غیرت و حمیت
تاریخ کے اوراق پلٹیے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اسپین کی صدیوں پر محیط اسلامی
ریاست کے خاتمے کی آخری گھڑی کے موقع پر، آخری بادشاہ اپنے محل سے باھر نکالا جا
رھا ھے۔۔۔۔۔۔۔۔ ساتھ میں اس کی ماں ملکہ معظمہ ۔۔۔ اور پھر بادشاہ پلٹ کر اپنے محل
کو دیکھتا ھے۔۔۔۔۔۔۔ اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ھو جاتے ھیں۔۔ اور درد اور الم کے
ان کربناک لمحوں میں ملکہ کی زبان سے یہ تاریخ ساز الفاظ ادا ھوتے ھیں کہ۔۔
" جس سلطنت کی حفاظت
مردوں کی طرح نہ کر سکے اس کے چھننے پر عورتوں کی طرح آنسو بھی نہ
بہاؤ"۔۔۔۔۔۔۔۔
عزت، غیرت ، حمیت اور خود داری وہ جنس نایاب ھیں کہ جن کی
آبیاری اپنے خون سے کرنی پڑتی ھے۔۔۔۔۔ نہ تو یہ بھیک میں ملتی ھے اور نہ ھی
آسمانوں سے نازل ھوتی ھے۔۔۔۔۔۔۔۔ دنیا کی تاریخ گواہ ھے کہ جب بھی کسی قوم کا زوال
ھوا۔۔۔ اس کی ابتداء میں یہ گوھر نایاب اس قوم سے روٹھ گیے۔۔۔ اور پھر رفتہ
رفتہ وہ قوم ایک قصہ بن کے رہ جاتی ھے۔۔۔
وقت کرتا ھے پرورش برسوں
حادثے نا گہاں نہیں ھوتے۔۔۔
وطن عزیز کی ناموس جس طرح آج ساری دنیا کے سامنے ایک تماشا بنی
ھوئی ھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا یہ ھمارا مقدر ھے۔۔۔ کہ جس پر صبر اور شکر ادا کر کے اور
آنسو بہا کے بیٹھ جائیں۔۔۔۔۔۔۔ کیا دنیا کی یہ عظیم قوم کہ جس میں وہ صلاحیتیں
موجود ھیں کہ وہ ساری دنیا کی راہنمائی کر سکتی ھے۔۔۔ چند بے غیرت، ضمیر فروش، بے شرم اور دولت کے پجاریوں کے ھاتھوں یرغمال بنی رھے گی۔۔۔ کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ ھم
رُک کر ان اسباب کا جائزہ لیں۔۔۔ کہ جس نے ھماری عزت اور غیرت کو دوسروں کے ھاتھوں
چند سکوں کے عوض گروی رکھ دیا ھے۔۔۔ کیا ھمیں اپنا احتساب نہیں کرنا
چاھیے۔۔۔۔۔ آئیے اللہ کی کتاب سے یہ سوال کریں کہ آخر یہ قوم کہ
جس نے ایک خطہ زمین اللہ کے نام پر حاصل کیا تھا۔۔۔ کہ جس ملک کو اس کریم اور رحیم
نے دنیا کی ھر نعمت اور دولت سے مالا مال کیا ھوا ھے۔۔ کیوں اس طرح بے توقیری کا
شکار ھے؟؟؟؟
قرآن کریم نے قوموں کے عروج و زوال کی کئی داستانیں بیان کی ھیں
۔۔۔ جو ھمارے لیے عبرت کا سامان مہیا کرتی ھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرمایا۔۔۔۔۔
وَكُلَّ إِنسَـٰنٍ أَلۡزَمۡنَـٰهُ طَـٰٓٮِٕرَهُ ۥ فِى عُنُقِهِۦۖ وَنُخۡرِجُ لَهُ ۥ يَوۡمَ ٱلۡقِيَـٰمَةِ ڪِتَـٰبً۬ا يَلۡقَٮٰهُ
مَنشُورًا ( ١٣ ) ٱقۡرَأۡ كِتَـٰبَكَ
كَفَىٰ بِنَفۡسِكَ ٱلۡيَوۡمَ عَلَيۡكَ حَسِيبً۬ا ( ١٤ ) مَّنِ ٱهۡتَدَىٰ فَإِنَّمَا يَہۡتَدِى لِنَفۡسِهِۦۖ وَمَن ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيۡہَاۚ وَلَا
تَزِرُ وَازِرَةٌ۬ وِزۡرَ أُخۡرَىٰۗ وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّىٰ نَبۡعَثَ رَسُولاً۬ ( ١٥ ) ۔۔۔17/15
اور ہم نے ہر انسان کے اعمال کا نوشتہ اس کی گردن میں لٹکا
دیا ہے، اور ہم اس کے لئے قیامت کے دن (یہ) نامۂ اعمال نکالیں گے جسے وہ (اپنے
سامنے) کھلا ہوا پائے گا، (١٣) (اس سے کہا جائے گا:) اپنی کتابِ
(اَعمال) پڑھ لے، آج تو اپنا حساب جانچنے کے لئے خود ہی کافی ہے، (١٤)جو کوئی
راہِ ہدایت اختیار کرتا ہے تو وہ اپنے فائدہ کے لئے ہدایت پر چلتا ہے اور جو شخص
گمراہ ہوتا ہے تو اس کی گمراہی کا وبال (بھی) اسی پر ہے، اور کوئی بوجھ اٹھانے
والا کسی دوسرے (کے گناہوں) کا بوجھ نہیں اٹھائے گا، اور ہم ہرگز عذاب دینے والے
نہیں ہیں یہاں تک کہ ہم (اس قوم میں) کسی رسول کو بھیج لیں،
آیت مذکورہ سے واضح ھوتا ھے کہ یہ اللہ کریم کی سنت ھے کہ
جب تک کسی قوم میں کوئی آگاہ کرنے والا نہ بھیج دیا جائے۔۔ اور اس قوم کی صحیح اور
غلط راھوں کی راہنمائی نہ کر دی جائے۔۔ اس قوم پر عذاب نازل نہیں کیا جاتا۔۔۔۔
مزید ، یہ بھی اللہ کا قانون ھے کہ ھدایت اور گمراھی انسان کے اپنے اختیار اور
ارادے کی بات ھے۔۔۔ نہ خدا کسی کو گمراہ کرتا ھے اور نہ ھی زبردستی ھدایت دیتا
ھے۔۔۔چنانچہ جو ھدایت حاصل کرنا چاھتا ھے تو اسے ھدایت مل جاتی ھے۔۔ اور جو گمراھی
کا راستہ اختیار کرتا ھے تو اس کا نقصان اس کی اپنی ذات کو پہنچتا ھے۔۔۔ اور یہ
بھی اللہ کا اٹل قانون ھے کہ کہ کوئی بوجھ اُٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں
اُٹھائے گا۔۔ خدا کا یہ قانون کتنا محکم ھے کہ کوی بوجھ اُٹھانے والا کسی دوسرے کا
بوجھ نہیں اُٹھائے گا۔۔ اس کا اندازہ اس اگلی آیت مبارکہ سے ھوتا ھے ۔۔ فرمایا۔۔۔
وَإِذَآ أَرَدۡنَآ أَن نُّہۡلِكَ قَرۡيَةً أَمَرۡنَا مُتۡرَفِيہَا فَفَسَقُواْ فِيہَا فَحَقَّ عَلَيۡہَا ٱلۡقَوۡلُ فَدَمَّرۡنَـٰهَا
تَدۡمِيرً۬ا۔۔۔17/16
قوموں کی تباھی کے لیے خدا کا قانون یہ ھے۔۔کہ جب وہ آرام پسند،
محنت کئے بغیر زیادہ سے زیادہ مال و دولت حاصل کرنے کی خواھش مند، عیش پرست اور
سرمایہ دارانہ ذھنیت کی حامل ھو جاتی ھے، اور اس طرح اُس صحیح راستے کو چھوڑ
کر، جو ان کے سامنے واضح طور پر آ چکا ھوتا ھے، غلط راستوں کو اختیار کر لیتی ھے،
تو وہ تباھی کی مستوجب ھو جاتی ھے، اور پھر اس طرح ھلاک کر دی جاتی ھے کہ اس کا
نام و نشان تک باقی نہیں رھتا۔۔ [مفہوم
اب ھوتا کیا ھے۔۔۔ کہ اس قوم میں ایسے لوگ جنھیں قرآن اپنی مخصوص
اصطلاح میں " مترفین " کہتا ھے۔۔ بڑی تعداد میں جمع ھو جاتے ھیں۔۔۔ یہ ایسے لوگوں کا گروہ
ھوتا ھے کہ جو خود کچھ بھی نہیں کرتے مگر دوسروں کی محنت کی کمائی پر عیش کرتے
ھیں۔۔ اور اس کے نتیجے میں اللہ کا وہ مستقل قانون ، "کہ کوئی بوجھ اُٹھانے
والا دوسرے کا بوجھ نہیں اُٹھائے گا" ۔۔ کی خلاف ورزی شروع ھو جاتی ھے۔۔۔ جس
کا نتیجہ اس قوم کی بربادی اور تباھی ھے۔۔۔ اس ھی بات کو دوسرے مقام پر اس طرح سے
بیان کیا گیا ھے۔۔۔
فرمایا۔۔۔
ضَرَبَ ٱللَّهُ مَثَلاً۬ قَرۡيَةً۬ ڪَانَتۡ ءَامِنَةً۬ مُّطۡمَٮِٕنَّةً۬ يَأۡتِيهَا
رِزۡقُهَا رَغَدً۬ا مِّن كُلِّ مَكَانٍ۬ فَڪَفَرَتۡ بِأَنۡعُمِ
ٱللَّهِ فَأَذَٲقَهَا ٱللَّهُ
لِبَاسَ ٱلۡجُوعِ وَٱلۡخَوۡفِ بِمَا ڪَانُواْ يَصۡنَعُونَ۔۔16/112
اللہ ایک بستی کی مثال دیتا ہے وہ امن و اطمینان کی زندگی بسر کر
رہی تھی اور ہر طرف سے اس کو بفراغت رزق پہنچ رہا تھا کہ اُس نے اللہ کی نعمتوں کا
کفران شروع کر دیا تب اللہ نے اس کے باشندوں کو اُن کے کرتوتوں کا یہ مزا چکھایا
کہ بھوک اور خوف کی مصیبتیں ان پر چھا گئیں۔۔
دوستو۔۔۔۔ بہت توجہ اور ایمانداری کے ساتھ اس بات پر غور و فکر
کرنے کی ضرورت ھے کہ کیا آج یہ ساری قوم، ان دونوں جرائم ، کہ مترفین کو پالنا اور
اللہ کی نعمت کا کفران کرنا۔۔۔ کی مرتکب نہیں؟؟
کیا آج ھم نے بھی ان ھزاروں کی تعداد میں حکمرانوں کی فوج ،
بیوروکریسی ، ممبران اسمبلی، سینٹ ، اور جرنیل ، اور مذھبی پیشواؤں ۔۔۔۔ کا بوجھ
اپنے کاندھوں پر نہیں اُٹھا رکھا ؟؟؟
کیا ھم نے اپنے رب کی عطا کی ھوئی اس نعمت عظیم یعنی مملکت پاکستان
کے حصول پر شکر گزاری کی ؟؟؟ یا حسب توفیق اس کے جسم کا ریشہ ریشہ کر کے اپنا جہنم
تیار کرتے رھے؟؟؟
دوستو۔۔۔۔ یہ وقت جاگنے کا ھے۔۔۔ ھم میں ھر کوئی اپنے اپنے دائرے
میں ، دوسرے احباب کو حالات کی نزاکت کا احساس دلائے۔۔۔ اور انھیں یہ باور کروائے
کہ اپنے معاملات و مسائل کا حل ھمیں خود ھی ڈھونڈنا ھوگا۔۔ کوئی اور
ھماری مدد کے لیے نہیں آئے گا۔۔
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر ھے
اپنے حصے کی کوئی شمع جلائے رکھنا
No comments:
Post a Comment