔۔۔چنانچہ فرمایا۔۔۔۔۔
هُوَ
ٱلَّذِىٓ أَرْسَلَ رَسُولَهُۥ بِٱلْهُدَىٰ وَدِينِ ٱلْحَقِّ لِيُظْهِرَهُۥ عَلَى
ٱلدِّينِ كُلِّهِۦ وَلَوْ كَرِهَ ٱلْمُشْرِكُونَ ۔۔ 9/33
وہ خدا وہ ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا
تاکہ اپنے دین کو تمام ادیان پر غالب بنائے چاہے مشرکین کو کتنا ہی ناگوار کیوں نہ
ہو
بلکل واضح اور اٹل الفاظ میں کہہ دیا گیا کہ مقصد اس دین کا غلبہ
ھے۔۔ یعنی اللہ کے دین کو غالب کرنا ھے۔۔۔ خواہ کسی کو یہ بات کتنی ھی ناگوار کیوں
نہ گزرے۔۔۔
اور اس دین کے پیروکاروں کو بھی گارنٹی دے دی کہ۔۔۔۔۔
وَلَا تَهِنُوا۟ وَلَا تَحْزَنُوا۟ وَأَنتُمُ ٱلْأَعْلَوْنَ إِن
كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ۔۔ 3/139
دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو، تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن
ہو
تو بات یہ ھوئی کہ اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ھے۔۔۔ یہ دین حضور
اکرمۖ کی حیات طیبہ میں ھی تکمیل کو پہنچا، اور آج ھمارے ھاتھوں میں قرآن
کریم کی شکل میں موجود ھے۔۔ اور مقصد صرف یہ ھے کہ اس دین کو دنیا کے دیگر تمام ادیان
پر غالب کرنا ھے، خواہ یہ بات کسی کو اچھی لگے یا نہ لگے۔۔ نیز یہ کہ اللہ کا ھر
نبی مسلمان تھا اور اس نے صرف اور صرف اسلام ھی کی تبلیغ کی۔
آئیے دیکھتے ھیں کہ یہ دین اسلام ھے کیا۔۔۔۔۔
لفظ دین کا لغوی معنی ھے نظام۔۔
وہ نظام جو اللہ کریم کے بتائے ھوئے طریقوں ، قوانین، قواعد
و ضوابط، اور راہنمائی کے مطابق قائم کیا جائے گا۔۔ اسلام کہلائے گا۔۔۔ چنانچہ
فرمایا۔۔۔
وَمَآ أَدْرَىٰكَ مَا يَوْمُ ٱلدِّينِ ﴿١٧﴾ ثُمَّ مَآ
أَدْرَىٰكَ مَا يَوْمُ ٱلدِّينِ ﴿١٨﴾ يَوْمَ لَا تَمْلِكُ نَفْسٌ
لِّنَفْسٍ شَيْـًٔا ۖ وَٱلْأَمْرُ يَوْمَئِذٍ لِّلَّـهِ ۔۔82/19
اور تو کیا جانیں کیسا انصاف کا دن، (١٧) پھر تو کیا
جانے کیسا انصاف کا دن، (١٨) جس دن کوئی جان کسی جان کا کچھ اختیار نہ
رکھے گی اور سارا حکم اس دن اللہ کا ہے
،
یعنی ایسا دور کہ جب اللہ کریم کے احکام اوراس کی نازل کردہ
راہنمائی،اورعملی زندگی کے ھر گوشے کے لیے عطا کردہ قواعد و ضوابط اپنی روح کے
ساتھ نافذ العمل ھوں گے ۔ انسانوں کے خود ساختہ فیصلوں کے بجائے تمام امور اللہ
کریم کی عطا کردہ راہنمائی میں طے کئے جائیں گے۔۔ جب کسی انسان کا کسی دوسرے انسان
پر کوئی اختیار و اقتدار نہیں ھوگا۔۔۔ محکومیت صرف اللہ تعالٰی کی ھوگی، اور اس ھی
جہت سے اللہ جل شانھ نے خود کو مالک یوم الدین قرار دیا۔۔
آئیے دیکھتے ھیں کہ اس دین کا نفاذ کیسے ھو گا۔۔۔
دین مشتمل ھے دو حصوں پر۔۔۔
۔۔۔انسان کا معاملہ اللہ تعالٰی کے ساتھ 1
2 ۔۔۔ انسان کا معاملہ انسان کے ساتھ
وہ معاملات جو انسان کے اللہ کریم کے ساتھ ھوتے ھیں انھیں ایمان
کہا جاتا ھے۔۔چنانچہ فرمایا۔۔۔۔
مَنْ ءَامَنَ بِٱللَّـهِ وَٱلْيَوْمِ ٱلْـَٔاخِرِ
وَٱلْمَلَـٰٓئِكَةِ وَٱلْكِتَـٰبِ وَٱلنَّبِيِّـۧنَ ۔۔2/177
کہ آدمی اللہ کو اور یوم آخر اور ملائکہ کو اور اللہ
کی نازل کی ہوئی کتاب اور اس کے پیغمبروں کو دل سے مانے
اللہ نے ایمان کے حوالے سے ان مذکورہ پانچ باتوں کو ماننے کا حکم
دیا ھے۔۔ اگر تدبر سے دیکھا جائے تو یہ پانچ کے پانچ اجزاء ایمان،نظریاتی ھیں۔۔۔ اللہ ، اس کے فرشتے، اور روز
قیامت تو مکمل طور پر نظریاتی باتیں ھیں۔۔ جنھیں کسی دلیل، یا مثال سے بھی سمجھایا
نہیں جاسکتا۔۔۔ کہ وہ ھمارے سامنے محسوس شکل میں ھیں ھی نہیں۔۔۔ لیکن اگر غور
کریں تو اللہ کا نبی اور اس کی کتاب بھی باوجود اس کے کہ وہ محسوس شکل میں ھمارے سامنے
ھوتے ھیں، درحقیقت ان پر ایمان بھی نظریاتی طور پر ھی ھوتا ھے۔ جب ایک نبی
یہ دعوٰی کرتا ھے کہ میں اللہ کا بھیجا ھوا نبی اور رسول ھوں، یا جو کلام وہ پیش
کر رھا ھوتا ھے اور اس کے بارے میں بھی وہ یہ دعوٰی کرتا ھے کہ یہ کلام بھی اللہ
ھی کا ھے، تو اس وقت اس نبی کے پاس بھی اپنی اس بات کو محسوس شکل میں ثابت کرنے کا
کوئی طریقہ نہیں ھوتا۔ اس نبی کے پیروکار اس بات پر بھی صرف اور صرف نظریاتی طور پر ھی ایمان لاتے ھیں۔۔ چنانچہ دین
کا یہ حصہ ایمان با لغیب کہلاتا ھے۔۔۔
ایمان بالغیب پہلے نبی سے لے کر نبی آخر الزماںۖ تک، ایک
ھی شکل میں مستقل اور متواتر ھے۔۔۔ کسی بھی دور میں ، اور کسی بھی حالت میں، دین کے اس
حصہ میں کوئی ترمیم ، تبدیلی، یا رعایت نہیں ھے۔۔۔
دین کا دوسرا حصہ ، انسانوں کا انسانوں سے تعلق ھے۔۔
اس حصہ میں ھمیں، مقصد تخلیق انسانی اور کائنات ، سے آگاہ کیا جاتا ھے۔ اور اس مقصد کے
حصول کے طریقے بتائے جاتے ھیں۔۔ اور یہ مقصد انسانوں میں رہ کر ھی حاصل ھو سکتا ھے
، چنانچہ انسانوں کے درمیان تعلقات کار، اور اختلافی معاملات کے حل کے لیے
راہنمائی مہیا کی جاتی ھے۔ چنانچہ ایک ایسے انسانی معاشرے کے قیام کے لیے، اللہ کریم
کی عطا کی ھوئی راہنمائی کی روشنی میں جدوجہد ، عمل صالحہ کہلاتی ھے۔۔قرآن کریم ایمان اور
عمل صالحہ کو لازم و ملزوم قرار دیتا ھے۔۔ چنانچہ
فرمایا۔۔۔۔
وَٱلْعَصْرِ ﴿١﴾ إِنَّ ٱلْإِنسَـٰنَ لَفِى
خُسْرٍ ﴿٢﴾ إِلَّا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَعَمِلُوا۟ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ
وَتَوَاصَوْا۟ بِٱلْحَقِّ وَتَوَاصَوْا۟ بِٱلصَّبْرِ ۔۔ 103/3
زمانہ کی قَسم (جس کی گردش انسانی حالات پر گواہ ہے)۔ (یا- نمازِ
عصر کی قَسم (کہ وہ سب نمازوں کا وسط ہے)۔ (یا- وقتِ عصر کی قَسم (جب دن بھر چمکنے
والا سورج خود ڈوبنے کا منظر پیش کرتا ہے)۔ (یا- زمانۂ بعثتِ مصطفیٰ (صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم) کی قَسم (جو سارے زمانوں کا ماحصل اور مقصود ہے)،(١) بیشک
انسان خسارے میں ہے (کہ وہ عمرِ عزیز گنوا رہا ہے)،(٢) سوائے ان لوگوں کے جو
ایمان لے آئے اور نیک عمل کرتے رہے اور (معاشرے میں) ایک دوسرے کو حق کی تلقین
کرتے رہے اور (تبلیغِ حق کے نتیجے میں پیش آمدہ مصائب و آلام میں) باہم صبر کی
تاکید کرتے رہے
،
ایمان کے بغیر عمل صالحہ محض ایک دکھاوا ھے۔۔۔ اور عمل صالحہ کے بغیر ایمان کی
تکمیل ادھوری ھے۔۔ جب یہ دونوں اجزاء انسانوں کے ھاتھوں تکمیل پذیر ھوتے ھیں تو اس
کا نتیجہ زمین میں غلبہ کی صورت برآمد ھوتا ھے۔۔۔ چنانچہ
فرمایا۔۔۔
وَعَدَ
ٱللَّـهُ ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ مِنكُمْ وَعَمِلُوا۟ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ
لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِى ٱلْأَرْضِ كَمَا ٱسْتَخْلَفَ ٱلَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ
وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ ٱلَّذِى ٱرْتَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم
مِّنۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا ۚ يَعْبُدُونَنِى لَا يُشْرِكُونَ بِى
شَيْـًٔا ۚ وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَأُو۟لَـٰٓئِكَ هُمُ
ٱلْفَـٰسِقُونَ ۔۔ 24/55
جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے ان سے خدا کا
وعدہ ہے کہ ان کو ملک کا حاکم بنادے گا جیسا ان سے پہلے لوگوں کو حاکم بنایا تھا
اور ان کے دین کو جسے اس نے ان کے لئے پسند کیا ہے مستحکم وپائیدار کرے گا اور خوف
کے بعد ان کو امن بخشے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی چیز کو شریک
نہ بنائیں گے۔ اور جو اس کے بعد کفر کرے تو ایسے لوگ بدکردار ہیں
یعنی ایمان اور عمل صالحہ کا لازمی نتیجہ زمین میں اقتدار ھے ، اور اس اقتدار کا واحد مقصد اللہ کریم کی عبودیتھے۔۔
اور عبودیت خداوندی کا مطلب ان احکامات، قواعد و ضوابط، اصول، اور راہنمائی، جو
اللہ کی طرف سے انسانوں کو عطا کی گئی ، اس کا عملی نفاذ،ھے۔۔۔
چنانچہ فرمایا۔۔۔
ٱلَّذِينَ إِن مَّكَّنَّـٰهُمْ فِى ٱلْأَرْضِ أَقَامُوا۟
ٱلصَّلَوٰةَ وَءَاتَوُا۟ ٱلزَّكَوٰةَ وَأَمَرُوا۟ بِٱلْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا۟ عَنِ
ٱلْمُنكَرِ ۗ وَلِلَّـهِ عَـٰقِبَةُ ٱلْأُمُورِ ۔ 22/41
یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم
کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے منع کریں گے اور تمام
معاملات کا انجام کار اللہ کے ہاتھ میں ہے
غور کریں کہ اللہ کے دین کے عملی نفاذ کے لیے ایک خطہ زمین کی ضرورت کیوں ھوتی ھے؟ صرف اس لیے کہ
مومن اس خطہ زمین میں اللہ کریم کا عطا کردہ دین ، یعنی اقامت الصلوٰة ، ایتائے
الزکوٰة ، عمل بالمعروف ، اور نہی المنکر، کو عملی طور پر محسوس
شکلمیں دنیا کے سامنے نافذ کرے، اور اس طرح دنیا کے تمام لوگوں کے
سامنے ان تمام ثمرات کو، کہ جو، ایمان بالغیب کی صورت میںنظروں سے اوجھل
تھے ، مشہود کر دیں۔۔ جس کا نتیجہ ، جوق
در جوق دین
خداوندی میں انسانوں کا داخل ھونا بتایا گیا ھے۔۔۔ فرمایا۔۔
إِذَا
جَآءَ نَصْرُ ٱللَّـهِ وَٱلْفَتْحُ ﴿١﴾ وَرَأَيْتَ ٱلنَّاسَ يَدْخُلُونَ
فِى دِينِ ٱللَّـهِ أَفْوَاجًا﴿٢﴾ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ
وَٱسْتَغْفِرْهُ ۚ إِنَّهُۥ كَانَ تَوَّابًۢا ۔۔ 110/3
جب خدا کی مدد اور فتح کی منزل آجائے گی (١) اور آپ
دیکھیں گے کہ لوگ دین خدا میں فوج در فوج داخل ہورہے ہیں (٢) تو اپنے رب
کی حمد کی تسبیح کریں او راس سے استغفار کریں کہ وہ بہت زیادہ توبہ قبول کرنے والا
ہے
اور اس طرح دین کو غلبہ حاصل ھوگا۔۔ ایک ایسا نظام حکومت
کہ جہاں کوئی انسان کسی انسان کا محکوم نہیں ھوگا۔ جہاں حق
حکومت اللہ تعالٰی
کی ذات کو حاصل ھوگا۔۔ اور اس کی عملی تکمیل کا ذریعہ اللہ
کی کتاب یعنی قرآن ھوگا۔۔
اور اس عمل کا نتیجہ فراوانی رزق اور امن ھوگا ، جس کے لیے یہ ساری
دنیا ترس رھی ھے۔
وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقَامُوا۟ ٱلتَّوْرَىٰةَ وَٱلْإِنجِيلَ وَمَآ
أُنزِلَ إِلَيْهِم مِّن رَّبِّهِمْ لَأَكَلُوا۟ مِن فَوْقِهِمْ وَمِن تَحْتِ
أَرْجُلِهِم ۚ مِّنْهُمْ أُمَّةٌ مُّقْتَصِدَةٌ ۖ وَكَثِيرٌ
مِّنْهُمْ سَآءَ مَا يَعْمَلُونَ ۔۔ 5/66
اور اگر وہ لوگ تورات اور انجیل اور جو کچھ (مزید) ان کی طرف ان کے
رب کی جانب سے نازل کیا گیا تھا (نافذ اور) قائم کردیتے تو (انہیں مالی وسائل کی
اس قدر وسعت عطا ہوجاتی کہ) وہ اپنے اوپر سے (بھی) اور اپنے پاؤں کے نیچے سے (بھی)
کھاتے (مگر رزق ختم نہ ہوتا)۔ ان میں سے ایک گروہ میانہ رَو (یعنی اعتدال پسند
ہے)، اور ان میں سے اکثر لوگ جو کچھ کررہے ہیں نہایت ہی برا ہے
،
فَٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ وَعَمِلُوا۟ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ لَهُم
مَّغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ ۔۔ 22/50
تو جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے ان کے لیے بخشش ہے اور عزت کی
روزی
اب یہاں وہ بنیادی سوال آ جاتا ھے کہ کیا
دین کا نفاذ آناً فاناً ، بزورِ طاقت، راتوں رات بیک جنبش قلم کردیا جائے گا،
یا کسی حکمت عملی کے تحت، بتدریج ھوگا۔۔ قرآن کریم ھمیں یہ بتاتا
ھے کہ اللہ کریم نے دنیا کی تمام اقوام ، اور دنیا کے ھر خطہ میں اپنے انبیاء کی
بعثت فرمائی۔۔ ھر نبی کے ساتھ ایک ضابطہ حیات ، یعنی کتاب بھی نازل فرمائی۔۔ لیکن
سوائے قرآن کریم کے کسی بھی کتاب کی حفاظت کی ذمہ داری نہیں لی۔۔ چنانچہ آج
دنیا میں سوائے قرآن کریم کے کوئی بھی آسمانی کتاب اپنی اصل حالت میں موجود نہیں۔۔
سمجھنے کی بات یہ ھی ھے کہ آخر ایسا کیوں کیا گیا۔
ھم پہلے یہ بات سمجھ چکے ھیں کہ دین دو حصوں پر مشتمل ھوتا ھے۔۔۔ ایک حصہ ایمان کہلاتا ھے ، جبکہ دوسرا حصہ عمل
صالحہ ۔۔ سب سے
پہلے نبی محترم سے لے کر حضورۖ تک دین کا یہ حصہ یعنی ایمان ، ایک اور غیر متبدل رھا۔۔ مگر دین کا
دوسرا حصہ جسے ھم عمل صالحہ سے تعبیر کرتے ھیں۔ ھر قوم کی
فہم و شعور، علاقائی حالات، اور عصر موجودہ کے تقاضوں کے مطابق، اس کے نفاذ کی
صورتیں تبدیل ھوتی رھیں۔۔ ھر نبی محترم نے اپنی قوم کو ایمان کی تلقین فرمائی، جو
پہلے نبی علیہ سلام سے لے کر حضورۖ تک ایک ھی تھا۔ مگر دین کے دوسرے حصہ یعنی
عمل صالحہ کا نفاذ اپنی قوم کی ذھنی سطح، اپنے علاقے کے حالات اور اپنے دور کے تقاضوں
کے مطابق ، اللہ کریم کی عطا کی ھوئی راہنمائی کی روشنی میں ،باھمی مشاورت سے کیا ۔۔
اب ظاھر ھے کہ ھر دور کے تقاضے بدلتے رھے، انسانوں کی علمی سطح بلند ھوتی
چلی گئی، اور اس ھی کے مطابق، دین کے اس حصہ یعنی عمل صالحہ میں مناسب ردو بدل،
کیا جاتا رھا۔ لہٰذا ان ادوار کے نبیوں اور امتوں کو عطا کی جانے والی
ھدایات اور راہنمائی کو محفوط رکھنے کا کوئی مقصد ھی نہ تھا۔۔ چنانچہ ان کتابوں
کو جو درحقیقت اللہ کی نازل کی ھوئی تھیں، اور ھر مومن کے ایمان کا حصہ ھیں ،
محفوظ رکھنے کی کوئی ضمانت ھی نہیں دی گئی ۔۔
اور پھر مشیت خداوندی کے عین مطابق، کہ جب انسانی شعور اور
علم اس مقام تک پہنچ گیا کہ جہاں اسے کسی انسانی وسیلہ کی ضرورت نہ رھی ، اللہ کریم نے
اپنی حکمت بالغہ کے تحت اپنے آخری نبی حضور اکرم، خلق
عظیم ، معراج انسانیت ، رحمت للعالمین ، کی بعثت فرمائی۔۔ اور عین اس کی مشیت کے
مطابق ، عرصہ 23 سال میں ، اس قوم اور مقام کے مخصوص حالات کے
مطابق بتدریج ، اپنی آخری وحی، آنے والے آخری انسان تک کی راہنمائی کے لیے ، نازل
فرمائی۔۔ اور پھر اس کی حفاظت کا ذمہ بھی لے لیا۔۔ اور اس طرح آج
ھمارے ھاتھوں میں اللہ کریم کی آخری وحی اپنی حقیقی اور مکمل شکل میں ، محفوط
و موجودھے۔
اگر قرآن کریم پر غور و فکر کریں تو ھمیں اس میں دو طرح کی سورتیں ملتی ھیں۔۔ اور ان دونوں طرح کی سورتوں
میں دین کے نفاذ کے حوالے سے دو مختلف حکمت عملی اختیار کرنے کی تلقین کی جاتی
ھے۔ پہلا دور کہ جب اللہ کا پیغام پوری طرح انسانوں تک نہیں پہنچا تھا، جب مومنین
طاقت اور تعداد میں کم تھے، جب معاشرہ مکمل طور پر غیر اسلامی تھا۔۔جہاں دین کی
مخالفت اپنی پوری شدت کے ساتھ موجود تھی۔ اللہ کے نبی کو اس بات کی تلقین کی جاتی
تھی کہ تم محبت ، پیار، اور دانشمندی کے ساتھ لوگوں تک اللہ کا پیغام پہنچاو ،اپنے
ھم خیال رفقاء اور قوت میں اضافہ کرو، مخالفین سے نہ الجھو، اور اپنے مشن کی تکمیل
کے لیے اپنے رفقاء کی تربیت کرو کسی سے کسی قسم کی محاذ آرائی اختیار نہ کرو۔ اور
مخالفین سے احسن طریقے سے علیحدگی اختیار کرو۔ اور ساتھ ھی ساتھ اپنے نبی اور ان
کے صحابہ کرام کی حوصلہ افزائی اور دل جوئی کے لیے ان کی ھمت بندھانے کے ساتھ ساتھ
ان مخالفین کو اللہ کے مکافات عمل کے حوالے کر دینے کی ھدایت کی جاتی تھی اور ان
مخالفین کے انجام سے آگاہ کیا جاتا تھا۔
ظاھر بات ھے کہ ایک ایسے وقت میں کہ جب آپ کسی ایسے معاشرے میں رہ
رھے ھوں کہ جہاں آپ تعداد میں تھوڑے ھوں، کم زور ھوں، اور دشمن کثیر تعداد کے ساتھ
ساتھ دنیاوی طاقت سے آراستہ ھو۔۔ دین اور دین کے تمام احکامات کا نفاذ بزور
طاقت و تعزیرممکن ھی نہیں ھو سکتا۔ چنانچہ اس مرحلے میں دین کے وہ
تمام بنیادی اصول، قواعد و ضوابط ، اور قوانین پررضاکارانہ طور پر عمل کرنے کی ترغیب دی جاتی تھی۔
صلوٰة کے اجتماعات چھپ کر ادا کیے جاتے تھے۔ زکوٰة کی جگہ صدقات کی ترغیب دی جاتی
تھی۔ اور مومنین کی زیادہ سے زیادہ ذھنی تربیت کی جاتی تھی کہ یہ لوگ اس سانچے میں ڈھل جائیں ، جیسا اللہ چاھتا تھا۔
ان مومنین میں بہت ساری ایسی اخلاقی برائیاں بھی موجود تھیں کہ جن کی دین میں کوئی
گنجائش ھی نہیں، شراب ، سود، جوا، زنا، غلام لونڈیاں، اور بہت سارے اخلاقی مسائل
تھے۔ لیکن انسانی نفسیات اور رویوں کو مد نظر رکھتے ھوئے،ان مومنین کی تربیت کی جاتی رھی تاں آں کہ وہ خود
اپنے ذھن و دل کی کامل رضامندی اور خواھش کے تحت ان معاشرتی
برائیوں سے الگ
ھوتے چلے گئے۔
یہ دور جیسا کہ ھم جانتے ھیں کہ حضورۖ
کا ھجرت سے پہلےکا مکی دور تھا۔ اس دور کا عرصہ تقریباً 13 سالوں پر محیط تھا۔ اس دور میں قرآن
کریم کی تقریباً 86 سورة مبارکہ نازل ھوئیں۔۔ان تمام سورتوں کا
مطالعہ کیا جائے تو ایک بات بہت واضح انداز میں سامنے آتی ھے کہ اس دور میں سارا
مطمع نظر دین کی بنیادی اساس کو بیان کرنا تھا۔ اور اس کے
نتئجے میں ایک ایسیجماعت
کی تشکیل کا
کام کرنا تھا جو اس دین کے عملی نفاذ کو ممکن بنائے۔۔۔ ان سورتوں میں کوئی
تعزیری حکم نہیں
بھیجا گیا۔ نہ ھی کسی حد کا نفاذ کیا گیا۔۔ کیونکہ یہ
معاملات انفرادی ھوتے ھی نہیں۔۔ ان معاملات کے لیے ایک حکومتکی ضرورت ھوتی ھے۔۔
دوسرا دور جسے ھم مدنی دور کہتے ھیں۔ جو آنحضورۖ
کی ھجرت کے بعد شروع ھوا، اس دور میں اس خطہ زمین پر ایک اسلامی
مملکت قائم ھوئی۔۔
اور اس دور میں اللہ کریم کی طرف سے 28 سورتیں نازل ھوئیں۔۔ ان سورة مبارکہ میں تمام قوانین،
اصول، ضوابط اور حدود کے احکامات نازل ھوئے۔۔ جنھیں عملی طور پر ایک حکومت کی رٹ
کے طور پر نافذ العمل کیا گیا۔ باقائدہ
نظام عدل کا قیام عمل میں آیا اور ان قوانین خداوندی پر بزور طاقت عمل کروایا گیا۔۔
چونکہ قرآن اللہ کی آخری کتاب ھے، جس نے آنے والے اس آخری انسان کی راہنمائی بھی کرنی ھے کہ جس کے آنے
میں ابھی ھزاروں سال کا عرصہ باقی ھے۔۔ اس
دین نے پوری دنیا میں غالب آنا ھے۔۔اور ھم جانتے ھیں کہ دنیا کے
مختلف ممالک کے اپنے اپنے حالات ، موسم، طرز رھائش، بود و باش ، اور وھاں بسنے
والے انسانوں کی اپنی اپنی نفسیات ھوتی ھے ، چنانچہ اس عالمگیریت کو مد نظر رکھتے ھوئے، اللہ کریم نے
اپنی اس کتاب قرآن کریم میں بہت کم ایسے معاملات زندگی تھے کہ جن کے قوانین
اور ان کی جزئیات کو
طے کر دیا۔۔ اور اکثر کے صرف اصول وضع کر دئیے گیے۔۔ اور مومنین کو
بتا دیا گیا کہ وہ باھمی مشاورت کے ساتھ۔ اللہ کے بتائے ھوئے ان اصولوں
کی روشنی میں اپنے اپنے حالات کے تقاضوں کے مطابق قانون سازی کریں ،اور اس
طرح دین کو نافذ کریں۔ اور اس طرح اللہ کے وہ تمام وعدے اور دعووں کو مشہود شکل
میں دنیا کے سامنے عملی طور پر متشکل کرکے دکھائیں۔
جہاں تک انسانی جرائم اور ان کی سزاوں کا تعین ھے تو
قرآن کریم نے اس کی تین اشکال بیان کی ھیں۔۔
قید کی سزا، بدنی سزا ،
سزائے موت۔
1۔۔۔
جرم کی نوعیت کے مطابق سزائے قید۔۔
اس میں مالی بدعنوانیوں، مثلاً چوری، ڈکیتی، لوٹ مار، کرپشن وغیرہ،
سے متعلق جرائم کی سزا قید ھوگی۔۔ یہ جو چوری کی سزا ھمارے یہاںھاتھ کاٹنا سمجھا جاتا ھے میں اس سے متفق
نہیں۔۔ میرا استدلال یہ ھے کہ اللہ کریم اول تو کوئی ایسی سزا تجویز کر ھی نہیں
سکتے کہ جس سے معاشرے میں اپاھنج اور معذورں کی تعداد میں اضافہ ھو جائے۔۔ مزید یہ
بات عقلی تقاضوں کے تحت بھی نہیں آتی۔۔ کیونکہ یہ سزا قابل
عمل ھی نہیں۔۔اس
کی مثال یوں ھے کہ فرض کریں ایک شخص چوری کرتا ھے، آپ اس کا بایاں
ھاتھ کاٹ دیتے
ھیں۔۔ وہ شخص دوبارہ اس جرم کا ارتکاب کرتا ھے، آپ اس کا داھنا
ھاتھ کاٹ
دیتے ھیں۔۔ اب اگر یہ شخصتیسری
بار یہ جرم کرے تو
آپ اس کے لیے کیا سزا تجویز کریں گے؟؟ لہٰذا یہ سزا ممکن
العمل ھی
نہیں۔۔ اس طرح دیگر قباحتیں بھی ھیں کہ چوری، خواہ ایک سو کی ھو، ایک ھزار کی ھو، یا ایک لاکھ کی۔۔
تو کیا پیمانہ ھوگا، کہ سو والے کو بھی وھی سزا دی جائے جو
لاکھ والے کو دی جائے گی۔۔ یہ تو انصاف
کے تقاضوں کے
منافی بات ھے۔۔قطع ید کا مطلب صرف ھاتھ
کاٹنا ھی نہیں
ھوتا بلکہ ھاتھوں کو روک دینا بھی ھوتا ھے۔۔۔ جیسے ھم اپنے روز مرہ کے
معاملات میں قطع تعلق جیسے الفاظ استعمال کرتے ھیں۔ چنانچہ
چوری کے حوالے سے ایک طرف ایسے حالات پیدا کرنے ھوں گے کہ کسی کو اس جرم کی ضرورت
ھی نہ رھے، تو دوسری طرف جرم کی نوعیت اور مالیت کے حساب سے قید کی سزا دی جائے
گی۔۔
2۔۔
اخلاقی جرائم پر بدنی سزا۔۔
ایسے اخلاقی جرائم جو معاشرے میں بے راہ روی کا باعث ھوں۔۔ان پر بدنی سزا دی جائے گی۔۔ اور مثآل کے طور پر زنا کی سزا سو کوڑے
مقرر کر کے راہنمائی کر دی گئی ھے۔۔
3۔۔
انتہائی سزا یعنی موت۔۔
ایسے جرائم کہ جس سے کسی انسان کی جان چلی جائے،
یا معاشرے کا سارا نظام تتر بتر کر دیا جائے، فساد و انتشار کو جنم دیا جائے۔۔ اس کی انتہائی سزا
موت مقرر کر دی گئی ۔۔ یہ ھی وجہ ھے کہ میں منشیات کے کاروبار کرنے والوں کو سزائے موت کا
حقدار سمجھتا ھوں، اور اس ھی طرح توھین رسالت کے مجرم کو بھی موت کی سزا کا
قائل ھوں۔
اس مقام پر وہ بات کہ جو اس سارے مضمون کا حاصل ھے بیان کرنا چاھوں
گا۔۔ کہ جب بھی دین کی بات ھوتی ھے، اس کے نفاذ کی بات ھوتی ھے ، تو ھمارے بہت سارے
محترم دوست، مختلف اقسام کی توضیحات اور ان توضیحات کے حق میں قرآن کریم کی مختلف
آیات مبارکہ پیش کرتے ھیں۔۔ اس مقام پر تفکر اور تدبر کے حوالے سے وہ اس اھم نکتہ کو نظر انداز کر دیتے ھیں کہ دین
کا نفاذ بتدریخ ھوگا، بلکل
اس ھی طرح کہ جس طرح حضور کی مکی زندگی اور مدنی زندگی میں ھوا تھا۔۔ اگر مسلمانوں کیحکومت قائم نہیں تو دین
کا نفاذ ترغیب و تلقین اور کسی سے الجھے بغیر کیا جائے گا۔ لیکن اگر مسلمانوں
کی حکومت قائم
ھے تو دین کا نفاذ بزور طاقت بھی کیا جائے
گا۔ کچھ دوستوں کا یہ استدلال بھی ھوتا ھے کہ جب تک پورا معاشرہ اسلامی نہیں ھو جاتا اس میں دین کے کسی بھی
قانون کا نفاذ نہیں کیا جا سکتا۔۔۔ ان کی خدمت میں عرض ھے کہ معاشرہخود ھی تو اسلامی نہیں ھو سکتا۔۔ قرآن
کے احکامات اور قوانین کا نفاذ اور ان پر عمل درآمد کا نتیجہ ھی اسلامی معاشرہ
ھوتا ھے۔۔جو دوست اپنے موقف کے حق میں قرآنی آیات کا حوالہ دیتے
ھیں انھیں اس بات کا بہت خیال کرنا چاھیے کہ جن سورة مبارکہ سے یہ حوالہ دیا جا
رھا ھے وہ مکی سورة ھیں یا مدنی۔۔
اگر ان کے حوالے مکی سورة سے ھوں گے تو وہ صرف اس وقت ھی نافذ
العمل ھوں گے کہ ااگر اسلامی حکومت قائم نہ ھو اور دین پر انفرادی طور پر عمل کیا جا رھا ھو۔۔
میرے کچھ مہربان دوستوں نےمیرے نوٹ "
توھین رسالت " کے
حوالے سے اپنے اختلافی موقف میں کچھ قرآنی آیات کا حوالہ دے
کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ توھین رسالت کی سزا انسانوں کے ذمہ نہیں بلکہ یہ سزا
اللہ تعالٰی خود ھی دیں گے۔۔ان کی خدمت میں عرض کروں گا کہ آپ نے ان حوالہ جات کے
ضمن میں بنیادی طورپر وھی غلطی کی ھے جس کی نشاندھی میں اوپر کر چکا
ھوں۔۔ آپ کے تمام حوالے اس مکی دور میں نازل ھونے والی سورة مبارکہ
مثلاً سورة انعام ، سورة النحل ، سورة
الفرقان، سورة الروم، سورة الزمر، سورة فصلت ،سورة الشعراء ،سورة الزخرف ،سورة
الاعراف ، سورة الکافرون، سے
ھیں کہ جب ھنوز دین کو غلبہ حاصل نہیں ھوا
تھا۔ اور ایسی صورت میں کسی قانون کا بنانا اور اس کے نفاذ
کا تو سوال ھی پیدا نہيں ھوتا۔۔ چنانچہ مومنین کی دل جوئی کے لیے اللہ ان کی ڈھارس
بندھاتے ھوئے انھیں یقین دلاتے ھیں کہ تم یہ معاملہ مجھ پر چھوڑ دو۔۔۔
لیکن تمکن فی الارض کے بعد ایسے لوگوں کو کہ جو شریف خواتین
اور خصوصاً حضور کے گھرانے کی خواتین کو تنگ کریں، شہر میں افواہ سازی کریں، انھیں
چن چن کر قتل کرنے کا حکم دیا گیا۔۔ ملاحظہ فرمائیں۔
إِنَّ ٱلَّذِينَ يُؤْذُونَ ٱللَّـهَ وَرَسُولَهُۥ لَعَنَهُمُ
ٱللَّـهُ فِى ٱلدُّنْيَا وَٱلْـَٔاخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا
مُّهِينًا ﴿٥٧﴾ وَٱلَّذِينَ يُؤْذُونَ ٱلْمُؤْمِنِينَ وَٱلْمُؤْمِنَـٰتِ
بِغَيْرِ مَا ٱكْتَسَبُوا۟ فَقَدِ ٱحْتَمَلُوا۟ بُهْتَـٰنًا وَإِثْمًا
مُّبِينًا ﴿٥٨﴾ يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّبِىُّ قُل لِّأَزْوَٰجِكَ وَبَنَاتِكَ
وَنِسَآءِ ٱلْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن
جَلَـٰبِيبِهِنَّ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰٓ أَن يُعْرَفْنَ فَلَا
يُؤْذَيْنَ ۗ وَكَانَ ٱللَّـهُ غَفُورًا رَّحِيمًا ﴿٥٩﴾ لَّئِن
لَّمْ يَنتَهِ ٱلْمُنَـٰفِقُونَ وَٱلَّذِينَ فِى قُلُوبِهِم مَّرَضٌ
وَٱلْمُرْجِفُونَ فِى ٱلْمَدِينَةِ لَنُغْرِيَنَّكَ بِهِمْ ثُمَّ لَا
يُجَاوِرُونَكَ فِيهَآ إِلَّا قَلِيلًا﴿٦٠﴾ مَّلْعُونِينَ ۖ أَيْنَمَا ثُقِفُوٓا۟ أُخِذُوا۟
وَقُتِّلُوا۟ تَقْتِيلًا ﴿٦١﴾ سُنَّةَ ٱللَّـهِ فِى ٱلَّذِينَ خَلَوْا۟
مِن قَبْلُ ۖ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ ٱللَّـهِ تَبْدِيلًا۔۔ 57/33
بیشک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو
اذیت دیتے ہیں اللہ ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت بھیجتا ہے اور اُس نے ان کے لئے
ذِلّت انگیز عذاب تیار کر رکھا ہے، (٥٧) اور جو لوگ مومِن مَردوں اور
مومِن عورتوں کو اذیتّ دیتے ہیں بغیر اِس کے کہ انہوں نے کچھ (خطا) کی ہو تو بیشک
انہوں نے بہتان اور کھلے گناہ کا بوجھ (اپنے سَر) لے لیا، (٥٨) اے نبی!
اپنی بیویوں اور اپنی صاحبزادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرما دیں کہ (باہر
نکلتے وقت) اپنی چادریں اپنے اوپر اوڑھ لیا کریں، یہ اس بات کے قریب تر ہے کہ وہ
پہچان لی جائیں (کہ یہ پاک دامن آزاد عورتیں ہیں) پھر انہیں (آوارہ باندیاں سمجھ
کر غلطی سے) ایذاء نہ دی جائے، اور اللہ بڑا بخشنے والا بڑا رحم فرمانے والا
ہے،(٥٩) اگر منافق لوگ اور وہ لوگ جن کے دلوں میں (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم سے بُغض اور گستاخی کی) بیماری ہے، اور (اسی طرح) مدینہ میں جھوٹی افواہیں
پھیلانے والے لوگ (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایذاء رسانی سے) باز نہ آئے تو
ہم آپ کو ان پر ضرور مسلّط کر دیں گے پھر وہ مدینہ میں آپ کے پڑوس میں نہ ٹھہر
سکیں گے مگر تھوڑے (دن)، (٦٠) (یہ) لعنت کئے ہوئے لوگ جہاں کہیں پائے
جائیں، پکڑ لئے جائیں اور چُن چُن کر بری طرح قتل کر دیئے
جائیں، (٦١) اللہ کی (یہی) سنّت اُن لوگوں میں (بھی جاری رہی) ہے جو
پہلے گزر چکے ہیں، اور آپ اللہ کے دستور میں ہرگز کوئی تبدیلی نہ پائیں گے،
آیت مذکورہ میں پہلی بات تو یہ ھی واضح ھے کہ اللہ کے رسول کو اذیت
دینے والوں پر لعنت اس دنیا سے ھی شروع ھو جاتی ھے یہمحض آخرت کی بات نہیں۔۔۔ مزید یہ کہ اگر
نبی کے گھرانے کی عورتوں اور دیگر شریف مسلمان عورتوں کو افواہ سازی کے ذریعہ اس
طرح ایذا دی جانے کہ معاشرے میں انتشار پھیل جائے، تو ایسے مجرموں کو بھی چن چن کر قتل کردینے کا حکم ھے، تو پھر نبی کی حرمت، اس کو ایذا رسانی سے بڑا کون سا
جرم یا انتشآر ھوگا کہ اس کی سزا موت نہ نافذ کی جائے۔۔
No comments:
Post a Comment